خلیفۂ وقت کی حفاظت کے بارہ میں قرآنی تعلیم

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’خلافت ایک الٰہی انعام ہے … ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے‘‘۔
آپؓ مزید فرماتے ہیں ’’خلافت کا ختم ہونا یا نہ ہونا انسانوں کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک قائم رہ کر ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہو سکتا ہے اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو ردّ کردیں تو اس کا علاج کسی شخص کے پاس نہیں‘‘۔
سیدنا مصلح موعودؓ نے سورہ نور کی تفسیر میں بہت تفصیل سے خلیفۂ وقت کی حفاظت کی ذمہ داری پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اگر مسلمان ان آیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے تو خلفائے راشدین پر اُن حملوں کی کسی کو جرأت بھی نہ ہوتی جن کے نتیجہ میں وہ شہید کئے گئے۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کا بھی جب گھوڑی سے گرنے کا واقعہ پیش آیا تو بھی نظام سلسلہ کا کوئی ذمہ دار شخص آپؓ کے ساتھ نہیں تھا۔ خود حضرت مصلح موعودؓنے اپنے بارے میں فرمایا کہ ایک جلسہ کے موقع پر جب آپؓ تقریر فرما رہے تھے تو جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی کہ حضرت صاحب کو پہنچادیں۔ یہ پیالی ایک سے دوسرے کے ہاتھوں ہوتی ہوئی سٹیج تک پہنچ گئی۔ سٹیج پر اتفاقاً کسی کو خیال آیا اور اس نے احتیاط کے طور پر ملائی چکھی تو اس کی زبان کٹ گئی کیونکہ ملائی میں زہر ملی ہوئی تھی۔
ایک اور موقع پر حضورؓ نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک عیسائی جے میتھیوز کو جب اُسکی بیوی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو اُس نے عدالت کو بتایا کہ دراصل وہ اُس پستول سے حضورؓ کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس نیت سے پہلے قادیان گیا جہاں احباب کی موجودگی کے باعث اسے جرأت نہ ہوسکی۔ پھر اُس نے سنا کہ حضورؓ پھیروچچی چلے گئے ہیں تو وہ وہاں چلا آیا لیکن دروازہ پر ہر وقت پہرے داروں کی موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔ جب گھر آیا تو اتفاقاً اُس کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوگیا اور اُس نے اُسے قتل کردیا۔
احرار کی شورش کے ایام میں ایک دفعہ حضورؓ سے ملاقات کے خواہشمند ایک نوعمر افغان لڑکے کو ایک احمدی عبدالاحد صاحب نے پکڑلیا اور اُس سے ایک چُھرا بھی برآمد کرلیا۔ لڑکے نے بعد میں تسلیم کیا کہ وہ حضورؓ پر حملہ کرنے کی نیت سے دھرمسالہ تک گیا تھا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ پھر قادیان چلا آیا۔
10؍مارچ 1954ء کو حضرت مصلح موعودؓ پر جماعت نہم کے طالبعلم ایک پندرہ سالہ اجنبی لڑکے نے چاقو سے اُس وقت حملہ کرکے شدید زخمی کردیا جب حضورؓ عصر کی نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ لڑکا دو روز قبل ربوہ میں آیا تھا۔ اور اُس نے حضورؓ سے ملاقات کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ناکامی کے بعد احمدی ہونے کا خیال ظاہر کرتے ہوئے بیعت فارم پُر کردیا اور اپنے دلی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مسجد مبارک جا پہنچا۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر حضورؓ نے اس واقعہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ ہم تحقیق تو کرلیں، یہ ہے کون؟ قادیان میں یہ قاعدہ تھا کہ اجنبی آدمی کو نماز کے وقت پہلی دو صفوں میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور جماعت کے مختلف محلّوں کے دوست ہر روز آکے پہرہ دیتے تھے‘‘۔
خلیفۂ وقت کی حفاظت کے بارہ میں قرآنی تعلیمات کے حوالہ سے ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مئی 1998ء میں مکرم ڈاکٹر سلیم الرحمٰن صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
اگرچہ اصل حفاظت اللہ ہی کی ہے لیکن دراصل خلیفۂ وقت کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مومنین کی جماعت پر ہی ڈالی ہے اور اس سلسلہ میں انسانی کوششوں کو ہر ممکن حد تک پہنچانے کے بعد بھی اگر کوئی پہلو ننگا رہ جائے تو پھر اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل اور رحم سے اس پہلو کو اپنی حفاظت خاص سے ڈھانپ لیتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی ہوا تھا۔ آپؐ کو یہودیوں نے کھانے میں زہر ملاکر دے دیا۔ بعض لوگ کہہ سکتے ہیںکہ آپؐ نے اُن کی دعوت کو منظور کیوں کرلیا؟ لیکن آپؐ کی شان یہی تھی کہ آپؐ اُن کی دعوت کو قبول کر لیتے۔ یہ صحابہؓ کا کام تھا کہ وہ کھانے کو چکھ کر دیکھ لیتے اور اطمینان کر لیتے … لیکن اُن سے یہ غلطی سرزد ہوگئی، اُنہوں نے کھانا چکھا نہیں … آپؐ کو الہاماً پتہ لگ گیا کہ اس کھانے میں زہر ملا ہوا ہے۔ … خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی ایک نشان کے طور پر حفاظت تو کردی لیکن دراصل یہ ذمہ داری صحابہؓ کی تھی۔ … پس کچھ کام جماعت کو بھی کرنے پڑتے ہیں۔ خلیفہ پر پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں۔ خلیفہ اپنا کام کرے گا اور جماعت کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں