دمہ ایک تکلیف دہ بیماری – جدید تحقیق کی روشنی میں

دمہ ایک تکلیف دہ بیماری – جدید تحقیق کی روشنی میں
(ناصر محمود پاشا)

ایک رپورٹ میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جن خواتین کو دمے یا سانس سے متعلق مسائل لاحق ہوں ان کو گھروں میں جھاڑپونچھ کے کام سے گریز کرنا چاہئے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین میں دمے کی علامات کی بڑی وجہ گھروں میں صفائی کا عمل ہے، جس میں قالین کی صفائی سب سے زیادہ خطرناک قرار دی گئی ہے۔ یونیورسٹی آف سین سٹانی کالج میڈیسن کے ڈاکٹر جوناتھن نے اپنی اس تحقیق میں کہا ہے کہ دمے یا سانس کی بیماری میں مبتلا خواتین کو صفائی کے عمل کے دوران ماسک استعمال کرنے چاہئیں۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ سانس کی بیماریوں میں الرجی، دمہ اور سانس کی نالیوں میں خراش کا گھر کی صفائی کے عمل کے براہ راست تعلق ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان میں دمے کے مرض میں 76فیصد اضافہ ہوا ہے اور اِس وقت پاکستان کی پانچ فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے۔ دمے کا مرض امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بڑھ رہا ہے جس کی ممکنہ وجوہات میں صنعت کاری، ماحولیاتی آلودگی اور شہروں کا پھیلاؤ شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دمہ مکمل طور پر قابل علاج مرض ہے جس کے شکار افراد صحیح ادویات کے استعمال اور اپنے معالج کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ دمہ ایک موروثی مرض ہے جو والدین کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے تاہم یہ کوئی چھوت کا مرض نہیں ہے اور نہ ہی روزمرہ کے میل جول سے پھیلتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بعض لوگوں کو ٹھنڈی ہوا، ورزش، دھوئیں، مخصوص غذاؤں یا کیمیائی مادوں، گھریلو گردوغبار میں موجود خوردبینی کیڑوں کے علاوہ جذبات میں اُتارچڑھاؤ کی وجہ سے بھی دمے کے دورے پڑ سکتے ہیں۔ بعض مخصوص دواؤں سے بھی دمے کے دورے کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ان دواؤں میں اسپرین اور درد دُور کرنے والی بعض دوائیں مثلاً آئی بیو بروفن، امراض قلب میں استعمال ہونے والی بیٹا بلاکس دوائیں اور آنکھوں کے مرض گلاکوما میں استعمال ہونے والی دوائیں شامل ہیں۔ اس لئے دمے کے شکار مریضوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جب بھی کسی ڈاکٹر سے نسخہ لکھوائیں تو اپنے مرض کا ذکر بھی ضرور کریں۔ اسی طرح بعض مریضوں کو رونے، بہت زیادہ خوش ہونے یا پریشان ہونے، یہاں تک کہ زیادہ ہنسنے سے بھی دمے کی علامتیں نمایاں ہوسکتی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قالین کے نیچے اور بستر کے اوپر ایسے بے شمار خوردبینی حشرات (یعنی Dust Mites) موجود ہوتے ہیں جو انسانی کھال سے جھڑنے والے ذرّات پر گزارا کرتے ہیں۔ بعض مریضوں کو اِن کیڑوں کے باعث بھی دمے کے دورے پڑسکتے ہیں جبکہ اکثر مریض اِن کیڑوں کے فضلے پر موجود پروٹین کی تہہ سے بھی متأثر ہوسکتے ہیں۔ چونکہ یہ کیڑے گرم مرطوب فِضا میں تیزی سے پھلتے پھولتے ہیں اس لئے ان کیڑوں کے بداثرات کو کم کرنے کے لئے قالین، بستروں، صوفوں، پردوں اور گدوں وغیرہ کی باقاعدگی سے دھلائی ہونی چاہئے اور پھر انہیں دھوپ میں خشک کیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ کمروں کی اندرونی نمی کی سطح کو کم کرنے کے لئے کھڑکیاں بھی روزانہ کھولنی چاہئیں۔
٭ امریکہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کھیتی باڑی کے دوران فصلوں پر کیڑے مار ادویات چھڑکنے والی خواتین کو دمے کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ ماہرین نے نارتھ کیرولینا اور اوہائیو میں کھیتی باڑی کرنے والی اور دیہی ماحول میں پرورش پانے والی پچیس ہزار خواتین کا مطالعاتی تحقیقی جائزہ لیا اور ان خواتین کے ساتھ دمے کی علامات اور وجوہات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔ بنیادی طور پر ان خواتین کو خارش اور بخار کے باعث دمے کے حوالے سے دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس معالعاتی نتیجے میں معلوم ہوا کہ کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرنے والی خواتین کو دوسری خواتین کی نسبت دمہ لاحَق ہونے کا امکانات پچاس فیصد زیادہ ہیں۔
٭ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ بچپن میں بچوں پر سختی اور تشدد سے پیدا ہونے والے ڈپریشن سے اُن کے اندر دمے کی علامات جنم لے سکتی ہیں۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ جن بچوں کو دمہ لاحق ہو جائے، اُن کے ساتھ خصوصی سلوک روا رکھا جانا چاہئے۔ امریکن یونیورسٹی آف بوفالو میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ڈپریشن جب نروس سسٹم کو متأثر کرتا ہے تو سانس لینے کی دشواری کا عمل شروع ہوتا ہے جس سے دمہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس تحقیق میں جذباتی دباؤ، تشویش، خوف اور اعصابی نظام کے درمیان تعلق دیکھا گیا تھا۔
٭ ایک تحقیق کے مطابق طویل دورانئے کی ٹیلی ویژن نشریات اور انٹرنیٹ پر گھنٹوں کام کرنے والے لوگوں میں سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں جو دمہ کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔ گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈرو شیرف نے اپنی اس تحقیق میں آنکھوں پر دباؤ کے ساتھ ساتھ جب اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے تو سانس لینے کے عمل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے سانس میں تنگی، کھانسی بھاری پن اور دیگر علامات سامنے آتی ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوان لوگوں میں یہ عمل زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ 12سال سے کم عمر کے 6 فیصد بچے صرف ٹیلی ویژن کی وجہ سے دمہ کی علامات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
٭ برطانوی طبی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دن میں دو گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں میں دمے کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دمے کی بیماری اپنے طرز زندگی کو بدلنے سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ اور یہ کہ ورزش کرنے والوں کو دمے کی بیماری نسبتاً کم لاحق ہوتی ہے۔ جریدے ’’تھروکس ‘‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں3 ہزار بچوں کا مطالعہ کیا گیا جن کی عمریں 3 سے 10 سال کے درمیان تھیں۔یہ بچے کھانسی، سانس لینے میں دقّت اور الرجی کی علامات کے شکار تھے۔ گلاسکو یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والی اس تحقیق کو ڈاکٹر جمین پیٹن نے مرتب کیاہے اور اس کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ بچوں میں ٹیلی ویژن دیکھنے کی عادت ڈیڑھ سال سے تین سال کے درمیان پیدا ہوتی ہے۔ تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو بچے ٹیلیویژن کی بجائے کھیل کود میں زیادہ مشغول ہوتے ہیں ان میں دمے کی علامات بہت کم تھیں۔
٭ ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ایسے بچوں میں ٹریفک کی زیادتی کے باعث دمے کی علامات ظاہر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو وراثتی طور پر اس بیماری سے متأثر بھی ہوں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق میں تین ہزار بچوں کی صحت اور وراثتی کوائف کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بڑی سڑکوں کے قریب رہنے والے بچوں میں دمے میں مبتلا ہونے کے امکانات دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ تھے۔ دمہ سمیت سانس کی مختلف بیماریوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق EPHX-1 نامی ایک کیمیائی مادہ اور GSTP-1 نامی ایک جین اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ انسانی جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہونے والے خطرناک مادوں کو جسم سے باہر دھکیل دیں۔ لیکن اس کیمیائی مادے کی مقدار میں تبدیلی سے دمے کی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات میں بھی پچاس فیصد اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ جین میں پیدا ہونے والی تبدیلی سے دمے میں مبتلا ہونے کے امکانات میں چار گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ سڑک سے 75 میٹر کے قریبی علاقے میں مقیم بچوں میں دمہ ہونے کا امکان دوگنا ہوگیا۔ اور ایسے بچوں میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات 9 گُنا تک بڑھ گئے، جو کیمیائی مادے اور جین میں تبدیلی کی علامات کے ساتھ کسی بڑی سڑک کے قرب و جوار میں رہائش رکھتے تھے۔
٭ برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ و سائنس میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دمے کا مرض جین میں خرابی کے باعث بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ڈیڑھ سو بچوں میں سے ایک بچے کو دمہ لاحق ہونے کی وجہ جینیاتی خرابی ہوتی ہے اور اُس بچے کے دماغ کا وہ خاص حصہ نشوونما نہیں پاتا جو دمے کے حملے کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق دمے کا مرض اُس وقت لاحق ہوتا ہے جب مخصوص جین دماغ کے خلیات کو متأثر کرتے ہیں۔ نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ و سائنس کے ڈائریکٹر اور پروفیسر آف میڈیسن رینارڈ ناگٹن کا کہنا ہے کہ دماغ اور دمے کا مرض لاحق کرنے والے مخصوص جین کے درمیان تعلق موجود ہونے کے براہ راست شواہد ملے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ دمے کی علامات والے بچوں کو بچپن سے ہی بہتر توجہ اور خاص طور پر دماغی خُلیے کی نشوونما کے علاج معالجے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان بچوں کو سماجی مسائل کے علاوہ بولنے، سیکھنے اور اپنی بات کو سمجھانے میں بھی خاصی دشواری پیش آتی ہے۔
٭ ایک رپورٹ کے مطابق امریکن اکیڈمی آف PD Atrics اور کئی دیگر گروپ شیرخوار بچوں کے والدین کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے شیرخوار بچوں کو چار سے چھ ماہ تک کی عمر تک ٹھوس غذا نہ دیں تاکہ بچوں کو دمے یا الرجی کا خطرہ نہ رہے۔ لیکن حال ہی میں جرمنی کے ماہرین کی طرف سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شیرخوار بچوں کو ٹھوس غذا کے استعمال میں تاخیر کرنے سے الرجی یا دمے کو روکا نہیں جاسکتا اور اس طرزعمل سے بچوں کو الرجی یا دمہ لاحق ہونے کا خطرہ بھی کم نہیں ہوتا۔ ماہرین نے 2073 بچوں کا مکمل ریکارڈ حاصل کرکے اُن کا چھ سال کی عمر تک مطالعاتی تحقیقی جائزہ لیا اور ان بچوں کی حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جو نتائج اخذ کئے اُن کے مطابق جن چھوٹے بچوں کو چار سے چھ ماہ کی عمر میں ٹھوس غذائیں نہیں دی گئیں، اُنہیں بھی کچھ عرصے بعد الرجی اور دمے کے امراض لاحق ہوگئے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی جلد اور کئی دیگر عوامل کے باعث بہتر ہے کہ والدین بچوں کو کم از کم چھ ماہ کی عمر سے ٹھوس غذا استعمال کروانا شروع کردیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں