خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 5؍دسمبر2003ء

جماعت احمدیہ کا نظام ہر احمدی کو پیار ومحبت کی لڑی میں پرو کر رکھتا ہے
جماعت احمدیہ میں عہدیدار اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہے
(کارکنان اور عہدیداران کو نہایت اہم اور پرحکمت نصائح اور ان کی ذمہ داریوں کی تفاصیل)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۵؍دسمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۵؍فتح ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۔ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ-(سورۃ آل عمران آیت ۱۶۰)

جماعت احمدیہ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو بچپن سے لے کر مرنے تک ہر احمدی کو ایک پیار اورمحبت کی لڑی میں پرو کر رکھتاہے۔ بچہ جب سات سال کی عمر کو پہنچتاہے تو اسے ایک نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتاہے اور وہ مجلس اطفال الاحمدیہ کا ممبر بن جاتاہے۔ ایک بچی جب سات سال کی عمر کو پہنچتی ہے تووہ ناصرات الاحمدیہ کی رکن بن جاتی ہے جہاں انہیں ایک ٹیم ورک کے تحت کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔پھر انہی میں سے ان کے سائق بنا کر اپنے عہدیدار کی اطاعت کا تصور پیدا کیا جاتاہے۔پھر پندرہ سال کی عمر کو جب پہنچ جائیں تو بچے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں اور بچیاں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک انتظامی ڈھانچے کے تحت بچپن سے تربیت حاصل کر کے اوپر آنے والے بچے اور بچیاں ہیں جب نوجوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو ان نیک تنظیموں میں شامل ہونے سے جماعتی نظام اور طریقوں سے ان کو مزید واقفیت پیدا ہوتی ہے۔اور عمر کے ساتھ ساتھ کیونکہ اب یہ بچے اور بچیاں اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں شعور پیدا ہو جاتاہے۔ اس لئے پندرہ سال کی عمر کے بعد یہ خود بھی اپنے میں سے ہی اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں اور ان کے تحت ان کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے اور نظام چل رہا ہوتاہے۔تو پندرہ سال کی عمر کے بعد جیسا کہ مَیں نے کہا کہ لجنہ یا خدام میں جا کریہ لوگ اپنے عہدیدار اپنے میں سے منتخب کرتے ہیں اور پھر مرکزی ہدایات کی روشنی میں متفرق امور اور تربیتی امور خودسر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں-تو بچپن سے ہی ایسی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے،ایسے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ان کو ٹریننگ ہو جاتی ہے اور پھر یہی بچے جب بڑے ہو تے ہیں اور جماعتی نظام میں پوری طرح سموئے جاتے ہیں تو جماعتی کاموں میں بھی زیادہ فائدہ مند اور مفید وجود ثابت ہوتے ہیں اوراس نظام کا ایک حصہ بنتے ہیں- تو بہرحال انہی ذیلی نظاموں کا حصہ بنتے ہوئے ہر بچہ، جوان، عورت، مرد، جب جماعتی نظام کاحصہ بن جاتے ہیں تو گو جماعتی نظام پہلے ہے، مقدم ہے۔ لیکن اس میں ہر بچے اور نوجوان کی اس طرح مکمل Involvementنہیں ہوتی جس طرح کہ شروع میں ذیلی تنظیموں میں ہو رہی ہوتی ہے اورہو بھی نہیں سکتی۔ اس لئے حضرت مصلح موعود ؓ کی دوررس نظرنے ذیلی تنظیموں کا قیام کیاتھا اور یہ آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے جماعت پر۔ اور اسی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا، ابتداء سے ہی جماعت کے ہر بچہ کے ذہن میں جماعتی نظام کا ایک تقدس اور احترام پیدا ہو جاتاہے۔اور اسی احترام اور تقدس کے تحت وہ پروان چڑھتاہے اور چونکہ ابتداء سے ہی نظام کا تصورِ پیار ومحبت اور بھائی چارے اور مل جل کر کام کرنے کی روح کے ساتھ وہ بچہ پروان چڑھ رہا ہوتاہے اورپھر خلیفہ ٔوقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیارو محبت کا تعلق اس ٹریننگ کی وجہ سے ہو رہاہوتاہے اور ہو جاتاہے اس لئے ہر فرد جماعت جب جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہواور اپنے عہدیداران کی اطاعت بخوشی کرتاہے تو اس لئے کرتاہے کہ بچپن سے نظام کے بارہ میں پڑنے والی آواز اور خلیفہ ٔوقت سے ذاتی تعلق اور پیار کی وجہ سے مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت چونکہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکاہے اور خلیفہ ٔوقت کی براہ راست اس پر نظر ہوتی ہے اس لئے نئے شامل ہونے والے، نومبایعین بھی ان احمدیوں کے علاوہ بھی جو پیدائشی احمدی ہوں ، بڑی جلدی نظام میں سموئے جاتے ہیں-
لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہاہے، نظا م جماعت کو چلانے والے کارکنان اورعہدیداران کی ذمہ داریاں بھی زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں- انہیں تسبیح اور استغفار کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ

کا جو حکم ہے اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اور یہی چیز ان کو زیادہ احساس دلارہی ہے، یا کم از کم احساس دلاناچاہئے کہ اپنی طبیعتوں میں نرمی پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں-اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینے کے احساس کو زیادہ ابھارنے کی ضرورت ہے۔نظام جماعت کی ذمہ داری اد ا کرتے وقت اپنی اناؤں اورخواہشات کو مکمل ختم کر کے خدمت سرانجام دینے کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور پہلے سے بڑھ کر ضرور ت ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ میں آجانے کی عادت کو عہدیداران کو ترک کرنا ہوگا اور کرنا چا ہئے۔جماعت کے ا حباب سے پیار،محبت کے تعلق کو بڑھانے،ان کی باتوں کو غوراور توجہ سے سننے اور ان کے لئے دعائیں کرنے کی عادت کومزید بڑھانا چاہئے۔تبھی سمجھا جاسکتاہے کہ عہدیداران اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا کر رہے ہیں یا کم از کم ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں-
جماعت احمدیہ میں عہدیدار اسٹیجوں پر بیٹھنے یا رعونت سے پھرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں- اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جماعت کو اکٹھا رکھنے کے لئے ایک رہنما اصول اس آیت میں بتا دیاہے جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ تو اگر آنحضرت ﷺکی اس خوبی کی وجہ سے کہ آپ کے دل میں لوگوں کے لئے نرمی اور محبت کے جذبات تھے لوگ آپ کے ارد گرد اکٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس آتے تھے تو پھرمَیں اور آپ ، ہم کون ہوتے ہیں جو محبت اور پیارکے جذبات لوگوں کے لئے نہ دکھائیں اور امید رکھیں کہ لو گ ہماری ہر بات مانیں- ہمیں تو اپنے آقا کی اتباع میں بہت بڑھ کر عاجزی، انکساری، پیار اورمحبت کے ساتھ لوگوں سے پیش آنا چاہئے۔کیونکہ خلیفۂ وقت کے لئے تو ہر ملک میں ، ہر شہر میں یا ہر محلے میں جاکر لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہ نظام جماعت قائم ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکاہے۔ وہ تمام عہدیدار چاہے ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں چاہے جماعتی عہدیدار ہوں ،خلیفہ ٔ وقت کے نمائندے کے طورپر اپنے اپنے علاقہ میں متعین ہیں اوران سے یہی امید کی جاتی ہے اور یہی تصورہے کہ وہ خلیفہ ٔوقت کے نمائندے ہیں-اگر وہ اپنے علاقہ کے احمدیوں کے حقوق ادا نہیں کررہے،ان کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہو رہے،ان سے پیار محبت کا سلوک نہیں کررہے،یا اگر خلیفہ ٔوقت کی طرف سے کسی معاملہ میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو بغیر تحقیق کے مکمل طریق کے جواب دے دیتے ہیں یا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے،جو خدا نہ کرے ہمارے کسی عہدیدار میں ہو، غلط رپورٹ دے دیتے ہیں توایسے تمام عہدیدارگنہگار ہیں-ابھی گزشتہ دنوں بغیر مکمل تحقیق کے ایک رپورٹ چند احمدیوں کے بارہ میں مقامی جماعت کی طرف سے مرکز میں آئی کہ انہوں نے فلاں فلاں جماعتی روایات سے ہٹ کر کام کیاہے اورجماعتی قواعد کے مطابق اس کی سزا اخراج ازنظام جماعت تھی۔جب مرکزی دفترنے مجھے لکھااور ان اشخاص کو اخراج ازنظام جماعت کی سزا ہوگئی۔ تو جن کو سزا ہوئی تھی انہوں نے شور مچایاکہ ہمارا تو اس کام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، ہم تو بالکل معصوم ہیں ،اور کسی طرح بھی ہم ملوث نہیں ہیں-توپھر مرکزنے نئے سرے سے کمیشن خود مقررکیا اور تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صدر جماعت نے بغیر مکمل تحقیق کے رپورٹ کر دی تھی اور اب صدر صاحب کہتے ہیں غلطی سے نام چلا گیا۔یعنی یہ تو بچوں کا کھیل ہوگیا کہ ایک معصوم کو اتنی سخت سزا دلوا رہے ہیں اور پھر بھولے بن کر کہہ دیاکہ غلطی سے نام چلا گیا۔توایسے غیر ذمہ دار صدر کو تو مَیں نے مرکز کو کہاہے کہ فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔اور آئندہ بھی جوکوئی ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گا اس کو پھر تازندگی کبھی کوئی جماعتی عہدہ نہیں ملے گا۔ایسے شخص نے ہمیں بھی گناہگار بنوایا۔اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
حدیث میں آتاہے حضرت معقل بن یسار ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی، اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیرخواہی میں کوتاہی کرتاہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا۔(مسلم کتاب الایمان باب استحقاق الوالی الغاش لرعیۃ النار)
پھر ایک حدیث ہے۔ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اس سے اپنی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ امیر نگران ہے اور آدمی اپنے گھر کانگران ہے، عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے،اولاد کی نگران ہے۔پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی ذمہ دار ی کو کس طرح نبھایاہے۔
تو تمام عہدیداران اپنے اپنے دائرہ عمل میں نگران بنائے گئے ہیں- مَیں نے پہلے بھی ذیلی تنظیموں کا بھی ذکر کیاہے تو بعض دفعہ بعض رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی معلومات پر مبنی ہوتی ہیں ، ان کی طرف سے آرہی ہوتی ہیں-تو اگر ہر لیول پر اس نگرانی کا صحیح حق ادا نہیں ہورہا ہوگاتو پھرآنحضرت ﷺ نے تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر تم بطور نگران اپنے فرائض کی ادائیگی نہیں کر رہے تو تم پوچھے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضرہونا اور پوچھے جانا بذات خود ایک خوف پیداکرنے والی بات ہے لیکن یہاں جو فرمایاکہ یہ نہ سمجھوکہ تم پوچھے جاؤگے اور شاید نرمی کا سلوک ہو جائے اورجان بچ جائے بلکہ فرمایا کہ جنت ایسے لوگوں پر حرام کر دی جائے گی۔ پس بڑا شدید انذارہے،خوف کا مقام ہے، رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں-اللہ تعالیٰ ہرعہدیدار کو ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی ضر ور ی ہے کہ ذیلی تنظیموں کی عاملہ ہو، لجنہ،انصار،خدام کی یا جماعت کی عاملہ، کسی شخص کے بارہ میں جب کوئی رائے قائم کرنی ہوتو اس بارہ میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ چاہے اس شخص کے گزشتہ رویہ کے بارہ میں علم ہوکہ کوئی بعید نہیں کہ اس نے ایسی حرکت کی ہو اس لئے اس کو سزا دے دویا سزا کی سفارش کردو۔ نہیں ، بلکہ جو معاملہ عاملہ کے سامنے پیش کیاہے اس کی مکمل تحقیق کریں-اگر شک کا فائدہ مل سکتاہے تواس کو ملنا چاہئے جس پر الزام لگ رہاہے۔ اگر وہ شخص مجر م ہے توشاید اس کو یہ احساس ہوجائے کہ گو مَیں نے جرم تو کیاہے لیکن شک کی وجہ سے مجھ سے صرف نظر کیاگیاہے۔تو آئندہ اس کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے یاکم ازکم مجلس عاملہ یا ایسے عہدیدار اس حدیث پر توعمل کرنے والے ہوں گے جو حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے۔
بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا مسلمان کو سز ا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو۔اگر اس کے بچنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہو تو معاملہ رفع دفع کرنے کی سوچو۔ امام کا معاف اور درگزر کرنے میں غلطی کرنا، سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہترہے۔ (ترمذی ابواب الحدود۔باب ما جاء فی درء الحدود)
پھر ایک حدیث ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایاجو شخص مسلمانوں کے ا جتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اللہ اس کی حاجات اور مقاصد پورے نہیں کرے گا جب تک وہ لوگوں کی ضروریات پوری نہ کرے۔ (ترغیب و ترھیب بحوالہ طبرانی و ترمذی)
تو اس حدیث میں یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ بحیثیت عہدیدار تم پر بڑی ذمہ دار ی ہے۔بہت بڑی ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے اس لئے صرف یہ نہ سمجھو کہ عہدیدار بن کر، صرف عاملہ میں بیٹھ کر جو معاملات لڑائی جھگڑے یا لین دین کے آتے ہیں ان کو ہی نمٹانا مقصود ہے۔ بلکہ ہر عہدیدار پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ دار ی نبھائے۔ہر سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے۔اب سیکرٹری امور عامہ کاصرف یہ کام ہی نہیں ہے کہ آپس کے فیصلے کروائے جائیں یا غلط حرکات اگر کسی کی دیکھیں تو انہیں دیکھ کر مرکز میں رپورٹ کردی جائے۔ اس کا یہ کام بھی ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بیکار افراد جن کو روزگار میسر نہیں ، خدمت خلق کا بھی کام ہے اور روزگار مہیاکرنے کا بھی کام ہے، اس کے لئے روزگار کی تلاش میں مدد کرے-بعض لوگ طبعاً کاروباری ذہن کے بھی ہوتے ہیں-ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کریں-اگر ایسے افراد میں صلاحیت دیکھیں تو تھوڑی بہت مالی مدد کرکے معمولی کاروبار بھی ان سے شروع کروایا جاسکتاہے۔اور اگر ان میں صلاحیت ہوگی تو وہ کاروبارچمک بھی جائے گا اور آہستہ آہستہ بہتر کاروبار بن سکتاہے۔ مَیں نے کئی لوگوں کو دیکھاہے جو پاکستان میں بھی سائیکل پر پھیری لگاکر یا کسی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کے، ٹوکری رکھ کر یاچند کپڑے کے تھان رکھ کر اس وقت دوکانوں کے مالک بنے ہوئے ہیں-تو یہ ہمت دلانا بھی، توجہ دلانا بھی، ایسے لوگوں کو پیچھے پڑ کر کہ کسی نہ کسی کام پر لگیں یہ بھی جماعتی نظام یا جماعتی نظام کے عہدیدار کا کام ہے جس کے سپرد یہ کام کیا گیاہے یعنی سیکرٹری امور عامہ۔
پھر سیکرٹری تعلیم ہے۔ عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنے ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہدیدار سے توقع کی جا سکتی ہے۔اور یہ مَیں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا ، ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے توپتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے۔ حالانکہ مثلاً سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہاہوں ، سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ رہے ہیں ، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جا رہے۔ پھر وجہ معلوم کریں کہ کیاوجہ ہے وہ سکول نہیں جا رہے۔مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے۔ اورایک احمدی بچے کو تو توجہ دلانی چاہئے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ مثلاً پاکستان میں ہر بچے کے لئے خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پا س کر ے۔بلکہ اب تو معیارکچھ بلند ہو گئے ہیں اور مَیں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف۔اے ضرور کرنا چاہئے۔
افریقہ میں جو کم از کم معیارہے پڑھائی کا۔سیکنڈری سکول کا یا جی سی ایس سی،یہاں بھی ہے، وہاں بھی۔ اسی طرح ہندوستان اور
بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں ،یہاں بھی مَیں نے دیکھاہے یورپ کے اور امریکہ کے بعض لڑکے ملتے ہیں وہ پڑھائی چھوڑ بیٹھے ہیں- تویہ کم از معیار ضرور حاصل کرنا چا ہئے۔بلکہ یہاں تک تعلیمی سہولتیں ہیں بچوں کواور بھی آگے پڑھنا چاہئے۔ اور سیکرٹریان تعلیم کو اپنی جماعت کے بچوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔ اگر تو یہ بچے جس طرح مَیں نے پہلے کہا، کسی مالی مشکل کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑی ہوئی ہے تو جماعت کو بتائیں-جماعت انشاء اللہ حتی الوسع ان کا انتظام کر ے گی۔ اور پھر یہ بھی ہوتاہے بعض دفعہ کہ بعض بچوں کو عام روایتی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی۔اگر اس میں دلچسپی نہیں ہے تو پھر کسی ہنر کے سیکھنے کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں-وقت بہرحال کسی ا حمدی بچے کا ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ پھر ایسی فہرستیں ہیں جو ان پڑھے لکھوں کی تیار کی جائیں جو آگے پڑھنا چاہتے ہیں- ہائر سٹڈیز کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تو جس حد تک ہوگا جماعت ایسے لوگوں کی مدد کرے گی۔لیکن بہر حال سیکرٹریان تعلیم کو خود بھی اس سلسلے میں Active ہونا پڑے گا اور ہونا چاہئے۔تویہ چند مثالیں ہیں- جو ذمہ داری ہے سیکر ٹری تعلیم کی، اور بھی بہت سارے کام ہیں ا س بارہ میں چند مثالیں مَیں نے دی ہیں-اگر محلے کے لیول سے لے کر نیشنل لیول تک سیکرٹریان تعلیم مؤثر ہو جائیں اور کام کر نے والے ہوں تو یہ تمام باتیں جو مَیں نے بتائیں ہیں اور ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری باتیں ہیں ان سب کا علم ہو سکتاہے۔ فہرست تیار ہو سکتی ہے اور پھر ایسے طلباء کو مدد کر کے پھر آگے پڑھایا بھی جا سکتاہے۔
پھر سیکرٹری تربیت یا اصلاح و ارشاد ہے ان کو بھی بہت فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اگر یہ سکرٹریاں تربیت یا اصلاح وارشاد بعض جگہوں پر کہلاتے ہیں ، اپنے معین پروگرام بناکر نچلے سے نچلے لیول سے لے کر مرکزی لیول تک کام کریں جس طرح کام کرنے کا حق ہے تو امور عامہ کے مسائل بھی اس تربیت سے حل ہو جائیں گے،تعلیم کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو جائیں گے،رشتہ ناطہ کے مسائل بھی بہت حد تک کم ہو جائیں گے۔ یہ شعبے آپس میں اتنے ملے ہوئے ہیں کہ تربیت کا شعبہ فعال ہونے سے بہت سارے شعبے خود ہی فعال ہو جاتے ہیں اور جماعت کا عمومی روحانی معیار بھی بلند ہوگا۔ تو یہ جو حدیث ہے، لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے یہ مرادہے کہ یہ عہدے تمہارے سپرد ہیں ان عہدوں کی ذمہ داری کو سمجھو اور ان کو ادا کرو۔ جب اس طریق سے ہر عہدیدار اپنے اپنے شعبہ کی ذمہ داریاں ادا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے مزید عزت واحترام پیدا ہوگا اورجیساکہ مَیں نے کہا جماعت کا عمومی معیار بھی بلند ہوگا۔
اس بارہ میں حضر ت مصلح موعود ؓکا ایک اقتباس ہے وہ مَیں سناتاہوں-فرمایا:
’’دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم ماننا لوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے۔ اور الہامی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو۔ مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اس لئے کرو، اس لئے کرو۔ گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے۔ تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا، یہ کامیابی کا ایک اہم گُر ہے۔ اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے۔ چنانچہ سورئہ لقمان میں حضرت لقمان ؑکی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِک (لقمان :۲۰) کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں- بے شک تم آگے بڑھنے کی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں-
دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو، محبت پیار اور سمجھا کر دو۔ اس طرح نہ کہو کہ ’’ہم یوں کہتے ہیں ‘‘۔(تو قرآن شریف کی تعلیم تو یہ ہے کہ محبت اور پیار سے حکم دو،نہ کہ آرڈرہو۔) بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں- اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے۔ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ کے یہی معنی ہیں-
گویا میانہ روی اور پُرحکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی روح پیدا کیاکرتی ہیں- اور پُرحکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی۔ یہی وقت ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے‘‘۔(مشعل راہ جلد اول صفحہ۱۵)
پھر بعض اور بھی شکایات ہیں-بعض جگہ سے شکایت آ جاتی ہے کہ ہم نے اپنے حالات کی وجہ سے امداد کی درخواست کی جو مرکز سے مقامی جماعت میں تحقیق کے لئے آئی تو صدر جماعت بڑے غصے میں آئے اور کہا کہ تم نے براہ راست درخواست کیوں دی، ہمارے ذریعہ کیوں نہ بھجوائی۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہم نے تو ان سے معافی مانگ لی ،دوبارہ ان کے ذریعہ سے درخواست بھجوائی گئی اور ایک لمبا عرصہ گزر گیاہے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور پتہ بھی نہیں لگا۔جو ہماری ضرورت تھی وہ اسی طرح قائم ہے۔ایک تو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی، بے عزتی کر کے معافی منگوائی گئی، دوبارہ درخواست لکھوائی اور پھر کارروائی بھی نہیں کی۔اگر کسی عہدیدار نے یا صدر جماعت نے یہ سمجھ کر کہ یہ درخواست لکھنے والا یا درخواست دہندہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی امداد کی جائے، ایسے لوگوں کو پیار سے بھی سمجھایاجا سکتاہے۔ اور پھر اگر مدد نہیں کرنی تھی تو درخواست دوبارہ لکھوانے کی ضرورت ہی کیاتھی۔تویہ چیزیں ایسی ہیں کہ بلا وجہ عہدیدار کے لئے لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں- ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔امراء ہو ں ،صدران ہوں ،ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ وہ خلیفۂ وقت کے نمائندے کے طور پر جماعتوں میں متعین کئے گئے ہیں اور اس لحاظ سے انہیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔
ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن مُرّہ نے حضرت معاویہ سے کہا کہ مَیں نے آنحضرت ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں اور غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتاہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کردیتاہے۔ (ترمذی ابواب الاحکام باب فی امام الرعیۃ)
حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیاکہ لوگوں کی ضروریات اورمشکلات کا مداوا کیاکرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ تو جماعتی نظام جو ہے وہ اسی لئے مقررکیا گیا ہے۔
پھر حضرت معاذؓ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اگر کوئی براکام کربیٹھو تواس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو۔یہ نیکی بدی کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی ما معاشرۃ الناس)
اَ بُوبُرۡدَہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺؐ نے ابوموسیٰ ؓ اور معاذؓ بن جبل کو یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا۔ آپ ؐ نے ہر ایک کو ایک ایک حصہ کا والی مقرر کر کے بھیجا (یمن کے دو حصے تھے)۔ پھر فرمایا:آسانی پیدا کرنا‘ مشکلیں پیدا نہ کرنا۔ محبت و خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پنپنے دینا۔ (بخاری ‘ کتاب المغازی ‘ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الی الیمن)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میری اس کوٹھڑی میں فرمایا: یا اللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو پھر وہ ان پر سختی کرے تو توُبھی اس پر سختی کرنا اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے تو توُبھی اس سے نرمی فرمانا۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامام العادل ……)
اصل میں تو امراء، صدران، عہدیداران یا کارکنان جو بھی ہیں ان کا اصل کا م تو یہ ہے کہ اپنے اندر بھی اور لوگوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کیا جائے۔اوراسی طرح جماعت کے تمام افراد کا بھی یہی کام ہے کہ اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں میں بھی جماعت کا احترام پیدا کریں- نظام جماعت کا احترام پیدا کریں-
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاتھا کہ جو نصائح مَیں عہدیداران کے لئے کرتاہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف عہدیداران کے لئے ہیں بلکہ تمام افراد جماعت مخاطب ہوتے ہیں اور ان کو بھی یہ نصائح ہیں- ہو سکتاہے کہ کل کو ایک عہدیدار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے،یا بیمارہوجانے کی وجہ سے ، یا بڑھاپے کی وجہ سے،یا فوت ہو جانے کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص اس عہدے کے لئے مقر ر کر دیا جائے۔ پھر انتخابات بھی ہوتے ہیں ، عہدے بدلتے بھی رہتے ہیں-تو ہر ایک کو اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ جب بھی وہ عہدیدار بنیں گے وہ ایک خادم کے طورپر خدمت کرنے کے لئے بنیں گے۔ بعض دفعہ یہ ہوتاہے کہ عہدیدار بدلے بھی جاتے ہیں ،خلیفۂ وقت خود بھی اپنی مرضی سے بعض عہدوں کوتبدیل کر دیتے ہیں-تو بہرحال نئے آنے والے شامل ہوتے ہیں اور نئے آنے والوں کی بھی یہی سوچ ہونی چاہئے اور اگر بنیادی ٹریننگ ہوگی تو اس سوچ کے ساتھ جو عہدہ ملے گا تو ان کو کام کرنے کی سہولت بھی رہے گی۔
تو جیساکہ مَیں نے کہا ہر شخص کو اس ذمہ دار ی کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے نظام جماعت کا احترام کرناہے اوردوسروں میں بھی یہ احترام پیداکرناہے۔تو خلیفہ ٔوقت کی تسلی بھی ہوگی کہ ہر جگہ کام کرنے والے کارکنان، نظام کو سمجھنے والے کارکنان،کامل اطاعت کرنے والے کارکنان میسر آسکتے ہیں تو بہرحال جیساکہ مَیں نے کہاکہ اصل کام نظام جماعت کا احترا م قائم کرناہے اوراس کو صحیح خطوط پرچلانا ہے۔تو اس کے لئے عہدیداران کو،کارکنان کو دوطرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتاہے۔ایک تو وہ ہیں جو جماعت کے عام ممبر ہیں- جتنے زیادہ یہ مضبوط ہوں گے،جتنا زیادہ ہر شخص کا نظام سے تعلق ہوگا،جتنی زیادہ ان میں اطاعت ہوگی، جتنی زیادہ قربانی کا ان میں مادہ ہوگا،اتنا ہی زیادہ نظام جماعت مضبوط ہوگا۔ اور یہ چیزیں ان میں کس طرح پیداکی جائیں- اس سلسلہ میں عہدیداران کے فرائض کیا ہیں؟ اس کا مَیں اوپر تذکرہ کرچکاہوں- اگر وہ پیار محبت کا سلوک رکھیں گے تویہ باتیں لوگوں میں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ اور یہی آ پ کا گروہ ہے جتنا زیادہ اس کا تعلق جماعت سے اور عہدیدارن سے مضبوط ہوگا، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت بھی آرام سے اوربغیرکسی رکاوٹ کے چلے گا۔ اتنا زیادہ ہی ہم دنیا کو اپنا نمونہ دکھانے کے قابل ہو سکیں گے۔ اتنی ہی زیادہ ہمیں نظام جماعت کی پختگی نظر آئے گی۔ جتنا جتنا تعلق افراد جماعت اور عہدیداران میں ہوگا۔ اور پھر خلیفہ ٔوقت کی بھی تسلی ہوگی کہ جماعت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے جن سے بوقت ضرور ت مجھے کارکنان اور عہدیداران میسر آ سکتے ہیں- اگر کسی جگہ کچھ جماعتیں تو اعلیٰ معیار کی ہوں اور کچھ جماعتیں ابھی بہت پیچھے ہوں تو بہرحال یہ فکر کا مقام ہے۔توعہدیداران کو اپنے علاقہ میں ، اپنے ضلع میں یا اپنے ملک میں اس نہج پر جائزے لینے ہوں گے کہ کہیں کوئی کمی تونظر نہیں آ رہی۔ اپنے کام کے طریق کا جائزہ لیناہوگا۔ اپنی عاملہ کی مکمل Involvementکا یا مکمل ان کاموں میں شمولیت کا جائزہ لینا ہوگا۔کہیں آپ نے عہدے صر ف اس لئے تو نہیں رکھے ہوئے کہ عہدہ مل گیاہے اور معذر ت کرنا مناسب نہیں اس لئے عہدہ رکھی رکھو اور اس سے جس طرح بھی کام چلتاہے چلائے جاؤ۔ اس طرح توجماعتی نظام کو نقصان پہنچ رہاہوگا۔ اگر تو ایسی بات ہے تو یہ زیادہ معیوب بات ہے اور یہ زیادہ بڑا گناہ ہے بنسبت اس کے کہ عہدے سے معذرت کر دی جائے۔اس لئے ایسے عہدیدارتو اس طرح جماعت کے نظام کو، جماعت کے وقار کو نقصان پہنچانے والے عہدیدار ہیں-
دوسرے یہ ذمہ داری ہے عہدیداران کی عام لوگوں سے ہٹ کر،اپنے دوسرے برابر کے عہدیداروں یاماتحت عہدیداران یا کارکنان کااحترام ہے۔یہ کوئی دنیاوی عہدہ نہیں ہے جس طرح مَیں پہلے بھی کہہ آیاہوں کہ جو آپ کومل گیاہے اورکوئی سمجھ بیٹھے کہ اب سب طاقتوں کا مَیں مالک بن گیاہوں-یہاں بھی جیساکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے امیر اپنی عاملہ کا احترام کریں ، ان کی رائے کو وقعت دیں ، اس پر غور کریں- اسی طرح اگر کوئی ماتحت بھی رائے دیتاہے تو اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں ، کم نظر سے نہ دیکھیں-اگر آنحضرتﷺ کو حکم ہے کہ مشورہ کریں تو ہم،آپ تو بہت معمولی چیز ہیں- تو کسی کی رائے کو کبھی بھی تکبر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اپنا ایک وقار عہدیدار کا ہونا چاہئے اور یہ نہیں کہ غصے میں مغضوب الغضب ہو کر ایک تو رائے کو رد ّکر دیا اور مسجد میں یا میٹنگ میں توُتکار بھی شروع ہوجائے۔ یا گفتگو ایسے لہجہ میں کی جائے جس سے کسی دوسرے عہدیدار کا یا کسی دوسرے شخص کے بارہ میں جس سے استخفاف کا پہلو نکلتاہو،کم نظر سے دیکھنے کا پہلو نکلتاہو۔توہمارے عہدیداران اور کارکنان کوتو انتہائی وسعت حوصلہ کا مظاہر ہ کرنا چاہئے۔ کھلے دل سے تنقید بھی سننی چاہئے، برداشت بھی کرنی چاہئے۔اور پھر ادب کے د ائرے میں رہ کر ہر شخص کی عزت نفس ہوتی ہے اس کا خیال رکھ کر دلیل سے جواب دینا چاہئے۔ یہ نہیں کہ مَیں نے یہ کہہ دیاہے اس پر عمل نہیں ہو رہا تو تم یہ ہو،تم وہ ہو،یہ بڑاغلط طریق ہے۔عہدیدار کا مقام جماعت میں عہدیدار کا ہے خواہ وہ چھوٹاعہدیدار ہے یا بڑا عہدیدار ہے۔ پھر قطع نظر اس کے کہ کسی کی خدمت کو لمبا عرصہ گزر گیاہے یاکسی کی خدمت کو تھوڑا عرصہ گزراہے۔اگر کم عمر والے سے یاعہدے میں اپنے سے کم درجہ والے سے بھی ایسے رنگ میں کوئی گفتگو کرتاہے جس سے سُبکی کا پہلو نکلتاہو تو گو دوسرا شخص اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے، یعنی جس سے تلخ کلامی کی گئی ہے وہ اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے،اطاعت کے جذبہ سے برداشت بھی کر لے ایسی بات لیکن اگر ایسے عہدیدار کا معاملہ جو دوسرے عہدیداران یا کارکنان کا احترام نہیں کرتے میرے سامنے آیا تو قطع نظراس کے کہ کتنا Seniorہے اس کے خلاف بہرحال کارروائی ہوگی،تحقیق ہوگی۔ اس لئے آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور مشورے لینا اور مشوروں میں ان کو اہمیت دینا۔ اگراچھا مشورہ ہے تو ضرور ی نہیں کہ چونکہ مَیں بڑا ہوں اس لئے میرا مشورہ ہی اچھا ہوسکتاہے اور چھوٹے کا مشورہ اچھا نہیں ہو سکتا۔اس کو بہرحا ل وقعت کی نظر سے دیکھنا چاہئے،اس کوکوئی وزن دینا چاہئے۔
پھرہمارے ہاں قضا کاایک نظام ہے،مقامی سطح پر بھی اورمرکزی سطح پربھی،جماعتوں میں بھی۔ تو قضا کے معاملا ت بھی ایسے ہیں جن میں ہر قاضی کو خالی الذہن ہو کر،دعا کرکے،پھر معاملہ کو شروع کرنا چاہئے۔کبھی کسی بھی فریق کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ قاضی نے دوسرے فریق کی بات زیادہ توجہ سے سن لی ہے۔ یافیصلے میں میرے نکات کو پوری طرح زیرغورنہیں لایا اور دوسرے کی طرف زیادہ توجہ رہی ہے۔گو جس کے خلاف فیصلہ ہو عموماً اس کو شکوہ توہوتا ہی ہے لیکن قاضی کا اپنا معاملہ پوری طرح صاف ہونا چاہئے۔
حدیث میں آتاہے۔آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ جب کوئی حاکم سوچ سمجھ کر پوری تحقیق کے بعد فیصلہ کرے۔اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کو دوثواب ملیں گے۔ اور اگر باوجود کوشش کے اس سے غلط فیصلہ ہو گیاتو اسے ایک ثواب اپنی کوشش اور نیک نیتی کا بہرحال ملے گا۔ (بخاری کتاب الاعتصام باب اجرالحاکم اذا اجتہد فاصاب اوأخطأ)
پھر حضرت معاذ بن جبل کے کچھ ساتھی جو حمص کے رہنے والے تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے جب حضرت معاذ کو یمن کاقاضی مقرر کرکے بھیجا تومعاذ سے پوچھا کہ جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو تو کیسے فیصلہ کروگے؟ معاذ نے عرض کیا کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا یعنی قرآن شریف کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے پوچھا اگر کتاب اللہ میں وضاحت نہ ملی تو پھر کیاکروگے۔ معاذ نے عرض کی اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے فرمایا: نہ سنت میں کوئی ہدایت پاؤ نہ کتاب اللہ میں تو پھر کیا کروگے۔ تو معاذ نے عرض کی کہ اس صورت میں غور وفکرکر کے اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا اور اس میں کسی سستی اور غفلت سے کام نہیں لوں گا۔حضور نے یہ سن کر معاذ کے سینے پر شاباش دینے کے لئے ہاتھ مارکر فرمایا :الحمدللہ ! خداکا شکرہے کہ اس نے رسول کے قاصد کو یہ توفیق دی اور وہ صحیح طریق کار سمجھا جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔ (ابوداؤد۔کتاب الاقضیۃ۔ باب اجتہاد الراء فی القضاء)
تویہ ہے اصول فیصلہ کرنے کا کہ قرآن سے رہنمائی لی جائے، پھر سنت سے رہنمائی لی جائے،اگر خلفاء کے ارشادات ہیں اس بارہ میں ان سے رہنمائی لی جائے۔ پھراگر کہیں سے بھی اس مخصوص امرکے لئے رہنمائی نہ ملے تو دعا کرتے ہوئے، اللہ کے حضور جھکتے ہوئے،اس سے مدد مانگتے ہوئے کسی بات کا فیصلہ کیا جائے۔ جو بھی مقدمہ قاضیوں کے سامنے پیش ہو ان کا فیصلہ کیا جائے۔ اب تو تقریباً تمام معاملات میں اصولی قواعد مرتب ہیں ،قاضیوں کو مل بھی جاتے ہیں-فقہی مسائل یا مسئلے بھی چھپے ہوئے موجود ہیں تو ان کی روشنی میں تمام فیصلے ہونے چاہئیں- حضرت عمرکا ایک خط جو انہوں نے ابوموسیٰ اشعریؓ کو لکھاتھا۔ حضرت سعید بن ابوبردہ نے امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب کا ایک خط نکالا جو انہوں نے اپنے ایک والی حضرت ابوموسیٰ اشعری کو لکھاتھا۔ یہ روایت ہے۔اس کا مضمون یہ تھا۔
قضا ایک محکم اور پختہ دینی فریضہ ہے اور واجب الاتباع سنت ہے۔ جب کوئی مقدمہ یا کیس آپ کے سامنے پیش ہو تو معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ صرف حق بات کہنا اور اس کے نفاذ کی کوشش نہ کرنا بے فائدہ ہے۔کیا بلحاظ مجلس، کیا بلحاظ توجہ اور کیا بلحاظ عدل و انصاف، سب لوگوں کے درمیان مساوات قائم رکھو۔ سب سے ایک جیساسلوک کرو تا کہ کوئی بااثر تم سے ظلم کروانے کی امید نہ رکھے اورکسی کمزور کو تیرے ظلم و جور کا ڈراوراندیشہ نہ ہو۔اور ثبوت پیش کرنا مدعی کا فرض ہے۔ اور قسم منکر مدعا علیہ پرآئے گی۔مسلمانوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کرنااچھی بات ہے۔ہاں ایسی صلح کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جس کی وجہ سے حرام حلال بن رہاہو اور حلال حرام یعنی خلاف شریعت صلح جائز نہ ہوگی۔ اگر تم کوئی فیصلہ کرو اورپھرغور وفکرکے بعد اللہ کی ہدایت سے دیکھو کہ فیصلے میں غلطی ہو گئی ہے۔صحیح فیصلہ اور طرح ہے تو اپنا کل کا فیصلہ واپس لینے اور اسے منسوخ کرنے میں ذرہ برابرہچکچاہٹ یاشرم محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ حق اور عدل ایک عظیم صداقت ہے اور حق اور سچ کو کوئی چیز باطل اور غلط نہیں بنا سکتی ہے۔ اس لئے حق کی طرف لوٹ جانا اورحق کو تسلیم کر لینا باطل میں پھنسے رہنے اورغلط بات پرمصر رہنے سے کہیں بہتر ہے۔جو بات تیرے دل میں کھٹکے اور قرآن وسنت میں اس کے بارہ میں کوئی وضاحت نہ ہو تو اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو اوراس کی مثالیں تلاش کرو۔ اس سے ملتی جلتی صورتوں پر غورکرو پھراس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کرو۔ اور جو پہلو اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ لگے اور حق اور سچ کے زیادہ مشابہ نظر آئے اسے اختیار کرو۔ مدعی کو ثبوت پیش کرنے کے لئے مناسب تاریخ اور وقت دو تاکہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت اکٹھے کرسکے۔اگر مقررہ تاریخ پر وہ ثبوت اور بیّنہ پیش کرسکے فبہا ورنہ اس کے خلاف فیصلہ سنادو۔ یہ طریق اندھے پن کو دور کرنے والاہے۔اور بے خبری کے اندھیرے کوروشن کر نے والا۔یعنی اس سے الجھا ہوامعاملہ سلجھ جائے گا اور ہر قسم کے عذر واعتراض کا موثر جوا ب ہوگا۔سب مسلمان برابر شاہد عادل ہیں-ایک دوسرے کے حق میں اور ایک دوسرے کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں-اور ان گواہیوں کے مطابق فیصلہ ہوگا سوائے اس کے کہ کسی کو حد کی سزا مل چکی ہو یا اس کی جھوٹی شہادت دینے کا تجربہ ہو چکا ہو۔یا قرابت کے دعویٰ میں اس پر کوئی تہمت لگی ہو۔ یا اس کا اصل رشتہ کسی اور شخص یا قوم سے ہو اور دعویٰ کسی اور کے رشتے دار ہونے کا کرے یعنی حسب ونسب کے دعویٰ میں جھوٹا ہو۔ایسے خفیف الحرکت شخص کے سچاہونے پراعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ باقی سب مسلمان گواہ بننے کے اہل ہونے کے لحاظ سے برابرہیں کیونکہ کسی کے دل میں کیا ہے؟اصل راز اور سچائی کیا ہے؟اسے اللہ نے اپنے ذمہ لے لیاہے۔ اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو خدااس کو سزادے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیّنات اورگواہیوں کے ذریعہ معاملات نبٹانے کامکلف بنایا ہے۔ یہ بھی یاد رکھو کہ تنگ پڑنے سے بچو۔ جلد گھبراجانے اورلوگوں سے تکلیف اور دکھ محسوس کرنے اور فریقین مقدمہ سے تنفر اور اجنبی پن سے کبھی پیش نہ آؤ۔ حق اور سچ معلوم کرنے کے مواقع میں اس طرزعمل سے بچنا اورحق شناسی کی صحیح کوشش کرنا۔اللہ اس کا ضرور اجر دے گا اورایسے شخص کونیک شہرت بخشے گا۔ جو شخص اللہ کی خاطر خلوص نیت اختیا ر کرے گا اللہ اسے لوگوں کے شرسے بچائے گا اورجو شخص محض بناوٹ اور تصنع سے اپنے آپ کواچھا ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس کار از فاش کردے گا اوراس کی ر سوائی کے سامان پیدا کر دے گا‘‘۔ (سنن دارقطنی۔کتاب الاقضیہ والاحکام)
اس کے علاوہ عہدیداران کے متعلق بعض عمومی باتیں بھی ہیں جن کا مَیں ذکر کر دیتاہوں- اللہ کے فضل سے جماعت میں عموماً عہدے کی خواہش کا اظہارکوئی نہیں کرتا اور جب عہدہ مل جاتاہے توخوف پیدا ہوتاہے کہ مَیں ادا بھی کر سکتاہوں یا نہیں- لیکن بعض سرپھرے بھی ہوتے ہیں-خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں صحیح کام نہیں ہورہا۔لکھنے والا لکھتاہے گومَیں جانتاہوں کہ عہدے کی خواہش کرنا مناسب نہیں لیکن پھربھی مَیں سمجھتاہوں کہ اگرمیرے سپرد امارت یا فلاں عہدہ کردیاجائے تو مَیں چھ مہینے یا سال میں اصلاح کرسکتاہوں- تبدیلیاں پیدا کردوں گا۔توبعض تو ایسے سرپھرے ہوتے ہیں جو کھل کر لکھ دیتے ہیں- اور بعض بڑی ہوشیاری سے یہی مدعا بیان کررہے ہوتے ہیں-تو ان پر مَیں یہ واضح کردوں کہ ہمارے نظام میں ،جماعت احمدیہ کے نظام میں اگر کسی انتخاب کے وقت کسی کا نام پیش ہو جائے تو وہ اپنے آپ کوووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ اپنے آپ کو ووٹ دینا بھی اس بات کااظہار ہے کہ مَیں اس عہدے کا حقدار ہوں- ایسے لوگوں کو یہ حدیث پیش نظررکھنی چاہئے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے دو چچازاد بھائی تھے ان میں سے ایک بولا: یارسول اللہ! ہم کو ان ملکوں میں سے کسی ملک کا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیئے ہیں امیر مقرر کر دیجئے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہاتو آپ نے فرمایا۔ ’’ اللہ کی قسم ہم ولایت کی خدمت اس کے سپرد نہیں کرتے جو اس کی درخواست کرے یا اس کی حرص کرے۔‘‘ (مسلم کتاب الامارۃ۔ باب النھی عن طلب الامارۃ و الحرص علیھا)
پھرعبدالرحمن بن سَمُرَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
اے عبدالرحمن! عہدہ اور حکومت کی درخواست مت کر کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو (عہدہ یا حکومت) ملے تو اس کا بوجھ تجھ پر ہو گا اور اگر بغیر سوال کے ملے تو خدا تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہو گی۔(مسلم ‘ کتاب الامارۃ ‘ باب النھی عن طلب الامارۃ و الحرص علیھا)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ فرماتے ہیں :
بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں- ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کے لئے۔ وہ وہی ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلٰوتِھِمْ سَاھُوْنَ ـ الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآؤن (الماعون:۵تا۷ )

ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے۔ کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا…۔(مشعل راہ جلد اول صفحہ۲۰۔۲۱)
پھر حضرت مصلح موعودؓنے کارکنان کو ہدایات دیتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ۔
’’کارکنان کو چاہئے کہ تندہی سے کام کریں- یہ خواہش کہ ہمارا نام و نمود ہو ایسا خیال ہے جو خراب کرتا ہے۔ اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں ،ہوتے ہیں ہوتے رہیں گے۔ تم اللہ سے ڈرو اور اسی سے خوف کرو اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب ہو …… اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں للہیت پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور مجھ پر بھی رحم کرے۔ آمین (خطبات محمود جلد ۷خطبہ فرمودہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۳۳)
پھر آپ نے فرمایاکہ:
’’ افسرانِ سلسلہ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خصوصیت سے اپنے اخلاق درست کریں اگر ضدی لوگ آجائیں تو ان کو بھی محبت اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کیا کریں اور پوری محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی عادت ڈالیں- اس امر کی طرف خدا تعالیٰ نے

وَ النّٰزِعٰتِ غَرۡقًا وَّ النّٰشِطٰتِ نَشۡطًا (النازعات:۲۔۳)۔

میں اشارہ کیا اور بتایا ہے کہ مومن جب کام میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ہمہ تن اس میں مستغرق ہوتا اور مشکلات پر قابو پالیتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر مخالفین کی طرف سے اعتراض بھی ہو تو دعاؤں سے اس کا ازالہ کرنا چاہئے اور اعتراضات سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے۔‘‘(خطبات محمود جلد۱۵ صفحہ۲۵۷تا ۲۶۵)
پھر آپ نے عہدیداران کو فرمایاکہ :
’’ امراء اور پریذیڈنٹ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کا درس دیں- یہ محض وعظ نہیں ہو گا کیونکہ یہ اپنے اندر مشاہدہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم وعظ نہیں بلکہ وہ مشاہدات پر حاوی ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب مشاہدات پر مبنی اور مشاہدات پر حاوی ہیں- ایک عام واعظ تو یہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں یہ لکھا ہے مگر خدا تعالیٰ کے انبیاء یہ نہیں کہتے کہ فلاں جگہ یہ لکھا ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پر یہ لکھا ہے۔ہماری زبان پر یہ لکھا ہے۔ ان کا وعظ ان کی سوانح عمری ہوتا ہے اس لئے ان کی کتب پڑھنے سے واعظ والا اثر انسان پر نہیں پڑتا بلکہ مشاہدہ والا اثر پڑتا ہے۔ جس طرح دعا نماز کا مغز ہے اسی طرح انبیاء کی کتب میں نصیحت کا مغز ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام میں پایا جاتا ہے۔‘‘ (خطبات محمودجلد ۱۱ صفحہ۲۸۳۔۲۸۴)
تویہ درس کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے۔ یہ بھی تربیت کا حصہ ہے اپنی بھی اور جماعت کی بھی۔
پھرآخرمیں خلاصۃً دوبارہ بیان کر دیتاہوں کہ جو باتیں مَیں نے کہی ہیں عہدیداران کے لئے اور یہ خلفائے سلسلہ کہتے چلے آئے ہیں پہلے بھی لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد بعض باتیں یادنہیں رہتیں- جونئے آنے والے عہدیداران ہوتے ہیں جو نہیں سمجھ رہے ہوتے صحیح طرح اس لئے باربار یاددہانی کروانی پڑتی ہے۔ توخلاصۃ ً یہ باتیں ہیں :
(۱)…عہدیداران پر خود بھی لازم ہے کہ ا طاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور اپنے سے بالا افسریاعہدیدار کی مکمل اطاعت اور عزت کریں- اگر یہ کریں گے توآپ کے نیچے جو لوگ ہیں ،افراد جماعت ہو ں یا کارکنان،آپ کی مکمل اطاعت اورعزت کریں گے۔
(۲)…یہ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آنا ہے۔ان کے دل جیتنے ہیں ، ان کی خوشی غمی میں ان کے کام آناہے۔اگر آ پ یہ فطری تقاضے پورے نہیں کرتے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے عہدیدار کے دل میں تکبر پایا جاتاہے۔
(۳)… امراء اورعہدیداران یا مرکزی کارکنان یہ دعا کریں کہ ان کے ماتحت یا جن کا ان کو نگران بنایا گیاہے، شریف النفس ہوں ، جماعت کی اطاعت کی روح ان میں ہو اورنظام جماعت کا ا حترام ان میں ہو۔
(۴)…کبھی کسی فرد جماعت سے کسی معاملہ میں امتیازی سلوک نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں-مجھے علم ہے کہ امراء کے، عہدیداران کے،یا نظام جماعت کے ناک میں دم کیا ہوتاہے ایسے لوگوں نے لیکن پھربھی ان کی بدتمیزیوں کو جس حد تک برداشت کرسکتے ہیں کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پرکسی قسم کا شکوہ نہ کریں ، بدلہ لینے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ آئے۔ان کے لئے دعا کریں ،اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں-
(۵)…پھریہ کہ نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رہناچاہئے اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہناچاہئے۔پھر کبھی اپنے گرد ’جی حضوری‘ کرنے والے یاخوشامد کرنے والے لوگوں کواکٹھا نہ ہونے دیں- جن عہدیداروں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جاتاہے پھرایسے عہدیداران سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایسے عہدیدار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں- تبھی تو آنحضرتﷺنے اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بُرے مشیر میرے اردگرد اکٹھے نہ کرے۔
(۶)…پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے جیساکہ مَیں بیان بھی کر چکاہوں کہ جہاں نظام جماعت کے تقدس پر حرف نہ آتاہو، عفو اور احسان کا سلوک کریں- ان کے لئے مغفرت مانگیں جو ان کی اصلاح کا موجب بنے۔یہ تو عہدیدارن کے لئے ہے لیکن آخر میں مَیں پھر احباب جماعت کے لئے ایک فقرہ کہہ دیتاہوں کہ آ پ پر بھی،جو عہدیدار نہیں ہیں ،ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہے اورساتھ دعا کرناہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ واریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں مَیں ایک دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتاہوں- بنگلہ دیش کے حالات کافی Tense ہیں ، بڑے عرصہ سے، بڑے خراب ہیں اور آج بھی مخالفین نے بڑی دھمکیاں دی ہوئی ہیں مسجدوں پہ حملے کرنے کی۔اللہ تعالیٰ ہرطرح سے محفوظ رکھے، جماعت کو ہر شر سے بچائے۔اور درس کے دوران بھی مَیں نے دعا کی ایک تحریک کی تھی اب دوبارہ کرتاہوں- یہ دعا خاص طورپہ اور دعاؤں کے ساتھ یہ بھی ضرور کیا کریں اور جیساکہ مَیں نے کہا تھا ہر نئی خلافت کے بعد اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اور وہ دعا یہ ہے۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو خواب کے ذریعہ سے اللہ نے سکھائی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواب میں آئے تھے اور کہا تھا کہ یہ دعا جماعت پڑھے۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔

(آل عمران :۹۔ اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ یہ دعا بہت کیاکریں اللہ تعالیٰ ہمیں ہرشر سے محفوظ رکھے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں