درویش صحابہ کرام:حضرت حافظ عبد الرحمن صاحبؓ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔
حضرت حافظ عبدالرحمن صاحبؓ 1889ء میں پیدا ہوئے۔ پشاور آپ کا آبائی وطن تھا ۔ آپ کے والد حضرت احمد جان صاحب پشاوریؓ اپنے اہلِ خانہ سمیت حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہی قادیان تشریف لے آئے تھے۔ مرحوم کی ولادت یہیں ہوئی۔ اس موقع پرحضرت اُمّ المومنینؓ نے اپنے پاس سے آپ کے لئے کرتہ عطا فرمایا جو ولادت کے بعد آپؓ کو پہنایا گیا۔ والدین کی وفات پر آپ کے بچپن کا زمانہ حضرت اُمّ المومنینؓ ہی کے کنار عاطفت میں گزرا ۔
حضرت حافظ صاحبؓ اپنی کمزوری ٔ بینائی کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم رہے ۔ لیکن قرآن مجید کے کچھ حصے یاد تھے۔ علم تجوید سے کچھ واقف تھے اور قدرت کی طرف سے لحنِ داؤدی عطا ہوا تھا۔ اس لئے قرآن کریم کی تلاوت مرکزی جلسوں میں بہت عمدہ طریق سے کرنے کی سعادت پایا کرتے تھے اور نظمیں بھی خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ 1927ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ شملہ تشریف لے گئے تو آپؓ بھی ہمراہ تھے۔ شملہ میں ایک کُل ہند مشاعرہ میں حافظ صاحب نے حضور ؓ کی نظم ؎

’’ساغرِ حُسن تو پُرہے کوئی مَے خوار بھی ہو‘‘

سنائی جو بہت پسند کی گئی اور پھر سامعین کی فرمائش پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم بھی سنائی۔
دورِ درویشی میں نظر کی کمزوری کے باوجود آپؓ اور سلسلہ پر بوجھ نہ بنے اور چائے کی دکان کھول کر قریباً بیس سال خود اپنی کفالت کی۔ بعدازاں نظر کی کمزوری کے ساتھ جسمانی کمزوری بھی غالب آگئی تو دکان بند کردی اور انجمن کے وظیفہ پر گزارہ رہا۔ معاملات میں بہت صاف تھے۔ آپؓ کا قیام دارالمسیح کے اندر تھا اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی ہمسائیگی تھی چنانچہ آپؓ کو خاندان اقدس کی خدمت کی توفیق کئی سال تک عطا ہوئی اور محترم صاحبزادہ صاحب نے بھی کمال شفقت سے آپؓ کے طعام و آرام کا خیال رکھا اور علاج میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
محترم حافظ صاحبؓ 15دسمبر 1974ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں