خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 25؍جولائی2003ء

ایمان،یقین،معرفت اور رشتہ تودّد و تعارف کی ترقی کیلئے جلسہ میں شامل ہوں
جلسہ کے بابرکت ایام کو ذکر الٰہی،درود شریف اور بکثرت استغفار پڑھنے میں گزاریں-
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۵؍جولائی ۲۰۰۳ء مطابق ۲۵؍وفا۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام اسلام آباد۔ٹلفورڈ(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-

اللہ تعالیٰ کابڑا فضل اور احسان ہے کہ آج جماعت احمدیہ انگلستان اپنا ۳۷واں جلسہ سالانہ منعقد کر رہی ہے، جو آج سے شروع ہو رہاہے۔ خدا کرے کہ ا س جلسہ کی روایات بھی ہمیشہ کی طرح وہی رہیں جو ایک سو بارہ سال قبل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ا لسلام نے جاری فرمائی تھیں- اور اس للّہی جلسے کو عام دنیاوی میلوں اور تماشوں سے الگ ایک ایسا جلسہ قرار دیا تھا جس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اب مَیں آپ کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند ایسے ارشادات پیش کرتاہوں جن میں ان جلسوں کی اغراض بیان فرماتے ہوئے ان کے انتظام اور ان میں شمولیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خوامخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحتِ نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے‘‘۔
آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ’’یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں-‘‘ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد اوّل۔ صفحہ۴۴۰ اور ۴۴۳)
آپ ؑ نے فرمایا:-
’’سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا، ایسی بیعت سراسربے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر یک کے لئے بباعث ضُعفِ فطرت یا کمیٔ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میّسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھاکر ملاقات کے لئے آوے۔ کیونکہ اکثردلوں میں ابھی ایسا اشتعالِ شوق نہیں کہ ملاقات کے لئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں- لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسے کے لئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خداتعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت وعدم ِموانع قویہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں-‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۰۲)
آپ ؑمزید فرماتے ہیں :- ’’حتی الوسع تمام دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کے لئے اور دُعا میں شریک ہونے کے لئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اس جلسہ میں ایسے حقائق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہیں- اور نیز ان دوستوں کے لئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے۔ اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہریک نئے سال جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوکر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشۃٔ تودّدوتعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا…اور اس روحانی جلسے میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہونگے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے۔‘‘ (آسمانی فیصلہ اشتہار۳۰؍دسمبر 1891۱۸۹۱ء روحانی خزائن جلد۴ صفحہ۳۵۲)
پھر آپ ؑنے فرمایا: ’’لازم ہے کہ اس جلسے پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہرایک ایسے صاحب ضرور تشریف لائیں جو زاد راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں-‘‘(اشتہار۷؍ دسمبر۱۸۹۲ء، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۳۴۱)
آپ ؑ فرماتے ہیں :-’’…اورکم مقدرت احباب کے لئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اِس جلسے میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں- اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑاتھوڑا سرمایۂ خرچ سفر کے لئے ہرروز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بِلا دِقت سرمایۂ سفر میسر آجاوے گا۔ گویایہ سفر مفت میسر ہوجائے گا۔‘‘ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول مطبوعہ لندن صفحہ ۳۰۲۔۳۰۳)
آپ ؑ نے اسی بارہ میں مزید فرمایا : ’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں- وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں باربار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں-‘‘
نیز فرمایا: ’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے۔ یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا۔ اسے ڈرنا چاہئے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا تعالیٰ ہے۔ ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں- ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔ یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئے۔ میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں- ہم تو نکمے ہیں- یوں ہی روٹی بیٹھ کر کیوں توڑا کریں- وہ یہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے کہ ان کے پَیر یہاں جمنے نہ پائیں-‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ۴۵۵)
الحمدللہ!کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ یہ پیاری جماعت اس عشق و محبت کی وجہ سے اور اس تعلیم اور تربیت کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری کی ہے، آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک تڑپ کے ساتھ ا س جلسہ میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں لوگ اور جہاں خلیفۃ المسیح موجود ہو وہاں تو وہ ضرور آنا چاہتے ہیں اور بڑی تڑپ کے ساتھ آتے ہیں ، بڑے اخراجات کر کے آتے ہیں-لیکن حالات کی وجہ سے باوجود خواہش اور تڑپ کے لاکھوں کروڑوں احمدی ایسے بھی ہیں جو پرشکستہ اور اپنی خواہشوں کو دبائے بیٹھے ہیں اور اس جلسہ میں شامل نہیں ہو سکتے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ہم پر فضل اور احسان ہے کہ ایم ٹی اے جیسی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں احمدی گھر بیٹھے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس جلسہ میں شامل ہورہے ہیں- اور اس شکر کے ساتھ بے اختیار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے لئے بھی دعا نکلتی ہے جنہوں نے اس نعمت کو ہم تک پہنچانے کے لئے بے انتہا کوشش کی اور اس کو کامیاب کیا۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے اس محبت کے جذبے کو جو خدا، رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے جماعت کو خلافت سے ہے ہمیشہ قائم رکھے اور اس میں اضافہ کرتا چلا جائے،اس میں کبھی کمی نہ آئے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کو خالصۃً للّہی جلسہ ہونے کی خواہش اور دعا کی ہے جس میں ہماری روحانی اور علمی ترقی کی باتوں کے علاوہ تربیتی امور کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔ اور اس کا ایک بہت بڑا مقصدجیساکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آپس میں محبت و اخوت کا رشتہ قائم کرنا بھی ہے۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا،اپنے بھائی کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنے حق چھوڑنے کا حوصلہ رکھنا بھی آپس میں محبت و اخوت کو بڑھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔گزشتہ خطبہ میں بھی مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو خوش خلقی اور خوش مزاجی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ا ور اس کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ایک دوسرے کی تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ کرے کہ یہ معیار پیدا ہو جائیں- لیکن یہ معیار کس طرح پیدا ہوں ،کس طرح ایک دوسرے کی خاطر قربانی دی جائے اس بارہ میں حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں- آپ فرماتے ہیں :
’’…میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت و تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرشِ زمین پسند نہ کروں- اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں-اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں- بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے روروکر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمارہے۔ اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے ٹھٹھاکروں یا چیں بہ جبیں ہوکر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں- کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دُور نہ ہوجائیں- خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جُھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے، اور بدی کا نیکی کے ساتھ جوا ب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصے کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجے کی جوانمردی ہے۔ مگر میں دیکھتاہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں …‘‘۔ (شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد۶، صفحہ۳۹۵۔۳۹۶)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کے مطابق عمل کرنے کی، اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب مَیں حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے۱۹۰۳ء کے بعض الہامات جن میں جماعت کی ترقی کی خوشخبریاں ہیں پیش کرتاہوں-اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں ترقیات کے نظارے دکھا بھی رہاہے اورانشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دکھائے گا۔ہر الہام اور پیشگوئی اپنے وقت پر پوری بھی ہوئی ہے جن سے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشان دیکھے ہیں اور آئندہ بھی انشاء اللہ ہوں گی۔ یہ الٰہی تقدیر ہے اوربہرحال اس نے غالب آناہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے غلاموں کے ذریعہ سے ہی اسلام کا غلبہ تمام دنیا میں ہوناہے۔پس ان خوشخبریوں کے ساتھ کمر ہمت کس لیں اور دعاؤں پر بھی بہت زیادہ زور دیں- بہت بڑی ذمہ داری ہے ہم پر۔
جنوری ۱۹۰۳ء کا ایک الہام ہے۔آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’اول ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھی مجھے دکھایا گیا کہ مَیں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہواہے اور چہرہ چمک رہا ہے۔ پھر وہ کشفی حالت وحی کی طرف منتقل ہو گئی۔چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے، ذیل میں لکھے جاتے ہیں- اور وہ یہ ہیں :

یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ شَیْئًا اَتٰی اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ۔

یعنی خدا جو رحمن ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا۔ خدا کا امر آ رہاہے۔ تم جلدی نہ کرو۔ یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ صبح پانچ بجے کاوقت تھا۔ یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روز عید،جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی ‘‘۔
(تذکرہ صفحہ ۴۴۸۔۴۴۹۔ مطبوعہ ۱۹۶۹ء )
پھر جنوری کا ہی ایک الہام ہے:

جَآء نِیْ آئِلٌ وَّاخْتَارَ۔ وَاَدَارَ اِصْبَعَہٗ وَاَشَارَ۔یَعْصِمُکَ اللہُ مِنَ الْعِدَا وَیَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔

فرمایا کہ آئل جبرائیل ہے، فرشتہ بشارت دینے والا۔ پھر اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آیا میرے پاس آئل اور اس نے ا ختیار کیا (یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا۔ اور ٹوٹ کر پڑے گا اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔
آپ ا س کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ آئل اصل میں اَیاَلَت سے ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا۔جومظلوم کو ظالم سے بچاتاہے۔ یہاں جبرئیل نہیں کہا، آئل کہا۔ اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے۔اس لئے فرشتہ کانام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن۔ اور اشارہ کیا کہ

یَعْصِمُکَ اللہُ مِنَ الْعِدَا

وغیرہ۔ یہ بھی اس پہلے الہام سے ملتاہے۔

اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَکَ وَعَادیٰ کُلَّ مَنْ عَادیٰ۔

وہ کریم ہے۔تیرے آگے آگے چلتاہے۔جس نے تیری عداوت کی اس نے اُس کی عداوت کی۔چونکہ آئل کا لفظ لغت میں مل نہ سکتاہوگا۔ یا زبان میں کم مستعمل ہوتاہوگا۔ اس لئے الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کردی ہے‘‘۔(تذکرہ صفحہ ۴۴۹۔۴۵۰ مطبوعہ ۱۹۶۹ء )
پھر ۱۹۰۳ء کا ہی ایک الہام ہے۔

وَاِنَّہٗ بَشَّرَنِیْ وَقَالَ ’’لَا اُبْقِیْ لَکَ فِی الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ وَقَالَ یَعْصِمُکَ اللہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَھُوَالْوَلِیُّ الرَّحْمٰنُ۔

ترجمہ: اور اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا مَیں تیرے متعلق رسوا کن باتوں کا ذکرتک نہیں چھوڑوں گا۔ اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تیری حفاظت اپنی طرف سے کرے گا۔ اور وہی بے حد رحم کرنے والا دوست ہے۔
(تذکرہ صفحہ ۴۵۲۔۴۵۳ مطبوعہ ۱۹۶۹ء )
پھر جنوری کا ایک الہام ہے۔

اِنِّی مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔

( تذکرہ صفحہ ۵۴۵۔ مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤ ں گا۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں- پہاڑو اس کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور جھک جاؤ اور اے پرندو تم بھی۔
جنوری ( ۱۹۰۳ء )میں ایک رؤیا ہے۔اس کا ذکر اس طرح ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے عشاء سے پیشتر یہ رؤیا سنائی کہ مَیں مصر کے دریائے نیل پرکھڑا ہوں- اور میرے سا تھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور مَیں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتاہوں- اور ایسے معلوم ہوتاہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں- نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے۔اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے، گاڑیاں ، رتھوں پر ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آ گیاہے۔ میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز سے چلاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے۔ تو مَیں نے بلند آ واز سے کہا

کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْن۔

اتنے میں مَیں بیدار ہوگیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے‘‘۔ یعنی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہیں نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا۔میرا رب میرے ساتھ ہے اوروہ ضرور میرے لئے راستہ نکالے گا۔
پھر جنوری ۱۹۰۳ء میں ہی ہے۔فرماتے ہیں : مَیں نے خوا ب میں دیکھا کہ گویا مَیں ایک مضمون شائع کرنے لگاہوں- گویا کرم دین کے مقدمہ کے بارہ میں آخری نتیجہ کیا ہوا۔ اور مَیں اس پر یہ عنوان لکھنا چاہتاہوں

تَفْصِیْلُ مَا صَنَعَ اللہُ فِی ھٰذا الْبَاْسِ بَعْدَ مَا اشَعْنَاہُ فِی النَّاسِ۔ قَدْ بَعُدُوْا مِنْ مَّآءِ الْحَیَاۃِ۔ وسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔

یعنی تفصیل ان کارناموں کی جو خدا نے ا س جنگ میں کئے بعد اس کے کہ ہم نے اس پیشگوئی کو لوگوں میں شائع کیا۔ وہ زندگی کے پانی سے دور ہوگئے ہیں پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
۲۸؍جنوری ۱۹۰۳ء کو آپ نے فرمایا کہ آج صبح کو الہام ہوا :

’’سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا‘‘۔

ا س کے بعد تھوڑی سی غنودگی میں ایک خواب بھی دیکھا کہ ایک چوغہ سنہری بہت خوبصورت ہے۔مَیں نے کہا کہ عید کے دن پہنوں گا۔ فرماتے ہیں کہ الہام میں عَجَبًا کا لفظ بتلاتاہے کہ کوئی نہایت ہی مؤثر با ت ہے‘‘۔
جنوری ۱۹۰۳ء کا یہ الہام ہے۔

’’اِنِّی مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔اُصَلِّیْ وَاَصُوْمُ۔یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔ قَدْ بَعُدُوْا مِنْ مَّآءِ الْحَیَاۃِ۔ وصَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقَا‘‘۔

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔مَیں خاص رحمتیں نازل کروں گا اور عذاب کو روکوں گا۔ اے پہاڑو اور اے پرندو!میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقّت سے میری یاد کرو۔ وہ زندگی کے پانی سے دور ہوگئے ہیں-پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
پھر آپ فرماتے ہیں ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کی با ت ہے۔ ’’اسی رات خواب میں دیکھا کہ گویا زار روس کا سوٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طورپر بندوق کی نالی بھی ہے۔ دونوں کام نکالتا ہے۔ اور پھر دیکھاکہ وہ بادشاہ جس کے پاس بو علی سینا تھا اس کی کمان میرے پاس ہے۔ اور مَیں نے اس کمان سے ایک شیر کی طرف تیر چلایا ہے اور شاید بو علی سینا بھی میرے پاس کھڑاہے اور وہ بادشاہ بھی‘‘۔
فروری ۱۹۰۳ء کوسیر میں حضرت اقدس نے یہ الہامات سنائے جو کہ آپ کو رات کوہوئے۔

’’سَنُنْجِیْکَ۔سَنُعْلِیْکَ۔ اِنِّی مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔ سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجَبًا۔ سُمِعَ الدُّعَاء۔اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ دُعَاء کَ مُسْتَجَابٌ۔اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۔ وَاُصَلِّیْ وَاَصُوْمُ۔ وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ ‘‘۔

ہم تجھے نجات دیں گے۔ ہم تجھے غالب کریں گے۔مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ۔ اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے۔ مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طورپر آؤں گا۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔
(تذکرہ صفحہ ۴۵۹۔۴۶۰مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
پھرفروری کا ایک الہام ہے۔

’’اِنِّیْ مَعَ الْاَسْبَابِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِیْبُ۔ اُخْطِیْ وَاُصِیْبُ۔اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ مُحِیْطٌ‘‘۔

اس کا ترجمہ ہے کہ مَیں رسول کے ساتھ ہو کر جوا ب دوں گا۔اپنے ارادے کو کبھی چھوڑبھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا۔ کچھ ترجمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کیا ہے۔ بقیہ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مَیں خا ص سامان لے کر تیرے پاس اچانک آؤں گا۔ مَیں اپنے رسول کی حمایت میں (انہیں ) گھیرنے والاہوں- (تذکرہ صفحہ ۴۶۲۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
۱۹۰۳ء کا ہی ایک ا لہام ہے۔فرمایا:

’’یُرِیْدُوْنَ اَنْ لَّا یَتِمَّ اَمْرُکَ۔ وَاللہِ یَاْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرُکَ‘۔

وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑ دے۔ جب تک تیرے تمام کام پورـے نہ کردے۔(تذکر ہ صفحہ ۴۶۶۔ مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
پھر مارچ ۱۹۰۳ء کا ہی ایک الہام ہے۔

’’ اِنَّا نَرِثُ الْاَرْضَ نَاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا‘‘۔

ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے۔ (تذکرہ صفحہ ۴۶۶۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)۔
اپریل ۱۹۰۳ء میں پھریہ الہام ہے:

’’رَبِّ اِنِّیْ مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِرْفَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا‘‘

۔اے میرے رب مَیں ستم رسیدہ ہوں- میری مدد فرما اور انہیں اچھی طرح پیس ڈال۔
یہ دعا آج کل ہمیں ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ اس پر توجہ دیں-
پھر فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثیل کے طوپر دیکھا۔میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا:جے تو ں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘۔ (تذکرہ صفحہ ۴۷۱۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)۔
اگست ۱۹۰۳ء ہی کا ایک الہام ہے

’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنْ شَانِکَ۔قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوْنَ۔اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَارَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا۔اَلَمْ تَرْکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ جِئْتَ فَصْلَ الْفَتْحِ‘‘۔

تیری شان کے بارے میں وہ پوچھیں گے توُ کہہ کہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشاہے۔آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے تب ہم نے انہیں کھول دیا۔کیاتو نہیں دیکھے گا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیاکیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر کو ضائع نہ کردیا۔ اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔توُفتح کے موقع پر آیا۔
(تذکرہ صفحہ ۴۸۰۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
ا کتوبر ۱۹۰۳ء کا ایک الہام ہے

’’اِنِّیْ اُنَوِّرُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ظَفَرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ۔ظَفَرٌ وَّفَتْحٌ مِّنَ اللہ۔ فَخر اَحْمَد۔اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا۔

اس کا ترجمہ ہے :مَیں روشن کروں گا ہر اس شخص کو جو اس گھر میں ہے۔ خدا کی طرف سے ظفر اور کھلی کھلی فتح۔ خدا کی طرف سے ظفر اور فتح۔احمد کا فخر۔ مَیں نے خدائے رحمان کے لئے روزہ کی منت مانی۔ (تذکرہ صفحہ ۴۹۵۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
نومبر ۱۹۰۳ء میں الہام ہوا: ’’میری فتح ہوئی۔میرا غلبہ ہوا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ ۴۹۸۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
پھر ۲۶؍نومبر ۱۹۰۳ء کا ایک الہام اس طرح ہے :

’’لَکَ الْفَتْحُ وَلَکَ الْغَلَبَۃُ‘‘۔

تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۴۹۸۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
آپ فرماتے ہیں :
’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صر ف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیاجائے گا۔خدااس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فو ق العادت برکت ڈالے گا۔ اور ہرایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتاہے نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے گی ……۔یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے …اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی… اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی۔ اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کابھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگرمریم کا بیٹا عیسیٰ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمندیکدفعہ ا س عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہوکر ا س عقیدہ کو چھوڑ دیں گے۔ اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخمریزی کرنے آیاہوں-سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اوراب و ہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ‘‘۔ (تذکرہ صفحہ ۴۹۳۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
دسمبر ۱۹۰۳ء میں آپ کے الہام کا ذکر آتاہے کہ ’’حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بمقام گورداسپور اپنی جماعت کے موجود اور غیر موجود خدام کے لئے عام طورپر دعائیں کیں-جوموجود تھے یا جن کے نام یاد آ گئے،ان کا نام لے کر اور کل جماعت کے لئے عام طورپر دعاکی۔ جس پر یہ ا لہام ہوا

’’فَبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْن‘‘َ۔

پس مومنوں کے لئے خوشخبری ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۴۹۹۔۵۰۰۔مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بے انتہا رؤیا، الہامات، پیش خبریاں ہیں جنہیں ہم نے نہ صرف پورا ہوتے دیکھاہے بلکہ کئی کئی مرتبہ پورا ہوتے دیکھاہے۔مثلاً

سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا

کا نشان ہی ہے جس کی وجہ سے ہم نے کئی دفعہ دشمن کو پستے دیکھاہے، اس کی خاک اڑتے دیکھی،اس کی نسلوں پر بھی وبال آتے دیکھے۔ تو کئی ایسے نشانات ہیں جن سے ہمارے ایمانوں کو ہمیشہ تقویت ملی ہے اور آپ کی پیشگوئیوں پر ایمان اور یقین بڑھتا ہی چلا گیاہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہ پوری ہوں گی اور پوری ہوتی چلی جائیں گی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاجلد بازی سے کام نہ لو۔یہ نشان اپنے وقت پر پورا ہوتا چلاجائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ مَیں آؤں گااور ضرور آؤں گا۔یہ سچے وعدوں والا خدا ہے اور جب اس نے کہہ دیا کہ مَیں دشمن کو گھیروں گا تو وہ ضرور گھیرے گا اور ضرور گھیرے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کے وعدوں کو ٹال نہیں سکتی۔ ہاں ایک شرط ہے کہ ہم سچے دل سے اس پر ایمان لے آئیں ،اسی کے ہو جائیں- اس کا خوف، اس کی خشیت ہم پر طاری ہو۔ ہر معاملہ میں تقویٰ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہوتا کہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے خدائی وعدے مؤخر نہ ہوجائیں-
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا جو آپ نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی، پڑھتا ہوں- آپ فرماتے ہیں :
’’ہریک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں- خدا تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو اور اُن کو اجرعظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات اُن پر آسان کر دیوے اور اُن کے ہمّ و غم دور فرمادے۔ اور ان کی ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مُرادات کی راہیں اُن پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے اُن بندوں کے ساتھ اُن کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر اُن کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذوالمجد و العطاء اور رحیم اور مشکل کُشا،یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین ثم آمین‘‘۔
(اشتہار ۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء۔ مجموعہ اشتہارات جلداول۔ صفحہ ۳۴۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تمام دعاؤں کاوارث بنائے۔ ہم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو ہمیں ان دعاؤں سے دور کردے۔ان دنوں آپ بھی بہت دعائیں کریں- دعاؤں پر بہت زور دیں- تمام آنے والے مہمانوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں- کچھ لوگ آرہے ہیں ،راستے میں ہیں ،ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں- اور اس جلسہ سے فیضیاب ہونے کے لئے جو گھروں میں بیٹھے ہیں ، اپنی خواہش کے باوجود نہیں آ سکے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں-مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وسیع پیمانے پر عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے بعض انتظامی کمیاں رہ جائیں گی۔ایسی صورت میں کارکنوں سے، اپنے بھائیوں سے عفو و درگزر کا سلوک کریں-کوئی کارکن بھی جان بوجھ کر اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی نہیں کرے گا۔سب بڑے جذبہ اور بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت پر مستعد ہیں-اللہ تعالیٰ کی خاطر جب آپ عفو ودرگزر کا سلوک کریں گے تو یہ بھی آپ کی نیکیوں میں شمار ہوگااور یقینا جلسہ کی برکات میں سے یہ بھی ایک برکت کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔یہ اللہ تعالیٰ کے طریق کے خلاف ہے کہ اگر کوئی خداکی خاطر کام کرے اوروہ اس کا اجر نہ دے۔ تو اللہ کرے کہ اس جلسہ میں پہلے سے بڑھ کر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھیں-اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اس کا بے انتہا شکرکریں اوراس کے شکرگزار بندے بن جائیں کہ جب بندہ اس دیالو کا شکر کرتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بہت دیالو ہے، بہت دینے والی ہے، تو وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے فضل نازل فرماتاہے۔بادشاہوں کے خزانے تو خالی ہو سکتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے۔ ہر شکر کرنے پر پہلے سے بڑھ کر وہ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے بندے کو اپنے فضلوں اور رحمتوں سے حصہ دیتا چلا جاتاہے۔ شکرگزاری کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ جس مقصد کے لئے آپ آئے ہیں جلسہ سننے کے لئے، جلسہ کے پروگراموں میں بھرپور حصہ لیں ،بھرپورشمولیت اختیار کریں ، اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان تین دنوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی زندگی بسر کریں ، اپنے وقت کو صرف کریں- اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر پر پھر مَیں ایک اور دعا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کیونکہ دعاؤں سے ہی ہمارے سب کام سنورتے ہیں اور دعاؤں سے ہی ہر قسم کے فیوض وبرکات نصیب ہوتے ہیں- جلسہ کے ان ایام میں کثرت سے دعائیں کریں-جیساکہ کل بھی مَیں نے کہا تھاکہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکرالٰہی کرتے رہیں- درود شریف کا التزام کریں اور کثرت سے استغفار کریں- اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ جلسہ کی تمام علمی اور روحانی برکتوں سے فیضیاب فرمائے اور یہاں یہ بھی ذکرکردوں کہ انگلستان کی ایمبیسیز نے مختلف ملکوں میں جلسے کی وجہ سے بڑے کھلے دل کے ساتھ ویزے جاری کئے ہیں-تو جو لوگ جلسے پر اس نیت سے ویزا لے کر آئے ہیں کہ جلسہ سننا ہے بلکہ ان دنوں اس نیت سے ویزا لیا تھا کہ جلسہ پر جا رہے ہیں یا اس بات کا اظہار کیا کہ ہم جلسہ سننے کے لئے جا رہے ہیں- انہوں نے بہرحال اپنے اپنے ملکوں میں واپس جاناہے۔ کوئی بھی ان میں سے یہاں یا کسی بھی یورپی ملک میں نہ جائے۔ اور جلسے کے بعد جو بھی پروگرام ہے اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں- جزاک اللہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں