درویش صحابہ کرام:حضرت بھائی الٰہ دین صاحب ؓ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔
حضرت احمد دین صاحبؓ ساکن شاہدرہ (لاہور) نے 1897ء میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی۔ اس وقت تک آپ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ بعد میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دُعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا کیا جس کا نام الٰہ دین رکھا گیا۔
بیعت سے قبل حضرت احمدد ین صاحبؓ نیارے کا آبائی پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ بیعت کے بعد انہوں نے سوچا کہ اب مَیں حضرت اقدسؑ کی غلامی میں آگیا ہوں اس لئے اب میں کُوڑے کی گندگی سے رزق تلاش نہیں کروں گا۔ چنانچہ آپؓ نے نیارے کا پیشہ ترک کرکے منیاری کا سامان پھیری لگاکر بیچنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کام میں بہت برکت دی۔
حضرت الٰہ دین صاحب کی پیدائش دسمبر 1900ء میں یا اس سے کچھ قبل ہوئی تھی۔ آپ کے صحابی والدین ہر سال جلسہ سالانہ پر قادیان جایا کرتے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اپنا اکلوتا بچہ پیش کرکے عرض کیا کرتے کہ یہ ایک ہی ہمارا بیٹا ہے اور یہ پیدائشی احمدی ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام شفقت سے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے۔ جب یہ بچہ سات سال کا ہؤا تو والدین کے سکھانے پر 1907ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر بچہ نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں السلام علیکم بھی عرض کیا اور حضورؑ نے اس بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ حضرت مولوی الٰہ دین صاحبؓ کو بھی صرف اتنی ہی بات یاد تھی۔
حضرت الٰہ دین صاحبؓ چونکہ ہوش سنبھالتے ہی نماز روزہ اور عبادات میں باقاعدہ اور اپنا زیادہ وقت مسجد میں ہی گزارتے تھے اس وجہ سے مولوی الٰہ دین کہلانے لگے۔ تعلیم مڈل تک تھی۔ قرآن کریم مع ترجمہ پڑھا اور چند دینی کتب پڑھنے کے بعد درزی کا کام سیکھا اور مہارت حاصل کی۔ پھر آپؓ کی شادی رابعہ بیگم صاحبہ سے ہوگئی اور اس کے بعد آپؓ کے والد حضرت احمد دین صاحبؓ ہجرت کرکے قادیان آگئے اور محلہ دار الفتوح میں اپنا مکان بناکر باقی زندگی یہیں گزاردی۔
مولوی الٰہ دین صاحب کی رہائش شاہدرہ ٹاؤن میں تھی اور آپؓ شاہدرہ موڑ پر ایک دکان میں اپنا کام کرتے تھے۔ یہ سلسلہ قریباً 20سال تک جاری رہا۔ ایک موقعہ پر ایک بدبخت نے آپؓ کو گلا گھونٹ کر مار دینے کی کوشش کی۔ چند شریف الطبع لوگوں نے جو وہاں موجود تھے، آپؓ کی جان بچائی۔ اس واقعہ کے بعد آپؓ نے شاہدرہ ٹاؤن میں رہتے ہوئے ہی کام جاری رکھا۔
حضرت مولوی الٰہ دین صاحبؓ کا بھی ایک ہی بیٹا نورالدین تھا جس سے آگے کئی لڑکے اور لڑکیاں ہوئیں ۔ اپنے اس بیٹے کی شادی اور دیگر گھریلو مصروفیات سے فارغ ہوکر حضرت مولوی صاحبؓ 11مئی 1948ء کو قادیان آنے والے قافلہ میں قادیان آکر درویشوں میں شامل ہوگئے اور درویشی کا دَور نہایت صبر و قناعت سے گزارا۔ آپ کی اہلیہ بھی متعدد مرتبہ قادیان آکرکئی کئی ماہ تک قیام کرکے جاتی رہیں اور آپ خود بھی ویزا پر پاکستان جاکر بچوں سے مل آتے رہے ۔ مسجد مبارک قادیان میں آپ امامت بھی کرواتے رہے۔
1970ء میں پاک و ہند کے مابین حالات خراب ہونے کے بعد 1978ء میں قادیان سے ایک بڑا قافلہ جلسہ سالانہ ربوہ پر گیا۔ اس قافلہ میں حضرت مولوی الٰہ دین صاحب بھی تھے۔ قافلہ دارالضیافت میں ٹھہرایا گیا۔ لیکن جب معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحبؓ کی اہلیہ بھی آپؓ کو ملنے کے لئے جلسہ پر آئی ہیں تو حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے (جو اُس وقت نائب افسر جلسہ سالانہ تھے) اپنے گھر پر ایک سٹور کا قیمتی سامان باہر نکال کر اس بزرگ جوڑے کے لئے رہائش کا انتظام کیا۔
حضرت مولوی الٰہ دین صاحبؓ جب قادیان آئے تو آپ کی ڈیوٹی دفتر زائرین میں لگائی گئی۔ آپؓ کی طبیعت جوانی سے ہی عبادات کی طرف میلان رکھتی تھی۔ آخری عمر میں تو آپؓ کا سارا وقت ہی عبادت میں گزرتا۔ جب تک ہمّت تھی آپؓ نمازیں مسجد مبارک میں جاکر ادا کرتے رہے۔ 28؍دسمبر1982ء کو آپؓ کی وفات بعمر 86 سال ہوئی۔ آپؓ آخری درویش صحابی تھے۔ 1945ء میں آپؓ نظام وصیت میں شامل ہوئے تھے۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں