خلفاء احمدیت کی کھیلوں میں دلچسپی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30جنوری 2009ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء احمدیت کی کھیلوں میں دلچسپی سے متعلق ایک مضمون مکرم تقی احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا: طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : ’’انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑہے کہ ایک خرابی دوسرے پر اثرڈالے بغیر نہیں رہ سکتی۔ رسولﷺ نے اس امر میں بھی ہمارے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف قرار نہیں دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باغات میں جا بیٹھتے تھے۔ گھوڑے کی سواری کرتے تھے، اپنے صحابہؓ کو کھیلوں میں مشغول دیکھ کر بجائے ان سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے۔مرد تو مرد آپ عورتوں کو بھی ورزش کی تلقین فرماتے۔چنانچہ کئی مرتبہ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑتے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزش کی تحریک فرمائی۔ ہاں آپ ﷺاس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہو جائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش، مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے۔نہ کہ خود مقصد۔‘‘ (لباس التقویٰ صفحہ 113تا114)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچپن سے ہی خلوت پسند طبیعت رکھتے تھے اور دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر زیادہ کھیلنے کودنے کی عادت نہیں تھی۔ تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپؑ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ آپ بچپن میں قادیان کے کچے تالابوں میں تیراکی کیا کرتے تھے۔ آپؑ نے اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے۔ کبھی کبھی غلیل سے شکار بھی کھیلا کرتے تھے۔ مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھی جو آخری عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلتے تھے۔ صحت کے خیال سے کبھی کبھی موگریوں کی ورزش بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ آپؑ کو آخری عمر میں بھی موگریاں پھیرتے ہوئے دیکھا ہے مگر یہ ساری باتیں صرف صحت اور تندرستی کی غرض سے تھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو تیراکی میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اورآپ چوٹی کے تیراک تھے۔آپ خود بیان فرماتے ہیں :’’میں نے کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا ۔میں نے صرف ایک ہی کھیل کھیلا ہے اور وہ تیرنا ہے۔ مجھ کو تیرنا خوب آتا ہے۔بعض اوقات میں بڑے بڑے عظیم الشان دریاؤں میں بھی تیرتا تھا‘‘۔ ’’میں جوانی کے عالم میں جبکہ جہلم کا دریاجو چڑھاہوا تھاتیر کر پار چلا جایا کرتا تھا‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ
کھیلوںمیں آپؓ کی دلچسپی موسم اور عمر کے مطابق بدلتی رہی۔ بچپن کے ابتدائی دَور میں آپ غلیل سے اور بعد ازاں ہوائی بندوق سے قادیان کے اردگرد کے دیہات میں شکار کے لئے جایا کرتے تھے۔ ایئرگن کا نشانہ آپ کا بڑا ہی صحیح تھا ۔چنانچہ اس حد تک تھاکہ زنبور جو آم پر بیٹھے ہو تے تھے۔آپ ایک ایک کو نشانہ بنا کر گرا دیتے تھے۔ دریائے بیاس پر مرغابی کے شکار کے لئے بھی جایا کرتے تھے۔
خلافت سے پہلے بیڈمنٹن بھی کھیلا کرتے تھے۔ آپؓ کو کشتی رانی کا بھی شوق تھا اور تیراک بھی اچھے تھے۔ یہ مشقیں زیادہ تر قادیان کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ان خندق نما جوہڑوں میں ہوا کرتی تھیں جو ڈھاب کے نام سے معروف تھے۔ اور جن میں پانی تو سال بھر خشک نہ ہوتا تھا لیکن نہانے کے قابل صرف برسات کے دنوں میں ہوا کرتے۔
حضورؓ فٹ بال شوق سے کھیلتے تھے اور میروڈبہ بھی خاص شوق سے کھیلتے تھے ۔ ویسے حضور ابتداءََ جسمانی طور پر کمزور تھے۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں بھی حضورؓ کی صحت کی اس حالت کا ذکر آیا تھا اور غالباً حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے Cod liver oil تجویز کیا تھا۔ حضور کچھ عرصہ پہلوانی یعنی کشتی کا کرتب بھی سیکھتے رہے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
آپؒ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی باقاعدہ شامل ہوتے تھے۔حضورؒ خو د اپنے با رے میں تحریر فرما تے ہیں کہ:’’میں اپنے زمانے میں ہاکی بھی کھیلتا رہا ہوں۔ اس طرح بعض اور کھیل بھی جن کا مجھے موقع ملا کھیلتا رہا ہوں یعنی فٹ بال بھی، ہاکی بھی، کرکٹ بھی، ٹینس بھی، سکواش ریکٹ بھی، میرو ڈبہ بھی اور گلی ڈنڈ ا بھی اور کلائی پکڑ نا بھی کھیلتا رہا ہوں۔ … میں نے سیر بھی کی ہے۔ سیر بھی بہترین ورزش ہے۔ پھر سیر کی ایک شکل بہت اچھی اور صحت مند غذا کے حصول کے لئے شکارکھیلنا ہے چنا نچہ میں شکار بھی کھیلتا رہا ہوں۔ پھر تیراکی بھی کرتا رہا ہو ں۔ قادیان کے پاس نہریں تھیں اور بعد میں تالاب بھی بن گیا تھا لیکن نہریں بھی ہمارے قریب تھیں اس لئے کثرت سے ہم لوگ یعنی قادیان میں بسنے والے اس وقت کے نوجوان نہروں پر جایا کرتے تھے۔‘‘
بچپن سے ہی حضورؒ گھڑسواری میں دلچسپی لیتے تھے ایک دفعہ آپ گرے بھی تھے جس سے کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اور ٹھیک طرح سے پھر جُڑ نہ سکی اور یہ کلائی ہمیشہ کے لئے کچھ ٹیڑھی ہوگئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
حضرت خلیفۃ المسیح الرا بعؒ بلامبالغہ ایک بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ آپ ہر قسم کی کھیل میں حصہ لیتے تھے۔ آپ اپنے بارہ میں فرماتے ہیںکہ ’’بیکار بیٹھنا میرے بس کا روگ نہ تھا۔ میں دوسرے مشاغل کی طرف متوجہ ہوتا۔ بائیسکل چلاتا، بیڈمنٹن کھیلتا، گھڑسواری اور تیراکی کرتا اور نہیں تو لمبی سیر کیلئے پیدل نکل جاتا‘‘۔ ’’سکواش ان کا مرغوب کھیل تھا۔ ان کی سکوائش کی ابتدائی کوچنگ اس وقت کے عالمی چیمپئن ہاشم خان نے کی تھی اور قیا م لندن کے دوران آپ کو اپنے کالج کی طرف سے کھیلنے کا موقع بھی ملا۔‘‘
آپؒ کو شکا ر سے بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ کبڈی کے بہت شوقین اور بلامبالغہ عظیم کھلاڑی تھے۔ کبڈی کے اندرونی داؤپیچ سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ آپؒ ہی کے نام پر ہر سال طاہر کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقا د ہوتا ہے۔ آپ خود فرما تے ہیں ــ: ’’مجھے مخا لف کھلاڑی کو پکڑنے کا خوب فن آتا تھا۔ پکڑنے کا یہ طریقہ میں نے ایک مشہور کھلاڑی کو دیکھ کر سیکھا تھا۔ یہ ایک طرح کی اڑتی ہو ئی چھلا نگ تھی جو قینچی کی طرح لگائی جاتی تھی جس سے مخالف کھلاڑی کی ٹانگیں شکنجے میں آجاتی تھیں۔ شرو ع بچپن ہی سے جب میری عمر بہت چھوٹی تھی میں قسما قسم کے لوگو ں پر اس دائو کی مشق کیا کرتا تھا جن میں دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ مہمان بھی شامل ہوا کرتے تھے جو اتفا ق سے ہمارے گھر تشریف رکھتے ہوں۔ میں مضبو ط سے مضبوط آ دمی کو بھی گرا لیا کرتا تھا، میری اس حرکت پر والدہ محترمہ بہت خفا ہوتیں۔ مہمانوں پر اپنی مہا رت آزمانے پر کئی مرتبہ تو میری پٹا ئی بھی ہوئی ۔ لیکن نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بطور کھلاڑی میری مانگ بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم کبڈی کھیل رہے تھے، میں نے ایک کھلاڑی پر قینچی لگائی تو اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ہڈی گوشت کو پھاڑ کر باہر نکل آئی ہے اور نظر آرہی ہے تو میں سنّاٹے میں آگیا اور وہاں سے بھاگ گیااور شرم کے مارے کئی دن تک گھر سے نہ نکل سکا۔ میں اپنے کیے ہوئے پر سخت پشیمان تھا اور یہ سوچ کر شرمندہ بھی کہ لوگ مجھ جیسے لڑکے کے متعلق کیا کہتے ہو ں گے جو لوگوں کی ٹانگیں توڑتا پھرتا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد میری دادی جان یعنی (حضرت امّاں جانؓ) نے فرمایا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ سخت خفا ہوں گی اور ڈانٹیں گی، لہٰذا میں نے پوری کوشش کی کہ ان کے سامنے نہ جاؤں لیکن جب انہوں نے باصراربلا بھیجا تو میں ڈرتا ڈرتا ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کہ بیٹا تم نے کوئی دانستہ جرم تو نہیں کیا اس لئے اس قدر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر تم ڈرتے ہو کہ پھر کسی اور کی ٹانگ نہ توڑو تو کبڈی کھیلنا ہی چھوڑ دو‘‘۔
بچپن میں آپؒ گھڑ سواری کرتے ہوئے کئی دفعہ گرے اور چوٹیں بھی آئیں تاہم آپ ایک بہت اچھے سوار ثابت ہوئے۔ ایک ریٹائرڈ فوجی نے جو رسالے میں ملازم رہے تھے آپ کو پہلا اور آخری سبق اس سلسلے میں یہ دیا کہ ’’اپنے گھٹنوں کو گھوڑے کے جسم سے اس طرح زور سے پیوست کر دو کہ چھوٹا سا سکہ بھی اگر درمیان میں رکھ دیں تو پھسلنے نہ پائے‘‘۔ آپؒ فرماتے ہیں : ’’کام تو یہ مشکل تھا ۔لیکن میرے لئے یہ ایک طرح کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ میں گھٹنوں کے بل گھوڑے کی کمر سے چسپاں ہو کر رہ جاتا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کب گھڑ سواری شروع کی۔ گھڑ سواری تو ان دنوں روزانہ کا معمول تھا ۔ ایک دفعہ میں ایک نہایت عمدہ گھوڑی پر سوار تھا جو ٹریفک اور کثرت آمدورفت سے قطعاً نامانوس تھی۔ میں سادگی میں اسے سڑک پر لے گیا ۔جونہی ایک بس آئی گھوڑی خوف کے مارے بدک گئی اور دھڑام سے گرگئی۔ خوش قسمتی سے میں بس کے نیچے آنے سے تو بچ گیا لیکن اس حادثے کی یاد کے طور پر ایک نشان آج تک میرے بدن پر موجود ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ
حضور انور کے بارہ میں آپ کے خاندان کے افراد کے بیان کے مطابق پتہ چلتاہے کہ آپ شکار بہت شوق سے کرتے ہیں، پیدل چلنے اور سیر کے شوقین ہیں۔ آپ ہی کا ارشاد ہے کہ: ’’واقفین نو کو روزانہ کوئی نہ کوئی کھیل کھیلنی چاہئے۔ جس کا دورانیہ کم ازکم ایک گھنٹہ ہو۔ مزید فرمایا کہ کھیل سے صحت ٹھیک رہے گی لہٰذا کھیل کو اپنا معمول بنائیں ‘‘۔(مشعل راہ جلد پنجم)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں