خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 26؍دسمبر2003ء

بدظنّی سے تجسّس اور تجسّس سے غِیبت کی عادت پیدا ہوتی ہے
چغلی کی عادت سے اجتناب کے لئے ذیلی تنظیموں کو ٹھوس لائحہ عمل تجویز کرنا چاہئے
(بدظنی،تجسس او رغیبت کی عادات چھوڑنے کے بارہ میں پُرمعارف خطبہ)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۶؍دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۶؍فتح ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
یٰٓاَیُھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَیُحِبُّ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ۔ وَا تَّقُوْااللہَ۔اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ الحجرات آیت ۱۳)

ہمارے معاشرے میں بعض برائیاں ایسی ہیں جو بظاہر بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ان کے اثرات پورے معاشرے پر ہورہے ہوتے ہیں- اور ایک فساد برپا ہوا ہوتاہے۔انہی برائیوں میں سے بعض کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ ترجمہ ہے اس کا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقینا بعض ظن گناہ ہوتے ہیں- اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس میں تین باتوں کا ذکر ہے لیکن اصل میں تو پہلی دو باتوں کی ہی مناہی کی گئی ہے۔تیسری برائی یعنی غیبت میں ہی دونوں آ جاتی ہیں-کیونکہ ظن ہوتاہے تو تجسس ہوتاہے اس کے بعد غیبت ہوتی ہے۔تو اس آیت میں یہ فرمایاکہ غیبت جو ہے یہ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ اب دیکھیں ظالم سے ظالم شخص بھی، سخت دل سے سخت دل شخص بھی، کبھی یہ گوارا نہیں کرتاکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔اس تصور سے ہی ابکائی آنے لگتی ہے، طبیعت متلانے لگتی ہے۔
ایک حدیث ہے ، ’’ قیس روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ آ پ کا ایک مردہ خچر کے پاس سے گزر ہوا جس کا پیٹ پھول چکاتھا‘‘۔مرے ہونے کی وجہ سے پیٹ پھول جاتاہے، کافی دیر سے پڑا تھا۔’’ آ پ نے کہا بخدا تم میں سے اگر کوئی یہ مردار پیٹ بھر کر کھالے تو یہ بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کا گوشت کھائے (یعنی غیبت کرے یا چغلی کرے)۔
(الادب المفرد للبخاری۔باب الغیبۃ وقول اللہ تعالیٰ:ولایغتب بعضکم بعضا)
تو بعض نازک طبائع ہوتی ہیں-اس طر ح مرے ہوئے جانور کو، جس کا پیٹ پھول چکا ہو، اس میں سے سخت بدبو آرہی ہو، تعفن پیدا ہو رہا ہو، اس کو بعض طبیعتیں دیکھ بھی نہیں سکتیں ،کجا یہ کہ اس کا گوشت کھایاجائے۔ لیکن ایسی ہی بظاہر حساس طبیعتیں جو مردہ جانور کو تو نہیں دیکھ سکتیں ، اس کی بدبو بھی برداشت نہیں کر سکتیں ، قریب سے گزر بھی نہیں سکتیں ، لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر غیبت اور چغلیاں اس طرح کررہے ہوتے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں-تویہ بڑے خوف کامقام ہے، ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چا ہئے۔اب یہ بھی اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ وہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے، کہ فرمایااگر اس قسم کی باتیں پہلے کربھی چکے ہو، تو استغفار کرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اپنے رویّے درست کرو، مَیں یقینا بہت رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والاہوں- مجھ سے بخشش مانگو تومَیں رحم کر تے ہوئے تمہاری طرف متوجہ ہوں گا۔بعض لوگ غیبت اورچغلی کی گہرائی کا علم نہیں رکھتے۔ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کیا بات چغلی ہے،غیبت ہے۔ بعض اوقات سمجھ نہیں رہے ہوتے کہ یہ چغلی بھی ہے کہ نہیں- بعض دفعہ بعض باتوں کو مذاق سمجھا جارہا ہوتاہے لیکن وہ چغلی اور غیبت کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اس کو مَیں تھوڑی سی مزید وضاحت سے کھولتاہوں-
علامہ آلوسی

وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا

کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے افراد سے ایسی بات نہ کرے جو وہ اپنے بارہ میں اپنی غیر موجودگی میں کئے جانے کو ناپسند کرتاہے ……اورجو چیز وہ ناپسند کرے اس سے مراد عمومی طور پر یہ ہوگی کہ وہ باتیں اس کے دین کے بارہ میں ، یا اس کی دنیا کے بارہ میں کی جائیں ، اس کی دنیاوی حالت کے بارہ میں کی جائیں ، اس کے مال یعنی امیری غریبی کے بار ہ میں کی جائیں-یا اس کی شکل وصورت کے بارہ میں کی جائیں ، یا اس کے اخلاق کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی اولاد کے بارہ میں کی جائیں، یا اس کی بیوی کے بارہ میں کی جائیں ، یااس کے غلاموں اور خادموں کے بارہ میں کی جائیں ،یا اس کے لباس کے بارہ میں اوراس کے متعلقات کے بارہ میں ہوں ‘‘۔ (روح المعانی)
تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کے پیچھے کی جائیں تو وہ ناپسند کرتاہے۔اب دیکھ لیں کہ اکثر ایسی مجلسوں کا محور یہی باتیں ہوتی ہیں ، دوسرے کے بارہ میں تو کررہے ہوتے ہیں لیکن اگراپنے بارہ میں کی جائیں تو ناپسند کرتے ہیں اور پھر جب باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو ایسے بے لاگ تبصرے ہورہے ہوتے ہیں جیساکہ مَیں نے کہا کہ اگران کے اپنے بارہ میں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں فلاں مجلس میں ان کے بارہ میں بھی ایسی باتیں ہوئی ہیں تو بُرا لگتاہے، برداشت نہیں کر سکتے، فوراً مرنے مارنے پرآمادہ ہو جاتے ہیں-اس لئے جو باتیں وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے، اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں- جن باتوں کا ذکراپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ مجلسوں میں ہوں ، اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کریں کہ اس کا ذکر بھی اس طرح مجلسوں میں نہ ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
’’نصیحت کے طورپرکہتاہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو( بدظنیوں سے بچو)۔اس سے سخت سخن چینی اور عیب جوئی کی عاد ت پڑتی ہے۔ (جب بدظنیاں کروگے تو عیب تلاش کرنے کی عادت بھی پڑے گی)۔اسی واسطے اللہ کریم فرماتاہے

وَلاَ تَجَسَّسُوْا

تجسس نہ کرو۔تجسس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے۔جب انسان کسی کی نسبت سوء ظن کرتاہے یا بدظنی کرتاہے تو اس کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھرکوشش کرتاہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب بھی مجھے مل جاویں‘‘، اس کی کچھ برائیاں بھی نظر آجائیں- ’’اورپھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے‘‘۔ یعنی کہ اتنا ڈوب جاتاہے عیب کی تلاش میں کہ جس طرح کوئی بہت اہم کام کررہاہے۔ اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت مَیں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کو کیا جواب دوں گا‘‘۔ یعنی یہ سوچتا رہتاہے کہ مَیں ایک دفعہ اس کے بارہ میں ایک رائے قائم کرچکا ہوں اگرکوئی اس کی دلیل مانگے تو تمہارے پاس اس کی برائی کا ثبوت کیاہے تو جواب کیا دوں گا۔ تو اس جواب کو تلاش کرنے کے لئے مستقل اس جستجو میں رہتاہے، اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کی مزید برائیاں نظر آئیں- تو فرماتے ہیں کہ’’ اپنی بدظنی کو پورا کرنے کے لئے تجسس کرتا ہے، پھر تجسس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے اللہ کریم نے فرمایاکہ

وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا-

غرض خو ب یاد رکھو سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص روزے بھی رکھتاہے اور غیبت بھی کرتاہے اور نکتہ چینی میں مشغول رہتاہے تو وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے جیسے فرمایا

اَیُحِبُّ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ-

اب جو غیبت کرتاہے وہ روزے کیا رکھتاہے، وہ توگوشت کے کباب کھاتاہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ایسا بد آدمی ہے جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتاہے۔مگر یہ کبا ب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ ایک صوفی نے کشف میں دیکھاکہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی ہے۔ جب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے ا ندر سے بوٹیاں نکلیں جن میں سے بدبو آتی تھی‘‘۔کتنی کراہت والی چیزہے یہ لیکن جب کررہاہوتا ہے تو پتہ نہیں لگتا۔پھر فرمایاکہ ’’یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں ، یہ واقعات ہیں-جولوگ بدظنیاں کرتے ہیں جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے، نہیں مرتے‘‘۔
اب یہ جو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ فرمارہے ہیں وہ اس حدیث کی روشنی میں ہے کہ’’ حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا کہ: اے لوگو! تم میں سے بعض بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے دلوں میں ابھی ایما ن راسخ نہیں ہوا۔ انہیں مَیں متنبہ کرتاہوں کہ وہ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کے ذریعہ تکلیف نہ دیں اور نہ ان کے عیبوں کا کھوج لگاتے پھریں-ورنہ یاد رکھیں کہ جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں ہوتاہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر چھپے عیوب کو لوگوں پر ظاہر کرکے اس کو لوگوں میں ذلیل و رسو ا کر دیتاہے ‘‘۔
(ترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی تعظیم المومن)
اب بعض لوگ اس لئے تجسس کر رہے ہوتے ہیں-مثلاً عمومی زندگی میں لیتے ہیں ،دفتروں میں کام کرنے والے، ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارہ میں ، یا دوسری کام کی جگہ،کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے، اپنے ساتھیوں کے بار ہ میں کہ اس کی کوئی کمزور ی نظرآئے اوراس کمزور ی کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں تاکہ ہم خود افسروں کی نظر میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں، ان کے منظور نظر ہو جائیں- یا بعضوں کو یونہی بلاوجہ عادت ہوتی ہے، کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتاہے اورپھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں-تویاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہوگا، ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لئے،دنیاوی چیز کے لئے، ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لئے، اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓفرماتے ہیں کہ:
’’اس لئے مَیں تمہیں نصیحت کرتاہوں اور درددل سے کہتاہوں کہ غیبتوں کو چھوڑ دو۔بغض اور کینے سے اجتناب کرو اور بکلی پرہیزکرو اوربالکل الگ تھلگ رہو، اس سے بڑافائدہ ہوگا۔…… انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسالیتاہے ورنہ بات سہل ہے،بڑی آسان بات ہے۔جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا۔ اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خداتعالیٰ اس کو راہ راست پرچلنے کی توفیق دیوے۔یاد رکھواللہ کریم تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ہے۔ وہ معاف کردیتاہے۔جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے کسی دوسرے کو سُکھ نہیں پہنچا سکتا۔ اس لئے بددوستوں سے بکلی کنارہ کش ہوجاؤ۔
مَیں نے جیسے پہلے بھی کہاہے کہ بعض لوگ صرف باتوں کا مزا لینے کے لئے ایسی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں-شروع میں صرف سن رہے ہوتے ہیں اور ہنسی ٹھٹھے کی باتوں پہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ عادت پڑ جاتی ہے ایسی باتوں کی اور خود بھی ایسی باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں- تو نوجوانوں کو خاص طورپر اس سے بچنا چاہئے۔شرو ع میں ہی، بچپن سے ہی اطفال میں بھی اور خدام میں بھی یہ عادت ڈالیں کہ کسی کی برائی نہیں کرنی۔
پھر آ پ فرماتے ہیں کہ’’ ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہوگا۔ اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو پھر بھی رُک جاؤ کہ اس سے غیبت تک پہنچ جاؤگے۔اور یہ ایک بہت بڑی بداخلاقی ہے اور مردار کھانے کی مانند ہے

وَاتَّقُوْااللہَ۔ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ

تقویٰ اختیار کرو، پورے پورے پرہیز گار بن جاؤمگر یہ سب کچھ اللہ توفیق دے تو حاصل ہوتاہے‘‘۔
(الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸،۹۔بحوالہ حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۶۔۷)
اس لئے اس معاشرے میں جہاں ہر طرف گند پھیلاہواہے،ہر طرف گندگی ہے، باتوں کی بھی، ……؟اس سے بچنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے رہنا چاہئے، اسی سے مدد مانگنی چاہئے تب ہی ہم اس سے بچ سکتے ہیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

’’ وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔اَ یُحِبُّ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا

یعنی چاہئے کہ ایک تمہارا دوسرے سے گلہ مت کرے۔کیا تم پسند کرتے ہوکہ مردہ بھائی کاگوشت کھاؤ‘‘۔(لیکچر لاہور۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ نمبر ۱۵۶)
اب گلہ کرنا،شکوہ کرنا بھی غیبت والی بات ہی ہے۔کیونکہ ایک دفعہ جب مشترکہ دوستوں میں بیٹھ کے شکایتیں شروع ہوگئیں توپھر آہستہ آہستہ یہی شکوے شکایتیں جو ہیں بڑھتی چلی جاتی ہیں-اور پھر غیبت کی عاد ت پڑ جاتی ہے۔اس لئے ہلکی سے ہلکی بھی جس میں شائبہ بھی ہو غیبت کا، وہ بات نہیں کرنی چاہئے۔
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتاہے۔ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں- لیکن اس سے بچنا چاہئے۔ عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺفرماتے ہیں کہ مَیں نے بہشت میں دیکھاکہ فقیر زیادہ تھے اوردوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں ‘‘۔ یعنی غریب لوگ بہشت میں زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھاکہ عورتیں بہت تھیں- پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اورکثرت سے ہیں-ان میں سے یہ ہیں کہ شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں ، ایسے ہیں- پھر قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں ، زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔(ملفوظات جلد۸ صفحہ ۴۴۱ جدید ایڈیشن)
یہ تو اس زمانے کی عورتوں کا حال تھا۔ الحمدللہ کہ حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو کر بہت بڑی تعداد عورتوں کی اس بیماری سے پاک ہو گئی ہے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں اور بعض تودین کی خدمت کے معاملے میں اور اس جذبے میں مردوں سے بھی آگے ہیں-لیکن ابھی بھی بعض دیہاتوں میں ، بعض شہروں میں بھی جہاں عورتیں نہ دین کی خدمت کر رہی ہیں ، نہ کوئی اور ان کو کام ہے،اس غیبت کی بیماری میں مبتلا ہیں-
اسی طرح مردوں کی بھی شکایات آتی ہیں-مجلسو ں میں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق بات کررہے ہوتے ہیں-توایسے بھی مرد ہیں-یہ وہی ہیں جن کو نکمے بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کے بیوی بچے بے چارے کما کر گھر کا خرچ چلا رہے ہوتے ہیں-اور ایسے لوگوں کو شرم بھی نہیں آ رہی ہوتی۔بہرحال یہ بیماری چاہے عورتوں میں ہو یا مردوں میں اس سے بچنا چاہئے۔ نظام جماعت کوبھی چاہئے خدام،لجنہ وغیرہ ، اس بارہ میں فعال ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ بیماری دیہاتی، ان پڑھ اور فارغ عورتوں میں زیادہ ہے اس لئے لجنہ کوخاص طورپر،دنیا میں ہرجگہ،مؤثر لائحہ عمل اس کے لئے تجویز کرنا چاہئے-پھر ان باتوں کے علاوہ جن کی نشاندہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے یہ بھی بیماری پیدا ہو گئی ہے کہ فارغ وقت میں اسی طر ح لوگوں کے گھروں میں بے وقت چلی جاتی ہیں-اور اگر کسی غریب نے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا ہواہے کہ اس طرح اندر گھستی ہیں گھروں میں کہ ان کے کچن تک میں چلی جاتی ہیں- کھانوں کی ٹو ہ لگاتی ہیں کہ کیا پکا ہے کیانہیں پکا۔اور پھر بجائے ہمدردی کے یا ان کی مدد کرنے کے، یا کم ازکم ان کے لئے دعا کرنے کے،مجلسوں میں باتیں کی جاتی ہیں کہ پیسے بچاتی ہے، سالن کی جگہ چٹنی بنائی ہوئی ہے یا پھراتنا تھوڑا سالن تھا، یا فلاں تھا، یہ تھا، وہ تھا،کنجوس ہے۔و ہ کنجوس ہے یا جو بھی ہے وہ اپنا گھرچلا رہی ہے جس طرح بھی چلا رہی ہے تمہارا کیا کام ہے کہ کسی کے گھر کے اندر گھس کر اس کے عیب تلاش کرو۔اور پھرجب ایسے سفید پوش لوگوں کے گھروں میں بچیوں کے رشتے آتے ہیں تو پھرایسی عورتیں Active ہو جاتی ہیں ،بڑی فعال ہو جاتی ہیں اور جہاں سے کسی کا رشتہ یا پیغام آیاہو وہاں پہنچ کر کہتی ہیں کہ ان کے گھرمیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔وہاں سے تمہیں جہیز بھی نہیں مل سکتا۔ اس لڑکی میں فلاں نقص ہے۔ تو مَیں تمہیں بتاتی ہوں فلاں جگہ ایک اچھا رشتہ ہے، یہاں نہ کرو وہاں کرو۔گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے، معمولی ہے، پھر بھی فکر کی بات ہے کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے اور یہ معاشرہ بہرحال اثرانداز ہوتاہے اور یہ باتیں بڑھنے کا خطرہ ہوتاہے۔
ایک حدیث ہے جو ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی ہے۔حضرت عبدالرحمن بن غنم ؓاور حضرت اسماء بنت یزیدسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں کہ جب ان کو دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے اور اللہ تعالیٰ کے بُرے بندے غیبت اور چغلیاں کرتے پھرتے ہیں ، دوستوں پیاروں کے درمیان تفریق ڈالتے ہیں ، نیک پاک لوگوں کو تکلیف، مشقت،فساد،ہلاکت او ر گناہ میں ڈالنا چاہتے ہیں ‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل۔مسند الشامیین)۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی مرد وعورت کو اس سے بچائے۔
پھر حدیث ہے۔حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’تم میں سے سب سے زیادہ میرے محبوب وہ ہیں جو بہترین اخلاق کے حامل ہوں ، نرم خو ہوں ، وہ لوگوں سے انس رکھتے ہو ں اور لوگ ان سے مانوس ہوں اور تم میں سب سے زیادہ مبغوض میرے نزدیک چغل خور، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنے والے اور بے گناہ لوگوں پر تہمت لگانے والے ہیں ‘‘۔(ترغیب و ترھیب)
پھر حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں-آنحضرت ﷺنے فرمایا :’’جب مجھے معراج ہوا تو کشفاً مَیں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اس سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔مَیں نے پوچھا،جبرائیل یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایاکہ یہ لوگ، لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتے تھے اور ان کی عزت و آبرو سے کھیلتے تھے (یعنی غیبت کرتے تھے، الزام تراشیاں کرتے تھے، حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے‘‘۔(ابوداؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ)
تو دیکھیں یہ کتنا خوفنا ک منظر ہے۔غیبت کرنے والوں کی مرنے کے بعد کی سزا کتنی خوفناک ہے۔انسان عام طورپر بعض دفعہ بے احتیاطی میں باتیں کرجاتاہے۔بعض اوقات نیت نہیں بھی ہوتی کہ چغلی یا غیبت ہولیکن آنحضرت ﷺاس معاملہ میں اتنے محتاط تھے اور اس حد تک گہرائی میں اور باریکی میں جاتے تھے کہ جہاں ذرا سا شائبہ بھی ہو کہ بات غیبت کے قریب ہے تو سخت کراہت فرماتے تھے اور فوراً تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔
’’حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے رسول اللہ ﷺکے پاس ایک عورت کے بار ہ میں کہا کہ وہ چھوٹے قد کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :تم نے غیبت کی ہے ‘‘۔(احیاء علوم الدین ازعلامہ غزالی جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۸)
اب کتنی باریکی میں جاکے بھی آپ ؐتنبیہ فرما رہے ہیں- کتنا خوف کامقام ہے، کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے۔ جب اس انتہا تک یا اتنی باریکی میں جاکر غیبت سے بچنے کی کوشش ہم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم حسین اسلامی معاشرہ قائم نہیں کرسکتے،جس کا دعویٰ کرکے ہم اٹھے ہیں- اور اسی طرح اپنی عاقبت بھی نہیں سنوار سکتے۔ غیبت کرنے والا کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا، سن لیا کیاہوتاہے۔
پھر حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :’’انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتاہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بے انتہا بلند کر دیتاہے اور بعض اوقات وہ لاپرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتاہے جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتاہے‘‘۔(بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللسان)
’’حضرت ابوعمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا اعمال نامہ لایا جائے گا۔وہ اس کو پڑھے گا،پھر کہے گا اے میرے رب مَیں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کئے تھے وہ تو اس میں نہیں ہیں- تو اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمہارے نامہ ٔاعما ل سے مٹا دی گئی ہیں ‘‘۔(ترغیب و ترھیب)
دیکھیں غیبت کی وجہ سے وہ تمام نیک کام نماز، روزے، صدقے،کسی غریب کی خدمت کرنا، سب نیکیاں نامہ ٔ اعما ل سے مٹا دی گئیں صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کی غیبت کرتاتھا۔
اس بارہ میں جتنی بھی احادیث پڑھیں ، خوف بڑھتاچلا جاتاہے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ آدمی ہروقت استغفار کرتا رہے۔
’’امام غزالی ؒ کہتے ہیں (اس کا خلاصہ یہ ہے )کہ جس کے پاس چغلی کی جائے اسے چاہئے کہ وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے اور نہ جس کے بارہ میں چغلی کی گئی ہے اس سے بدظن ہو‘‘۔(فتح الباری جلد ۱۰ صفحہ ۴۳۷)
اب یہ بڑے ہی پتے کی بات ہے جو امام غزالی نے بیان فرمائی ہے اور افسران اور عہدیداران کو خاص طورپر یہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ کبھی بات یک طرفہ بات سن کرکسی کے خلاف نہیں ہو جانا چاہئے،کسی سے بدظن نہیں ہو نا چاہئے اور ہمیشہ تحقیق کرنی چاہئے اور صحیح طریقے پر تحقیق کرنی چاہئے، گہرائی میں جا کر تحقیق کرنی چاہئے،پھرکوئی نتیجہ اخذ کیاجائے۔ اور عموماً یہی ہوتاہے کہ اکثر تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ جو چغلی کرنے والے ہیں ان لوگوں کی اکثر رپورٹیں ایسی ہی ہوتی ہیں-کہ سب کچھ غلط تھا، صرف چغلی کی گئی تھی، غیبت کی گئی تھی اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح اس کو نقصان پہنچایاجائے۔پھر یہ بھی ہے کہ آئندہ ایسے شخص سے محتاط رہیں- اس کی گواہی قبول نہ کریں ، اس کی کسی رپورٹ پر کان نہ دھریں-
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
’’اسلام نے غیبت کی ممانعت کے متعلق جو حکم دیاہے اس میں حکمت یہ ہے کہ بسا اوقات انسان دوسرے کے متعلق ایک رائے قائم کر لیتاہے اور وہ اپنے آپ کو اس رائے میں حق بجانب بھی سمجھتاہے‘‘۔وہ سمجھتاہے کہ مَیں نے ٹھیک رائے قائم کی ہے ’’ لیکن درحقیقت اس کی یہ رائے صحیح نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ ہم نے بیسیوں دفعہ دیکھاہے کہ ایک شخص کے متعلق ایک رائے قائم کر لی گئی کہ یہ ایسا ہی ہوگا اور یہ بھی یقین کر لیا جاتاہے کہ میری رائے بھی درست ہے لیکن ہوتی غلط ہے۔اور اگر ایسی صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص سامنے بیٹھا ہوگا۔اگر تو دوسرا شخص جس کے بارہ میں رائے قائم کی گئی ہے وہ سامنے بیٹھا ہو اور اس سے پوچھا جائے تو لازما ً وہ اپنی بریت ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اورکہے گا کہ تمہیں میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے،میرے اندر یہ نقص نہیں پایا جاتا۔ تو آ پ فرماتے ہیں کہ خواہ کسی کے نزدیک کوئی بات سچی ہو جب وہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں بیان کرتاہے اور وہ بات ایسی ہے کہ جس سے اس کے بھائی کی عزت کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے علم کی تنسیخ ہوتی ہے یا اس کے رتبہ کی تنسیخ ہوتی ہے تو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے وہ گناہ کا ارتکاب کرتاہے کیونکہ اس طرح ا س نے اپنے بھائی کو اپنی برأت پیش کرنے کے حق سے محروم کردیا‘‘۔(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۵۷۹)
’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے چغلی کرنے اور چغلی سننے دونوں سے منع فرمایا ہے۔ (مجمع الزوائد جلد ۸ صفحہ ۹۱)
جیسے کہ پہلے بھی مَیں نے کہا تھا کہ بعضوں کو ایسی مجلسوں میں بیٹھ کر ہنسی مذاق سننے کی عادت پڑتی ہے اور آہستہ آہستہ چغلی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔تو چغلی سننے کو بھی منع فرمایاہے۔
پھر’’ حضرت عبداللہ بن بُسر بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :حاسد،چغل خور اور کاہن مجھ میں سے نہیں اور مَیں ان میں سے نہیں-(مجمع الزوائد جلد ۸ صفحہ ۹۱)
پھر ایک حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا تو انسان کونظر آجاتاہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا شہتیر وہ بھول جاتاہے۔(الترغیب والترھیب منان یامر بالمعروف وینہی عن المنکر وینھی نفسہ)۔یعنی بھائی کی چھوٹی سے چھوٹی برائی تو نظرآ جاتی ہے اپنی بڑی بڑی برائیاں بھی نظر نہیں آتیں-
آج بھی دیکھ لیں چغل خور یا دوسروں کی غیبت کرنے والے، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے خود ان تمام برائیوں میں بلکہ ان سے بڑھ کر برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو وہ اپنے بھائی کے متعلق بیان کر رہے ہوتے ہیں- اور پھر ان کی بے شرمی کی یہ بھی انتہا ہے کہ ان کی برائیوں کا کھلے عام بعض لوگوں کو علم بھی ہوتاہے پھر بھی ان کو شرم نہیں آ رہی ہوتی کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کریں بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کی برائیاں کریں-
سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اگر صحیح درد ہے معاشرے کا،معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ، صرف مزے لینے کے لئے اور لوگوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے باتیں نہیں کہ ان کو لوگوں کی نظرو ں سے گراؤں ،افسروں کی نظروں سے گراؤں اوراپنی پوزیشن بناؤں-تو ایسے لوگ بھی جیسا کہ حدیث میں آتاہے کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں کہ’’ حضرت ابن عباس ؓنے کہا کہ اگر تو اپنے کسی ساتھی کے عیوب بیان کرنا چاہے تو پہلے ایک نظر اپنے عیوب پر ڈال لے‘‘ (احیاء علوم الدین جلد ۳ صفحہ ۱۷۷)۔کسی کے عیب بیان کر نے سے پہلے اپنے عیبوں پر نظر ڈالو۔
اسی بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا کہ ؎

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے
مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

تو جب آپ اپنے عیب دیکھیں گے۔ جو بہت دل گردے کا کام ہے، بہت کم ہیں جو اپنے عیبوں پر اس طرح نظر رکھتے ہیں جیساکہ فرمایا گیاہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظرآنا بہت مشکل ہوتاہے۔ اپنی بڑی سے بڑی برائی بھی نظر نہیں آتی۔اوراگر وہ نظر آ جائے گی تو بڑی اور چھوٹی تمام برائیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔ اور دوسروں کی برائیاں کرنے سے پہلے ایسا شخص سوچے گا اور پھر نیک نیت ہوکر پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا، پھر اپنے دوست کی اصلاح کی کوشش کرے گا تاکہ حسین اور پاک معاشرہ قائم ہو جائے۔اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہرایک کو اس کی توفیق دے کہ اپنے آپ پر نظر رکھیں-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: ’’بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو، اپنے بھائی کے خلاف تجسس نہ کرو،اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو،حسد نہ کرو، دشمنی نہ رکھو، بے رخی نہ برتو، جس طرح اس نے حکم دیاہے اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اسے رسوا نہیں کرتا، اسے حقیر نہیں جانتا، اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آ پ نے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے۔(یعنی مقام تقویٰ تو دل ہے) اور سب سے بڑا جو مقام تقویٰ ہے اور جس دل میں تقویٰ ہے وہ آنحضرت ﷺکا دل ہے اور پھر ہر ایک کو بھی اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہئے اور تقویٰ پرقائم رہنا چاہئے۔ تو’’ ایک انسان کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پرحرا م ہیں-اس کا خون،اس کی آبرو اور اس کا مال۔اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کونہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو اورنہ تمہارے اموال کو بلکہ اس کی نظر تمہارے دلوں پرہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،اپنے بھائی کے خلاف جاسوسی نہ کرو، دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ رہو، ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو‘‘۔ اب یہاں سودے بگاڑنے میں ایک یہ چیز بھی آ جاتی ہے کہ جو نئے رشتے قائم ہو رہے ہوتے ہیں لڑکے لڑکی کے ان میں بھی بعض لوگ بگاڑ پیدا کرتے ہیں جیساکہ مَیں پہلے بیان کر آیاہوں- تو یہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ عورتیں پہنچ جاتی ہیں ، جہیز کا اوردوسری چیزوں کابتانے کے لئے کہ فلاں جگہ نہیں ، فلاں جگہ اچھا رشتہ ہے۔ پھر فرمایاکہ’’ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو ‘‘۔(مسلم کتاب الادب باب تحریم الظن وبخاری کتاب الادب)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’خیانت نہ کرو، گلہ نہ کرو،اور ایک عور ت دوسری عورت پر بہتان نہ لگاوے‘‘۔(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۸۱) اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد جا کراپنی عورتوں کو سمجھاتے رہیں ، خود بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پھر کسی عورت نے کسی دوسری عورت پر گلہ کیا تو اس پر آپ نے فرمایا :
’’ایک شخص تھا، اس نے کسی دوسرے کو گنہگار دیکھ کر خوب اس کی نکتہ چینی کی۔ اور کہاکہ دوزخ میں جائے گا۔ قیامت کے دن خدا تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیوں؟، تجھ کو میرے اختیارات کس نے دئے ہیں ‘‘۔ جنت اور دوزخ میں بھیجنا تو میر اکام ہے۔’’ دوزخ اور بہشت میں بھیجنے والا تو مَیں ہی ہوں تو کون ہے؟‘‘ تو جس نے نکتہ چینی کی تھی اور اپنے آ پ کو نیک سمجھتا تھا اس شخص کوکہا کہ ’’جا مَیں نے تجھے دوزخ میں ڈالا اور اور یہ گنہگار بندہ جس کا توگلہ کیا کرتاتھا کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے او ردوزخ میں جائے گا اس کو مَیں نے بہشت میں بھیج دیا‘‘، جنت میں بھیج دیا۔تو فرماتے ہیں کہ’’ ہر ایک انسان کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ مَیں ہی الٹا شکار ہو جاؤں ‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۰۔۱۱۔ مطبوعہ ربوہ)
آج بھی لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا گندہ ہے، گنہگار ہے، جہنمی ہے پھر بعض اپنی بزرگی جتانے کے لئے اس قسم کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے تو کرید کرید کر کسی کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ فلاں نیکی تم نے کی، فلاں کی، نماز پڑھی، یہ کیا، وہ کیا، نمازوں میں دعائیں کرتے ہو، کس طرح کرتے ہو،رقت طاری ہوتی ہے کہ نہیں ، رونا آتاہے کہ نہیں ، حوالہ دیا کہ جس کو رونا نہیں آیا اس کا دل سخت ہوگیا۔تو یہ چیزیں پوچھتے ہیں پہلے کرید کرید کر جو بالکل غلط چیز ہے۔ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے، انفرادی طور پر کسی کو پوچھنے کا حق نہیں ہے۔ عموماًایک نصیحت کی جاتی ہے جلسوں میں ، خطبوں میں ،کہ اس طرح نماز پڑھنی چاہئے اس طرح نماز ادا کرنی چاہئے اور پوری طرح اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا چاہئے۔ تو ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ پہلے کرید کریدکر پوچھے اور پھر جب اس کی حالت کا پتہ کر لے تو یہ کہے کہ تم اتنے دن سے نماز میں روئے نہیں ، تمہیں رقت طاری نہیں ہوئی۔تم نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا یا ہلاکت میں ڈال لیا۔ تو ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا کے اختیار ان کو نہیں ہیں- ہو سکتاہے کہ تمہارے رونے کو تو خداتعالیٰ رد ّ کر دے اور اس کے نہ رونے کو قبول کر لے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتاہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے۔کسی کو کیاخبر کہ اس کے اندر کیاہے۔ تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے کا کیافائدہ۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ ایک شخص بڑا گناہ گار ہوگا۔ خداتعالیٰ اس کو کہے گاکہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا،فلاں گناہ کیا، لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنوائے گا۔ وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے سرزد ہوئے۔خداتعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن مَیں نے تیرے سب گناہ معاف کئے اور ہرایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دے دیا۔ تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثوا ب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت زیادہ ثواب ہوگا۔ تو یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا مَیں نے تو یہ گناہ بھی کئے ہیں- تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلا تاہے۔پھر اسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا‘‘۔تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس لئے ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ کسی پربلاوجہ انگلیاں اٹھاتے پھریں-’’ تو کیاخبر ہے کہ خداتعالیٰ کا ا س سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیاہے۔ اس لئے غیبت کرنے سے بکلّی پرہیزکرنا چاہئے۔ (بدر جلد نمبر ۱۰ صفحہ ۱۰۔مورخہ ۹؍مارچ ۱۹۰۶ء۔ بحوالہ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۴۱۷۔جدید ایڈیشن)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ :’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان اُن میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں- جوان سے بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلاً گِلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے( شکوہ کرنے کی عادت ہے )۔ ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں- حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بُرا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے

أَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتاً

خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو یہ سب برے کام ہیں ‘‘۔(الحکم۔ جلدنمبر ۱۰،نمبر ۲۲، صفحہ۳۔ بتاریخ۲۴؍جون ۱۹۰۶ئ۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہارم صفحہ ۲۱۸۔۲۱۹ )
پھر آ پ فرماتے ہیں :’’ ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعاکریں ، لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں- کون ساایسا عیب ہے جو کہ دور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔فرمایا کہ :’’ایک صوفی کے دومرید تھے۔ایک نے شراب پی اورنالی میں بیہوش ہو کر گرا۔ دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔ اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتاہے جا کر اٹھا کیوں نہیں لاتا۔تو فرمایا کہ صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔ آنحضرت ﷺ سے غیبت کا حال کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کر نا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے‘‘۔پیچھے سے کسی کی بات چاہے وہ صحیح ہو اس طرح بیان کرنا کہ اگر اس کے سامنے کرتے تواس کو برا لگتا۔’’غیبت ہے۔اور اگر و ہ بات اس میں نہیں ‘‘اور پھر تم بیان کر رہے ہو تو یہ بہتان ہے،یہ جھوٹ ہے، اس پر الزام ہے۔
تو فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ فرماتاہے

وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔اَیُحِبُّ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا (الحجرات:۱۳)

اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیاہے اوراس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتاہے ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بیکار جاتی ہے‘‘۔اس لئے نصیحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔’’اگر مومنوں کو ایسا ہی محتاط ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر ایسی کسی آیت کی کیا ضرورت تھی۔بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتاہے،بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے۔ اور اگر دو نوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء وقدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خداتعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہواہے توتم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔… جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتاہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتاہے

تَوَاصَوْبِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْ بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد :۱۸)

کہ وہ صبر اوررحم سے نصیحت کرتے ہیں- مَرْحَمَۃ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتاہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم ازکم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو۔سعدی نے کہا ہے ؎

خداداندو بپوشد ہمسایہ نداند وخروشد

کہ خداتعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتاہے مگر ہمسایہ کوعلم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتاہے۔
خداتعالیٰ کا نام ستار ہے۔تمہیں چاہئے کہ

تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ

بنو۔ہمار ا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ ہے کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو، کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیاہے تو یہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اورغیبت کی جاوے۔شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کرتاتھا اور دوسرا جلا بھُنا کرتا تھا۔ آخر پہلے نے سعدیؒ سے بیان کیا کہ جب مَیں کچھ بیا ن کرتاہوں تو دوسرا جلتاہے او ر حسد کرتاہے۔شیخ نے جوا ب دیاکہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اورتوُ نے غیبت کی۔غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا،ستاری اور مَرْحَمَۃ آپس میں نہ ہو‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۶۰۔۶۱۔ جدید ایڈیشن)
فرماتے ہیں :’’اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ‘‘۔(کشتی ٔ نوح۔روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)
’’بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خداترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں ، دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ، نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ
و استغفار میں مصروف رہو۔ نوعِ انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دُکھ نہ دو۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کردے گا۔ عورتوں کو بھی اپنے گھروں میں نصیحت کرو کہ وہ نماز کی پابندی کریں اور ان کو گلہ شکوہ اور غیبت سے روکو۔ پاکبازی اور راستبازی ان کو سکھاؤ، ہماری طرف سے صرف سمجھانا شرط ہے اس پر عملدرآمد کرنا تمہارا کام ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ششم صفحہ۱۴۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ اور غیبت جو ایسی بیماری ہے جو بعض دفعہ غیر محسوس طریق پر اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اس سے سب کو بچائے۔ بہرحال جس طرح فرمایاہے استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔اور اللہ تعالیٰ ہماری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور ہماری توبہ قبول فرمائے۔
قادیان میں آج جلسہ شروع ہے۔ ۱۱۲ واں جلسہ سالانہ ہے اس کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ خیروخوبی سے انجام کو پہنچائے۔ پرسوں انشاء اللہ ختم ہوگا، ہر لحاظ سے بابرکت ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں