ذائقے کے دلچسپ پہلو

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ دسمبر 2009ء میں ذائقہ کے دلچسپ پہلوؤں کے حوالہ سے ایک مضمون ’’احمدی جنتری 2006ء‘‘ سے منقول ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کھانے کے مزے کا اندازہ زبان سے ہوتا ہے لیکن ایک امریکی حیاتیاتی نفسیات دان خاتون کا کہنا ہے کہ ہماری زبان محض چند بنیادی ذائقوں کی نشاندہی کرتی ہے جبکہ کھانے کی خوشبو مختلف مزوں کو محسوس کرتی ہے۔
جب ذائقے کا سوال آتا ہے تو وہاں آپ کی زبان نہیں بلکہ ناک کام کرتی ہے۔ دراصل خوشبو ہی ذائقے کی آئنہ دار ہے۔ مثلاً آپ آنکھیں بند کرکے ناک کو بھی مضبوطی سے بندکرلیں۔ پھر ایک چمچہ آئس کریم منہ کے اندر رکھیں، آپ یہ نہیں بتا پائیں گے کہ اس کا ذائقہ کیا ہے اسٹرابری، ونیلا یا آم۔ لیکن ناک کھولتے ہی ذائقہ سمجھ میں آجائے گا۔ اسی لئے جب نزلے کے باعث آپ کی ناک بند ہوجاتی ہے تو کھانے کا ذائقہ جاتا رہتا ہے۔ سونگھنے کے عمل کے بغیر ہماری زبان صرف کھٹے، میٹھے، نمکین اور کڑوے میں تمیز کرسکتی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ خوراک کے ہمارے ہونٹوں کے درمیان سے گزرنے سے قبل ہی ہم اس کے ذائقے کا مزہ لینے لگتے ہیں۔ ہمارے منہ میں خوراک کے پہنچ جانے کے بعد وہاں سے ہوا نکل کر ناک کی نالی کے پاس پہنچ جاتی ہے اور ذائقے کے متعلق مزید معلومات مہیا کرتی ہے۔
1901ء میں ایک جرمن ڈاکٹر کا نظریاتی کتابچہ شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے زبان کا نقشہ بھی بنایا تھا۔ اس میں بتایا گیا کہ چار بنیادی ذائقوں کو زبان کے چار مختلف حصوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ یعنی میٹھا، کھٹا، کڑوا اور نمکین۔ لیکن موجودہ دور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زبان کے بعض حصے جیسے نوک نمکین اور میٹھے کے لئے زیادہ حساس ہوسکتے ہیں لیکن ذائقے کی حس یا لذّت پوری زبان سے پیدا ہوتی ہے۔ البتہ زبان کا وسطی حصہ ذائقہ کے لئے سب سے کم حساس ہے۔ اگر شکر کا ٹکڑا وہاں رکھ دیں تو کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ اسی طرح تیز مرچیں کھانے والے وہ ہوتے ہیں جو اس کی عادت اپنی زبان کو ڈال لیتے ہیں۔ مرچ کی تیزی کا احساس ذائقہ محسوس کرنے والے غدودوں سے پیدا نہیںہوتا بلکہ درد محسوس کرنے والے غدودوں سے ہوتا ہے جو ذائقے کے غدودوں کے قریب ہی واقع ہیں۔
اسی طرح جب مرچوں سے منہ جلنے لگے تو پھر کسی چیز کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرچوں سے پیدا ہونے والا درد ذائقے کی لہروں کے راستوں کو بند کردیتا ہے اور وہ آگے نہیں گزر پاتیں۔ اسی طرح جو بہت دیر سے کوئی کھانا پکارہا ہو، وہ اس کا ذائقہ نہیں بتا پاتا۔ کیونکہ اُس کا جسم کھانے کے اندر سے نکلنے والی خوشبو کو دیر تک سونگھنے کے باعث اس کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ ذائقہ معلوم نہیں کرسکتا۔
اسی طرح کھانے کی بناوٹ اور اس کا درجہ حرارت بھی ہماری ذائقہ کی حس پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثلاً چاکلیٹ یا آئس کریم جو ہمارے منہ میں جاکر پگھل جاتے ہیں اور ایک نیا ذائقہ مہیا کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں