خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ یکم اگست 2003ء

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے مزید فضلوں کے وارث بنیں
مہمانوں کی بھرپور خدمت اور انتظامات کی کامیابی پر کارکنان جلسہ شکریہ کے مستحق ہیں
حمد اور شکر کے مضمون کا قرآن کریم،احادیث نبویہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کی روشنی میں ایمان افروز بیان
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
یکم؍ اگست ۲۰۰۳ء مطابق یکم؍ظہور۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام اسلام آباد۔ٹلفورڈ(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم :۸)۔

اللہ تعالیٰ کا بڑا شکرو احسان ہے اورا س پر ہم جتنا بھی شکر کریں کم ہے کہ اس نے محض اور محض اپنے فضل سے جلسہ سالانہ یوکے کو بخیرو خوبی اختتام تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوتی ہم نے دیکھی اور محسوس کی اور ہر ایک نے جس نے بھی ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا کے تمام ممالک میں جہاں جہاں بھی اس جلسہ کی کارروائی دیکھی اور سنی یہی اظہار کیاہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے ناز ل ہوتے دیکھا۔ الحمدللہ، الحمدللہ۔ یہ سب اسی حقیقی اسلامی تعلیم کا حصہ ہے اور اسی کی وجہ سے ہے جو اس زمانے میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ آج تمام اسلامی دنیا میں سوائے جماعت احمدیہ کے کسی کو یہ پتہ ہی نہیں ، علم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے کیاطریق ہیں- اور پھر اپنے وعدوں کے مطابق خداتعالیٰ اپنے فضلوں کو کس طرح بڑھاتاہے اور بڑھاتا چلا جاتاہے۔ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کیں-اس کا فضل مانگا، اس کا رحم مانگا۔اس کے حضور جھکے، اپنے اندر خلافت کی نعمت کو قائم رکھنے کے لئے بے انتہا تڑپے۔نتیجۃً وہ خدا جو اپنے بندے سے بے انتہا پیار کرنے والا خدا ہے، جو بندے کے ایک قدم آگے کی طرف بڑھانے سے کئی قدم اس کی طرف بڑھتاہے۔ اس خدا نے جوسچے وعدوں والا خدا ہے اپنے بندوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدلا۔وہ خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ خدا جو مٹی کے ذرے سے بھی کام لینے کی طاقت رکھتاہے، وہ خدا جو ایک تنکے میں بھی فولاد کے شہتیر سے بھی زیادہ مضبوطی پیدا کرنے کی طاقت رکھتاہے اس نے ہم پر رحم فرمایا اور احمدیت کے قافلہ کو پھر سے اپنی منزل کی طر ف رواں دواں کردیا۔اس پر ہر احمدی نے اللہ تعالیٰ کی حمد اورشکر کے جذبات سے لبریز ہوکر اپنے سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا دئے۔اپنی وفاؤں کو انتہا تک پہنچایا اور خلافت کے قیام کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کیا۔ اس خدا نے بھی جماعت کی اس شکرگزاری کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے جماعت پر اپنے فضلوں کی بارش اور تیز کردی۔ اور یہ بارش کوئی رکنے والی بارش نہیں- اور یہ بارش انشاء اللہ برسے گی اور برستی رہے گی کیونکہ یہ ہمارے رب کا اعلان ہے کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو مَیں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ پس اپنی وفاؤں ،اپنی دعاؤں اور اپنے مولا کے حضور اپنے شکرگزاری کے جذبات کے اظہار سے، اس کے فضلوں کی برستی بارش کو کبھی رکنے نہ دیں- اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اس اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک روایت ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ رات کو اٹھ کر نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ ؐ کے پاؤں متورّم ہو کر پھٹ جاتے۔ ایک دفعہ مَیں نے آپؐ سے عرض کی:اے اللہ کے رسول !آپ ؐکیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دئے ہیں یعنی ہر قسم کی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لے لیاہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: کیا مَیں یہ نہ چاہوں کہ اپنے ربّ کے فضل و احسان پر اس کا شکرگزار بندہ بنوں- (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح)
یہ شکر واحسان کے جذبات، اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں ، اس کی حمدسے اپنی زبانیں تر رکھنا صرف جماعتی طورپر فضلوں اور رحمتوں کے نازل ہونے کے لئے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے ہر شخص سے جس کی انفرادی زندگی میں بھی، جس کی خاندانی زندگی میں بھی اس شکر کے طفیل ہر مومن پر اپنے فضلوں کی بارش برساتا ہے اور اپنے فضلوں کا وارث بناتاہے۔ پس ہر شخص کو اپنی بھلائی کے لئے بھی، اپنی ترقیات کے لئے بھی، اپنے خاندان کی بھلائی کے لئے بھی،اپنی نسلوں کی بہتری اور بھلائی کے لئے بھی شکر نعمت کرتے رہنا چاہئے۔
حدیث میں آتاہے کہ حضرت عبداللہ بن غنّام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت یہ کہا کہ اے اللہ جو بھی نعمت مجھے ملی وہ تیری ہی طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں اور شکر تیرے ہی لئے ہیں- تو گویا اس نے اپنے دن کا شکر ادا کردیا۔ اور جس نے اسی طرح شام کے وقت دعا کی تو اس نے اپنی رات کا شکر ادا کردیا۔
(سنن أبی داؤد، کتاب الأدب)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا سیکھی:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ اُعَظِّمُ شُکْرَکَ وَاُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَاَتَّبِعُ نَصِیْحَتَکَ وَاَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ۔

اے میرے اللہ !توُ مجھے توفیق دے کہ مَیں تیرے شکر کا حق ادا کرسکوں اور کثرت سے تیرا ذکر کر سکوں اور تیری باتوں پر عمل کرسکوں اور تیرے احکام کی پابندی کر سکوں- حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ مَیں بکثرت یہ دعا مانگتاہوں- (ترمذی کتاب الدعوات)
عبداللہ بن عمروؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :حمد شکر کا سرچشمہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی حمد نہیں کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادانہیں کیا۔(مشکوٰۃ المصابیح۔کتاب الدعوات )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض عربی اشعار کا ترجمہ پیش کرتاہوں- آپ ؑ فرماتے ہیں :
اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا ہواہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تعریف کی طاقت نہیں ہے۔ مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر، اے میری پناہ! اے حزن و کرب کو دور فرمانے والے!میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی۔ (قبر کی) مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائی گی۔میری آنکھ نے تجھ سا (کوئی) محسن نہیں دیکھا۔ اے احسانات میں وسعت پیدا کرنے والے اور اے نعمتوں والے! جب میں نے تیرے لطف کا کمال اور بخششیں دیکھیں تو مصیبت دور ہو گئی اور (اب) میں اپنی مصیبت کو محسوس ہی نہیں کرتا۔(منن الرحمٰن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : بندہ جب اپنے ارادوں سے علیحدہ ہو جائے اور اپنے جذبات سے خالی ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے طریقوں اور اس کی عبادات میں فنا ہوجائے اور اپنے اس ربّ کو پہچان لے جس نے اپنی عنایات کے ساتھ اس کی پرورش کی اور وہ اس کی تمام اوقات حمد کرتا رہے اور اس سے پورے دل بلکہ اپنے تمام ذرّات سے محبت کرے تواس وقت وہ عالموں میں سے ایک عالَم ہو جائے گا۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اَعْلَمُ الْعَالَمِیْن کی کتاب میں اُمّت رکھا گیاہے‘‘۔
(اعجاز المسیح صفحہ ۱۳۴۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ ۳۴۔۳۵)
جب انسان،ایک مومن انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتاہے تو پھر بے اختیار اس کی توجہ حمد کی طرف ہوجاتی ہے کیونکہ ہماری شکرگزاری اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتی، جس کے فضل بے انتہا اور لاتعداد ہیں-ان کا شکر ممکن ہی نہیں- تو یہ بھی اس کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے اپنی حمد کے طریقے بھی ہمیں سکھلا دئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’حمد کے معنی تعریف کے ہیں-عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں- حمد،مدح،شکر،ثنا۔ اللہ تعالیٰ نے حمد کا لفظ چناہے جو بلاوجہ نہیں- شکرکے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردا نی کے معنی ہوتے ہیں-ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کانام بھی ہے۔پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے ‘‘۔
ـ(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جلد اول صفحہ۱۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’الحمد ایک جامع دعاہے اور اس کا مقابلہ کوئی دعا نہیں کر سکتی۔ نہ کسی مذہب نہ کسی احادیث کی دعائیں ‘‘۔(تشحیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۱ صفحہ ۴۳۴)
پھر آپ ؓمزید فرماتے ہیں :’’عمدہ دعاالحَمدُ ہے۔ اس میں

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ

دونوں ترقی کے فقرے موجود ہیں ‘‘۔ (بدر ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم وتکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے۔ اور کامل ترین حمد ربّ جلیل سے مخصوص ہے۔ اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ ربّ ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والااور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والاہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے (یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں ، وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں )۔ اکثر علما ء کے نزدیک لفظ شکر، حمد سے اس پہلومیں فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات میں مختلف ہے کہ مدح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور یہ امر فصیح و بلیغ علماء اور ماہر ادباء سے مخفی نہیں-
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے۔ کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے۔ اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے۔ چونکہ کفار بلاوجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کا لفظ اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سر چشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں- اسی طرح ان کے مُردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رزاق متولی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے۔‘‘(کرامات الصادقین۔ صفحہ۶۴۔۶۵)
آپ مزید فرماتے ہیں کہ:’’… لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے (میرے) بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو۔ میں ناقص ہستیوں کی مانند نہیں بلکہ میری حمد (کامقام) انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کرہے اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں- اور اگر تم میری قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے۔ اگرچہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی تکلیف اُٹھاؤ۔ خوب سوچو کیا تمہیں کوئی ایسی حمد نظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو۔ کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو۔اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو۔‘‘ (کرامات الصادقین۔ صفحہ۶۵۔۶۶)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-’’تمام محامد جو عالم میں موجود ہیں اور مصنوعات میں پائی جاتی ہیں- وہ حقیقت میں خدا کی ہی تعریفیں ہیں اور اسی کی طرف راجع ہیں کیونکہ جو خوبی مصنوع میں ہوتی ہے۔ وہ حقیقت میں صانع کی ہی خوبی ہے یعنی آفتاب دنیا کو روشن نہیں کرتا حقیقت میں خدا ہی روشن کرتا ہے اور چاند رات کی تاریکی نہیں اٹھاتاحقیقت میں خدا ہی اُٹھاتا ہے اور بادل پانی نہیں برساتا حقیقت میں خداہی برساتا ہے۔ اسی طرح جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں وہ حقیقت میں خداکی طرف سے ہی بینائی ہے اور جو کان سنتے ہیں وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی شنوائی ہے اور جو عقل دریافت کرتی ہے وہ حقیقت میں خدا کی طرف سے ہی دریافت ہے اور جو کچھ آسمان کے اور زمین کے عناصر او صاف جمیلہ دکھا رہے ہیں اور ایک خوبصورتی اور تروتازگی جو مشہود ہو رہی ہے حقیقت میں وہ اسی صانع کی صفت ہے جس نے کمال اپنی صفت کاملہ سے ان چیزوں کو پہنایا ہے اور پھر بنانے پرہی انحصار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے اس کے ساتھ ایک رحمت شامل رکھی ہے، جس رحمت سے اس کا بقا اور وجود ہے۔ اور پھر صرف اس پر ہی اختصار نہیں کیا بلکہ ایک چیز کو اپنے کمال اعلیٰ تک پہنچایا ہے۔ جس سے قدروقیمت اس شے کی کھل جاتی ہے پس حقیقت میں محسن اور منعم بھی وہی ہے اور جامع تمام خوبیوں کا بھی وہی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

الحمدللہ ربّ العلمین۔‘‘( الحکم۲۴جون ۱۹۰۴ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : یہ ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ سے پورے تذلّل اور انکسار کے ساتھ ہر وقت دعا مانگتا رہے کہ وہ اُسے سچی معرفت اور حقیقی بصیرت اور بینائی عطا کرے اور شیطان کے وساوس سے محفوظ رکھے‘‘۔
(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء۔صفحہ ۶۳)
آپ ؑمزید فرماتے ہیں :’’قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل۔ صفحہ۱۳۴۔۱۳۵ جدید ایڈیشن)
ایک حدیث ہے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ شکرگزار بندہ وہ ہے جو ان میں سے لوگوں کا سب سے زیادہ شکر گزار ہو۔(المعجم الکبیر للطبرانی۔ رقم ۶۴۸)
ایک اور مضمون میں اسی ضمن میں بیان کرنا چاہتاہوں ، بندوں کی شکرگزاری کا۔ اور اسی طرح ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خداتعالیٰ کا بھی ناشکرگزار ہے۔ پس اسی لحاظ سے اب جلسے کے بعد مَیں ان تمام کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں ،ان کا شکرگزار ہوں جن میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی ہے جنہوں نے رات دن ایک کرکے، انتھک محنت کرکے بڑی خوش اسلوبی سے تمام کاموں کو سرانجام دیا۔ انتظامیہ کے اندازہ سے کہیں زیادہ مہمانوں کی آمد کی وجہ سے تمام انتظامات درہم برہم ہونے کا خطرہ تھا۔ اور قدرتی طورپر ایسے حالات میں جب کہ موسم بھی قابل اعتبار نہ ہو۔ اور پہلے دن تو جیسا کہ سب نے دیکھا، تیز ہوا کی وجہ سے بعض ہلکی مارکیاں جورہائش کے لئے لگائی گئی تھیں وہ بھی کھڑی نہ رہ سکیں-رہائش کی جگہ عمومی طورپر ویسے بھی تنگ ہو گئی۔ کھانے کا انتظام بھی متأثر ہو سکتا تھا بلکہ آخری دن روٹی پلانٹ بھی خرا ب ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کہ کچھ دیر بعد ٹھیک ہوگیا۔ تو قدرتی طورپر ایسے حالا ت میں Panic ہو جانا یا Panicپیدا ہوجانا کوئی ایسی بات نہیں جو انہونی ہو۔لیکن بے انتہا حمد و شکر کے جذبات سے اس پیارے خدا کے آگے سر جھک جاتے ہیں کہ جس نے کسی افراتفری کا ایسے حالا ت میں احساس بھی پیدا نہیں ہو نے دیا اور پھر بے اختیار شکر کے جذبات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ا س پیاری جماعت کے اُن کارکنوں کے لئے بھی پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے یورپ کے اس ماحول میں پرورش پائی، پلے بڑھے، لیکن پھر بھی بے انتہا قربانی کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی میں حتی الوسع کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ پھر بعد میں صفائی کے کام کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا اور مجھے امید ہے کہ اب تک اسلام آباد کی گراؤنڈ زکاعلاقہ بھی صاف ہو چکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے، اپنے بے انتہا فضلوں سے نوازے۔ مجھے بڑ ی فکر تھی، طبعی طورپر مجھے فکر ہونی بھی چاہئے تھی۔ پہلا جلسہ تھا باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار اور فضل کے جلوے دکھائے اور دکھاتا چلا جا رہاہے لیکن فکر یہ بھی تھی کہ کہیں کوئی بدانتظامی نہ ہوجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بہت سے شاملین جلسہ نے اس طورپراظہار کیاہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر انتظامات گزشتہ سالوں سے بہت بہتر تھے۔

الحمدللہ،الحمدللہ،الحمدللہ۔

اور ساتھ ہی مَیں جیسے کہ پہلے بھی تمام کارکنا ن کا شکریہ ادا کرچکاہوں ، دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری فکر کو دور کیا۔ مَیں یہ محسوس کرتاہوں کہ اس شکر گزاری کے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں لیکن اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے جس میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جس پرکوئی احسان کیا گیا ہو اوروہ احسان کرنے والے کو کہے کہ اللہ تجھے اس کی جزائے خیر دے، خیر اور اس کا بہترین بدلہ دے تو اس نے ثنا کاحق ادا کردیا۔ یعنی ایک حدتک شکرگزاری کافرض پورا کردیا۔
اسی طرح مہمانو ں نے کمال صبر و حوصلہ سے انتظامات میں کمیوں کو برداشت کیا اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے۔ جس طرح اس جلسہ میں تمام مہمانوں اور میزبانوں نے میرے لئے سکون کے سامان بہم پہنچائے، محبت ووفا کے معیارقائم کئے، اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں کو بھی اپنے فضلوں سے نوازتارہے اور آپ کی جماعت اور خلافت سے یہ محبت ہمیشہ قائم رہے۔
آخر میں ایم ٹی اے کے کارکنوں کابھی شکریہ ادا کرتاہوں-باہر سے متعدد خطوط آ رہے ہیں کہ بہت اچھے پروگرام تھے اور بہت احسن رنگ میں انہوں نے تمام کارروائی ہم تک پہنچائی۔ اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں-
فرماتے ہیں :’’مَیں امید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو مَیں اس دنیا سے گزر جاؤں- مَیں اپنے اُس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گااور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا۔

فَالْحَمدُ لِلہِ اوّلاً واٰخرًا وظاھرًا و باطنًا ھو ولیّ فی الدنیا والاٰ خرۃ وھونعم المولیٰ ونعم النصیر۔

اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہر گز ہر گز ضائع نہیں کریگا۔ اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا۔ مَیں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا۔ کیونکہ میرا خدامیرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے۔ اور میں اس کے ساتھ ہوں- میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں- اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کی اطاعت وفرمانبرداری… میں شامل رکھے۔
پھر فرماتے ہیں :’’ نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائیگی اور یہ سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا۔ مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پاچکا ہے زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کرسکے۔ میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کانپتے ہیں خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں- اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلاوے اور بڑھاوے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے۔ ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا وے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا۔ پہلے اس سے ابوجہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے۔ مگر اب وہ کہاں ہیں- وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقینا سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا۔ وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے۔ بد قسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے‘‘۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۲۹۵۔۲۹۶)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں