ہاکی کے عظیم کھلاڑی دھیان چند

ماہنامہ ’’خالد‘‘ جون 2004ء میں مکرم قیصر محمود صاحب کے قلم سے ہاکی کے عظیم کھلاڑی دھیان چند کی سوانح شامل اشاعت ہے۔
دھیان سنگھ 29؍اگست 1905ء کو الہ آباد میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فوج میں صوبیدارتھا۔ اپنے خاندان کے بار بار نقل مکانی سے وہ اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کر سکا۔ اگرچہ اسے بچپن میں کھیلوں سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ کھجور کی شاخ کی ہاکی اور پرانے کپڑوں سے بنے گیند سے ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ جب وہ 16سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوا تو صوبیدار میجر تواری نے محسوس کیا کہ وہ ہاکی کا اچھا کھلاڑی بن سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے دھیان چند کو ایک بڑا کھلاڑی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ چاندنی رات میں بھی ہاکی کی پریکٹس کرتا اور اسی وجہ سے اُس کے انگریز افسر اسے دھیان سنگھ کی بجائے دھیان چند کہنے لگے۔
1925ء میں انڈین ہاکی فیڈریشن قائم ہوئی۔ 1928ء کے ایمسٹرڈم اولمپکس میں انڈین ہاکی ٹیم نے فائنل میں میزبان ہالینڈ کو 3-0 سے شکست دی۔ اس فائنل میچ میں دو گول دھیان چند نے کئے۔ یوں پہلی بار کسی ایشیائی ملک نے جدید اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1932ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں دھیان چند نے ایک بار پھر ٹیم کو اولمپک چیمپین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کے خلاف پُول میچ میں انڈین ہاکی ٹیم نے 24 گول سکور کئے جن میں سے دھیان چند اور اس کے بھائی روپ سنگھ نے آٹھ آٹھ گول سکور کئے۔ 1936ء کے میونخ اولمپکس میں انڈین ٹیم نے دھیان چند کی قیادت میں مسلسل تیسری بار گولڈ میڈل حاصل کیا۔ فائنل میں انڈیا نے 40 ہزار تماشائیوں اور ایڈولف ہٹلر کی موجودگی میں میزبان جرمنی کو 8-1 گول سے شکست دی۔ انڈیا کی طرف سے چھ گول دھیان چند نے کئے۔ میچ کے بعد ہٹلر نے دھیان چند کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور اسے پیشکش کی کہ اگر وہ انڈیا سے جرمنی آجائے تو اسے کرنل کے عہدہ پر ترقی دیدی جائے گی لیکن دھیان چند نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔
اس کے بعد دھیان چند کی ہاکی جنگ عظیم کی نذر ہوگئی۔ اُس نے مجبوراً دو اولمپکس مقابلہ جات سے محرومی کے بعد 1948ء میں ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ پھر اُس کا بیٹا اشوک کمار سنگھ 1970ء کی دہائی میں انڈیا کی قومی ٹیم کے لئے کھیلا اور 1975ء میں کوالالمپور میں ہاکی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان کے خلاف اس نے اپنی ٹیم کے لئے فیصلہ کن گول سکور کیا۔
1956ء میں وہ فوج سے ریٹائرڈ ہوا تو میجر کے عہدہ پر فائز تھا۔ اسی سال اُسے انڈین گورنمنٹ نے ’’پدما بھوشان‘‘ ایوارڈ سے نوازا۔ 1979ء میں اُس کی وفات پر انڈیا نے اس کا یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ اُس کو یہ اعزاز بھی ملا کہ ویانا (آسٹریا) سپورٹس کلب میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے چار ہاتھ ہیں اور ہر ہاتھ میں ایک ہاکی سٹک پکڑی ہوئی ہے۔ انڈیا میں قومی کھیلوں کا دن دھیان چند کی سالگرہ والے دن 29؍اگست کو منایا جاتا ہے۔
1936ء کے برلن اولمپکس سے قبل انڈین ہاکی ٹیم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دورہ کیا اس دورہ میں دھیان چند نے 200 سے زائد گول سکور کئے جس پر سر ڈان بریڈ مین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’دھیان چند رنز سکور کررہا ہے یا گول‘‘۔ ملکہ برطانیہ کا اس کے کھیل سے متاثر ہوکر یہ کہنا کہ ’’دھیان چند اگر میری چھتری کو بھی ہاکی کے طور پر استعمال کرے تو وہ گول اسکور کر سکتا ہے‘‘ اس کے اعلیٰ کھیل کا اعتراف ہے۔ برطانوی پریس سے Hockey Wizardاور Human eel جیسے خطاب حاصل کرنے کے بعد 1928ء کے اولمپکس میں انڈیا کے ہاتھوں ہالینڈ کی شکست پر ایک اخبار نے لکھا: ’’یہ ہاکی کا کھیل نہیں تھا بلکہ یہ تو ایک جادو تھا اور دھیان چند درحقیقت ہاکی کا جادوگر ہے۔‘‘
جرمنی میں ایک نمائشی میچ میں ایک تماشائی نے اسے چلنے والی چھڑی (Walking Stick)دی اور اسے کہا کہ وہ اپنی ’’جادو کی ہاکی‘‘ مجھے دیدے۔ دھیان چند نے اس Walking Stickسے بھی چند گول سکور کئے۔ ہالینڈ کے ایک دورہ میں اس کی ہاکی کا معائنہ بھی کیا گیا۔ کئی میچز میں اس کی ہاکی تبدیل بھی کروائی گئی لیکن اس کے کھیل پر کوئی اثر نہ پڑا۔
3دسمبر 1979ء کو اس کا انتقال ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں