خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 3؍اکتوبر2003ء

مسجد کی اصل زینت عمارتوں سے نہیں بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص سے نماز پڑھتے ہیں-
اللہ تعالیٰ ہر ا حمدی کو توفیق دے کہ ہر مسجد کی بنیاد تقویٰ اللہ پر ہو اور یہ نمازیوں سے کم پڑ جائیں-
(مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد’’ مسجد بیت الفتوح‘‘ کے افتتاح کے موقع پر
آدا ب مساجد اور ان کی آبادی کے موضوع پر پرمعارف خطبہ)
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۳؍اکتوبر ۲۰۰۳ء بمطابق۳؍ اخاء ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام ’’مسجد بیت الفتوح‘‘ مورڈن۔ لندن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ۔ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ فَرِیْقًا ھَدٰی وَفَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ۔ اِنَّھُمُ اتَّخَذُوْا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْن َ۔ یٰبَنِیٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (سورۃ الاعراف آیات ۳۰ تا ۳۲)۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج انشاء اللہ تعالیٰ، بلکہ اس وقت جمعہ کے خطبہ کے ساتھ، اس مسجد کا جس کا نام حضرت خلیفۃالمسیح الرابع
رحمہ اللہ تعالیٰ نے بیت الفتوح رکھا تھا، افتتاح کیا جا رہاہے،الحمدللہ۔ اس کی مختصر تھوڑی سی تاریخ مَیں بتا دیتاہوں-
۱۹۹۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی تھی اور ابتداء میں جماعت احمدیہ عالمگیر کو یہ تحریک کی تھی کہ اس مسجد کے لئے پانچ ملین پاؤنڈز اکٹھے کئے جائیں-اور پھر ۱۹۹۶ء میں تقریباً سوا دو ملین پاؤنڈ ز یا ۲.۲۳ ملین پاؤنڈز کی رقم سے پانچ ایکڑ کا رقبہ یہاں خریدا گیا۔ اور اکتوبر ۱۹۹۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا جس میں بیت الفکر،قادیان کی اینٹ استعمال کی گئی۔ اس وقت قدرتی طورپر جذباتی لحاظ سے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد بھی آ رہی ہے کہ جس منصوبہ کوانہوں نے شروع کیا تھا اس کا افتتاح بھی اپنے ہاتھوں سے فرماتے۔ لیکن بہرحال جو الٰہی تقدیر ہے اس پر ہمیں راضی رہنا چاہئے اوراسی پر ہم راضی ہیں- لیکن ساتھ ہی حضور کے لئے دعا نکلتی ہے اور دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔
پھر فروری ۲۰۰۱ء میں حضور ؒ نے اس میں تھوڑی سی انتظامی تبدیلیاں کیں اورپانچ ملین پاؤنڈ کی مزید تحریک فرمائی اس مسجد کو مکمل کرنے کے لئے اور انتظامی لحاظ سے اس کی نگرانی مکرم رفیق حیات صاحب، امیر جماعت UK کے سپرد کی اورایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کے کوآرڈینیٹرمکرم ناصر خان صاحب تھے۔انہوں نے ماشاء اللہ بڑی محنت سے، ان تھک محنت سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، جو منصوبہ شروع کیا گیا تھا اس کو اختتام تک پہنچایا۔ اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے دوست بھی تھے جنہوں نے دن رات محنت کی اورقابل ذکر اس میں سے انجم عثمان صاحب ہیں اوراس کے علاوہ ساری ٹیم ہے ہر ایک کا فرداً فرداً نام لینا مشکل ہے۔اس لئے تمام وہ احباب جنہوں نے دن رات ایک کرکے مسجد کی تکمیل میں حصہ لیا ان سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں- ان خدام کو،Volunteersکو بھی جنہوں نے وقار عمل کیا۔ ان سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں-
پھر انگلستان کی جماعت کے علاوہ دنیا بھر کے مخلصین مردو ں نے، عورتوں نے دل کھول کر اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانیاں پیش کیں- بچوں نے اپنے جیب خرچ، عورتوں نے اپنے زیورات پیش کر کے اپنی روایات کو زندہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرعظیم عطا فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مالی قربانیوں کے علاوہ مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ اس میں قادیان کے اور جرمنی کے خدام کو نمایاں خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ا للہ تعالیٰ ان سب کو خدمت کرنے والوں کو جنہوں نے مالی قربانی کی یا وقت کی قربانی کی اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برساتے ہوئے ہمیشہ نوازتارہے۔
اب اس مسجد کے نقشے کے بارہ میں کچھ عرض کردوں-اس کا مسقف حصہ یعنی Covered Areaتقریباً ۳۵۰۰ مربع میٹر ہے- (تین ہزار پانچ سو مربع میٹر) جس میں اندازاً چارہزار کے قریب نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں- اور مسجد کے اس کامپلیکس کے ساتھ ملحقہ بڑے بڑے ہال بھی ہیں ، ان کو بھی شمار کرلیاجائے تو تقریباً دس ہزار آدمی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں- اس مسجد میں جو کارپٹ بچھایا گیاہے۔اس میں بھی امریکہ کے ایک دوست منور احمد صاحب نے بڑی محنت سے وہاں سے کارپٹ مہیاکیا اور خود آ کے اپنی ٹیم کے ساتھ اس کو بچھایا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزاء دے۔ ا اللہ کرے جماعت کو ہی موقع ملے کہ اس سے بھی بڑی مسجدیں بنائے لیکن اس وقت تک یہ یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ بلکہ اکیسویں صدی کی جدید سہولیات سے بھی آراستہ ہے جسے اسلامی روایات کے تابع اسلامی فن تعمیر کا خاص خیال رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیاہے۔اللہ کرے کہ یہ مسجد ہمیشہ یورپ میں ا سلا م کی صلح، امن اور آشتی کی خوبصورت تعلیم کا حسین نمونہ پیش کرتی رہے اور نیک فطرت لوگ،ایسے لوگ یہاں آئیں جن کے دل میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور تقویٰ ہواور اگلی نسلوں میں بھی تقویٰ پیدا کرنے والے ہوں اور ان کو خدا سے ملانے والے ہوں-اور آپ اس ثواب سے بھی حصہ لیں اور اس کے وارث ٹھہریں جس کا ذکر حدیث میں یوں آتاہے کہ محمود بن لبیب روایت کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں ) مسجد نبوی کی تعمیرنو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔

’’مَنۡ بَنٰی مَسۡجِدًا لِلّٰہِ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیۡتًا فِیۡ الْجَنَّۃِ مِثۡلَہٗ ‘‘

کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا۔(مسلم، کتاب المساجد، باب فضل بناء المساجد والحث علیھا)
اللہ تعالیٰ ان سب کو اس ثواب کا وارث ٹھہرائے لیکن یہ یاد رکھیں کہ صرف مسجد بناکر کا م ختم نہیں ہوگیا بلکہ یہ بات ہر احمدی کو ہروقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس زمانے کے امام کو پہچا ن کر، اس کی بیعت میں شامل ہو کر،ہم ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم ماننے اور اسے پورا کرنے کی وجہ سے پہلوں سے ملانے کی خوشخبری دی ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھیں کہ یہ خوشخبری ہمیں مل گئی ہے، آنے والے مسیح کوہم نے مان لیااورکام ختم اس لئے ہم ان تمام انعامات کے وارث ٹھہر جائیں گے۔نہیں-بلکہ ہمیں مستقل کوشش کے ساتھ، جدوجہد کرتے ہوئے ان مسجدوں کو آباد بھی کرنا ہوگا اور یہاں سے پیار ومحبت، رواداری اور بھائی چارے کے پیغام بھی دنیا کو دینے ہوں گے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور اپنی نسلوں کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انصاف کاحکم دیاہے کہ جو شخص انصاف پر قائم ہوگا، حقوق العباد قائم کرنے والاہوگا،جس کا ماحول اس سے کسی قسم کی تکلیف اٹھانے والا نہیں بلکہ اس سے فیض پانے والاہوگا۔اپنے گھرمیں ، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ، پیار اورمحبت کا سلوک کرنے والا ہوگا، نیکی کی تلقین کرنے والا اوربدی سے روکنے والا ہوگا،اور کسی کی دشمنی بھی اسے عدل سے پَرے ہٹانے والی نہیں ہوگی تو ایسا شخص جو انصاف اور حقوق العباد کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہے جب اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے گا، دین کو خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو پکارے گا، مسجد میں داخل ہوتے ہی اس کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پگھل رہا ہوگا،عبادت کا شوق ہوگا، ایک نماز کے لئے مسجد میں جانے کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں ہوگا توایسے حقوق اللہ ادا کرنے والے سے یقینا حقوق العباد بھی ادا ہوں گے۔ تو ایسے لوگوں کو حقوق اللہ یہ توجہ دلا رہے ہوں گے کہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کرو۔ اور حقوق العباد کوادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی طرف توجہ ہو رہی ہوتی ہے۔اور جب اس میں خالص ہوجاؤ گے تو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نومولود بچے کی طرح معصوم حالت میں پہنچو گے۔ جس کی ایک یہ بھی تشریح کی جاتی ہے کہ جس طرح ماں کے پیٹ میں بچہ مختلف حالتوں سے گزر تا ہوا ایک صحتمندبچے کی شکل میں پیداہوتاہے۔ اگر کسی حالت میں بھی صحیح Development نہ ہو توضائع ہونے کا خطرہ ہوتاہے اور بعض دفعہ ڈاکٹر خود ہی ضائع کر دیتے ہیں- تو اسی طرح مرنے کے بعد روح بھی مختلف مدارج سے گزرے گی اس لئے خبردار رہوکہ مرنے کے بعد تمہاری روح، اللہ کے حضور ایسی حالت میں حاضر نہ ہوکہ شکل بالکل بگڑی ہوئی ہو۔ اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل اور اس کا رحم مانگتے رہو اور خالصتاً اسی کے ہوجاؤ۔
اس آیت میں ایک تو یہ حکم ہے کہ مسلمانو!،رسول خداﷺپر ایمان لانے والو! تم نے اگر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو لازماً تمہیں اللہ کے لئے دین کو خالص کرنا ہوگا ورنہ تم ضلالت کے گڑھے میں جا گرو گے۔دوسرے اس میں یہ پیشگوئی بھی تھی کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد مسلمان اگر اسلام کی حقیقی تعلیم کو بھلا بیٹھے تو ان کا اسلام صرف نام کا اسلام رہ جائے گا اور سوائے تھوڑی تعداد کے مسلمانوں کی اکثریت اس تعلیم کو بھلا دے گی اور آنحضرت ﷺنے یہ پیشگوئی بھی فرما دی تھی کہ میرے بعد،کچھ عرصہ بعد ہی،اسلام پرایک اندھیرے اور ظلمت کا وقت آ جائے گا۔بالکل اندھیرا زمانہ ہوگا جیسے کہ ایک دوسری آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے بھی پہلی قوموں کی طرح راہ ہدایت کو بھلا دیا اور خدا کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنا لیا۔ اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہمارے سے زیادہ اسلام پرعمل کرنے والا کوئی نہیں-اور اس تکبر میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام کو پہچاننے سے نہ صرف انکارکررہے ہیں بلکہ آنے والے امام کا پہلی قوموں کی طرح استہزاء بھی کر رہے ہیں ، اس کا تمسخرانہ انداز میں ذکرکرتے ہیں یا گندہ دہنی کی انتہاء تک پہنچے ہوئے ہیں تو ایسے لوگوں پر، ایسے گروہ پر، گمراہی لازم ہو چکی ہے۔ وہ ضلالت کے گڑھے میں جا پڑے ہیں-
حدیث میں آتاہے حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔(مشکٰوۃ، کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ ۳۸ ـ کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۴۳)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آ گیاہے۔و ہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کو حاصل نہیں اور دینی طور پربھی وہ بات جو مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا۔ اندرونی طورپر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہوگئی ہے اور بیرونی حملہ آورچاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کردیں- ان کے نزدیک مسلمان کتّوں اور خنزیروں سے بھی بدترہیں- ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کردیں اور مسلمانوں کو ہلاک کردیں- اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں- اور اسی غرض کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلے کو قائم کیا ہے۔
پھر فرمایا :اس وقت اسلام جس چیزکا نام ہے اس میں فرق آگیاہے۔تمام اخلاق ضمیمہ بھر گئے ہیں اور وہ اخلاص جس کا ذکر

مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ

میں ہوا ہے،آسمان پر اٹھ گیاہے۔ خدا کے ساتھ وفاداری،اخلاص، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں- اب خداتعالیٰ نے ارادہ کیاہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے۔
اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان نئے زندہ کرنے والوں میں آپ کا بھی شمار ہے۔اس لئے مسجدوں کی آبادی کرناآپ کابہت زیادہ فرض ہوچکاہے۔
فرمایا : اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریاکاری، عُجب،خودبینی، تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفات رذیلہ تو ترقی کر گئے ہیں اور

مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ

وغیرہ جو صفات حسنہ تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے۔ توکل تدبیر وغیرہ سب کالعدم ہیں- اب خدا کا ا رادہ ہے کہ ان کی تخمریزی ہو۔
پھر اسی آیت میں ایک تیسری بات ہمیں تنبیہ بھی ہے۔جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ اب خدا کا ا رادہ ہے کہ نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ اس نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارادے میں شامل ہوئے اور اس امام کو مانا۔لیکن اگر ہمارے عمل وہ نہ رہے جو خدا اوراس کا رسول ہم سے توقع کرتے ہیں تو پھر خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ کوئی اور قوم آجائے گی، اور لوگ آجائیں گے۔مقصد تو انشاء اللہ پورا ہوگا لیکن ہم کہیں پیچھے نہ رہ جائیں-
اس میں یہ تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ رکھی ، دین کو اس کے لئے خالص نہ کیا تو یہ نہ ہوکہ شیطان تم پر غلبہ پالے اس لئے ہمیشہ استغفار کرتے ہوئے، اس کے حضور جھکتے ہوئے اس سے اس کا فضل طلب کرتے رہواور اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود
علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اعمال کے لئے اخلاص شرط ہے۔جیساکہ فرمایا

مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ-

یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتاہے جو ابدال ہوتے ہیں-یہ لوگ ابدال ہو جاتے ہیں اور یہ اس دنیا کے نہیں رہتے۔ ان کے ہرکام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے۔فرمایا یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتاہے۔
پس خدا تعالیٰ کا ہونے کے لئے اور خدا کو اپنا بنانے کے لئے خداتعالیٰ نے انسان کی پیدائش کاجو مقصد بیان فرمایاہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے، اس کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ اوران ابدال میں شامل ہو جو اس کا حکم سامنے رکھتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے جس طرح فرمایاہے کہ

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن

کہ مَیں نے جنّ اورانسان کو اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں-اور پھر اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے رہیں-اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
اللہ تعالیٰ فرماتاہے مَیں نے پرستش کے لئے ہی جنّ و انس کو پیدا کیاہے۔ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑے ہونا بجزمحبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اورمخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں- تا کہ بجلی کی آگ کی طر ح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اورجو اس وقت انسان کے اندر سے نکلتی ہے وہ شریعت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کرلیں-
پھرآپ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَیں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں-پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خداتعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاناہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتاہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا ہے اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے۔ اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھاہے خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خداتعالیٰ کی پرستش، خداتعالیٰ کی معرفت اور خداتعالیٰ کے لئے فانی ہو جاناہی ہے۔
پھر آ پ نے فرمایا :
’’ کیونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہواہے جیساکہ فرمایا

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھاہواہے اورمخفی در مخفی اسباب سے اس کو اپنے لئے بنایاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اورفطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور ہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں-اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے وہ یہ ہے کہ

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن

پر ایمان لاکر زندگی کا پہلو بدل لے۔ موت کا اعتبار نہیں-تم اس با ت کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عباد ت کرو اور تم اس کے لئے بن جاؤ۔دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے باربار اس امر کو بیان کر تاہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیاہے۔ اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہواہے۔مَیں یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشا نہیں-اسلام تو انسان کو چُست، ہوشیار اور مُستعد بنانا چاہتاتھا۔ اس لئے مَیں تو کہتاہوں کہ تم اپنے کاروبارکو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیاہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتاہے۔نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا۔
(الحکم جلد ۵نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۲)
پھر مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایاہے کہ جہاں اُس کا قرب پانے کے لئے انفرادی طورپرنوافل اور ذکر الٰہی کا طریق بتایا ، وہاں مساجد کا قیام کرکے اجتماعی عبادت کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ معاشرہ میں اونچ نیچ کا جو تصورہے وہ بھی ختم ہو اور ایک محبت اور بھائی چارے کا معاشرہ قائم ہو۔
عباد ت کے علاوہ قوم کے تربیتی اور دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ دی جائے تاکہ ایک انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو سکے اور یہ ترغیب دلانے کے لئے کہ تم مسجد وں میں آؤ، ان کو آباد کرو، امیر غریب سب اکٹھے ہو کر میری عباد ت کریں- فرمایا کہ جب اس طرح تم پانچ وقت میری عباد ت کے لئے اکٹھے ہوگے تو اس کا ثواب بھی کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اس لئے ہم اس زمانے کے امام کو ماننے والے اوراس کی تعلیم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں-ہمارا یہ فرض بنتاہے کہ صرف مسجد بنانے پر ہی خوش نہ ہوجائیں بلکہ مسجد وں کو آباد بھی کریں ورنہ ہمارے اور غیروں میں کیا فرق رہ جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ایساجھکنے والے ہوں کہ کوئی انگلی کسی احمدی کی طرف یہ ا شارہ کرتے ہوئے نہ اٹھے کہ مسجدیں تو بڑی خوبصورت بناتے ہیں لیکن نماز یہ کم پڑھتے ہیں- بلکہ کہنے والے یہ کہیں کہ اگر حقیقی عابد دیکھناہے، ایسے عبادالرحمن دیکھنے ہیں جن کے قریب شیطان نہیں پھٹکتا اور اس کے لئے دین خالص رکھنے والے ہیں تو یہ تمہیں ہر احمدی بچے، بوڑھے، مرد اور عورت میں نظر آئیں گے۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والاہو۔ کیونکہ عبادت کا اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاکید سے حکم فرمایاہے کہ نماز کا جہاں بھی وقت ہو تم یہ نہ دیکھو کہ اس وقت وضو کے لئے پانی ہے یانہیں ، کپڑے صاف ستھرے ہیں یا نہیں ، کوئی ایسی جگہ ہے یا نہیں جہاں تم نماز پڑھ سکو۔ بلکہ جب بھی نماز کا وقت آئے، نماز پڑھو۔ بلکہ حدیث میں آتاہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا :میرے لئے تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے- پس میری امت کے جس فرد کو جس جگہ بھی نماز کاوقت ہو جائے وہ وہیں نماز پڑھے۔تو یہ ہے تعلیم جس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ:تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ مسجد وں میں تقویٰ کی زینت کے ساتھ جایا کرو۔مسجد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے۔ان میں انہی نیک مقاصد کی ادائیگی ہونی چاہئے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیاہے اور اس کے ساتھ ظاہری صفائی کا خیال رکھنے کا بھی حکم ہے، صاف ستھرالباس ہو، گندی بدبو نہ آتی ہو، روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاہے کہ لہسن پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آیاکرو تاکہ ساتھ کھڑے ہوئے مومن جو پوری توجہ سے نماز پڑھنا چاہتے ہیں ان کی نماز میں خلل نہ ہو، ان کی توجہ نہ بٹے۔ بلکہ آپ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ یہ کھاکر مسجد کے قریب بھی نہ آؤ کیونکہ فرشتوں کو بھی اس چیزسے تکلیف ہوتی ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے کچا لہسن یا پیاز کھا کرمسجد میں نہیں آنا چاہئے۔
پھر زینت ظاہری کے بارہ میں اور نماز میں توجہ رکھنے کی وجہ سے وضو کا بھی حکم ہے۔ اس سے ایک تو صفائی پیدا ہوتی ہے دوسرے ذرا آدمی Active ہو جاتاہے وضو کرنے سے اور توجہ سے نماز پڑھتاہے۔ اور خاص طورپر جمعہ کے دن تو نہا کرآنے کو پسند کیا گیاہے۔توبہرحال مقصد یہ ہے کہ ظاہری طورپر بھی صفائی کا خیال رکھو تو روح کی بھی صفائی کی طرف توجہ ہوگی، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ بھی دل میں پیدا ہوگا۔ اس ضمن میں چند احادیث پیش کرتاہوں- پہلی بات تو یہ ہے کہ مسجدوں میں ذاتی یا دنیاداری کی باتیں کرنا بالکل منع ہے اور صرف ذکر الٰہی کے لئے یہ مسجدیں بنائی گئی ہیں اور اس طرف توجہ ہمیں دینی چاہئے۔
حضرت عمر و بن شعیب ؓ اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے مسجد میں مشاعرہ کے رنگ میں اشعار پڑھنے سے منع فرمایاہے۔ اور(اس بات سے بھی منع فرمایاہے کہ)اس میں بیٹھ کر خریدو فروخت کی جائے اور مسجد میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں کریں-(ترمذی کتاب الصلوٰۃ )
پھر ایک حدیث ہے۔حضرت واثلہ بن اسقح ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ اپنی مساجد سے دور رکھو اپنے چھوٹے بچوں کو اور اپنے مجانین( دیوانوں ) کو اور اپنے شراء (خرید) اور اپنی بیع(فروخت) کو۔اور اپنے جھگڑوں کو اور ا پنی آواز کو بلند کرنے کو-اوراپنی حدود کی تنفیذ کو اور اپنی تلواریں کھینچنے کو۔اور مساجد کے دروازوں پر(یعنی ان کے قریب) طہارت خانے بناؤ نیز جمعوں ( یا اجتماع کے موقع) پر ان میں خوشبودار دھونی دو۔ (سنن ابن ماجہ)
تو اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے جس کی بالکل ہوش کی عمر نہ ہو اور ان کے رونے سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتاہو۔ تو اللہ تعالیٰ کا یہ شکر ہے کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن جماعت ہے اور ہمارے ہاں یہ تصور بھی نہیں ہوتا کہ تلواریں کھینچی جائیں- مجھے ایک واقعہ یا د آگیاہے۔جیل میں ایک بڑا داڑھی والا مولوی ٹائپ آدمی تھا۔ مَیں نے اس سے ا نٹرویو لینا شروع کیا کہ تم کس طرح یہاں آئے۔ تو وہ قتل کے کیس میں آیاہواتھا۔ مَیں نے پوچھا یہ قتل ہوا کیسے۔ (کہنے لگا)کہ رمضان کے مہینے میں اعتکاف بیٹھا ہوا تھا کہ مسجد میں ایک آدمی آیا میرے پاس بندوق تھی مَیں نے فائر کیا اور ماردیا۔ غلطی سے فائر ہو گیا۔ مَیں نے کہا کہ بندوق تم نے وہاں رکھی کیوں تھی؟غلطی سے فائر ہوگیا؟۔ تو یہ دشمنیاں مسجدوں میں بھی چلتی ہیں ، اعتکاف بیٹھے ہوئے بھی قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں-
پھر حدیث میں آتاہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی۔ یا رسول اللہ! یہ جنت کے باغات کیا ہیں؟ اس پر
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مساجد جنت کے باغات ہیں ‘‘ میں نے عرض کی۔یا رسول اللہ ! ان میں کھانے پینے سے کیا مراد ہے؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سُبۡحَانَ اللّٰہِ وَالۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکۡبَرُ ‘‘

پڑھنا۔ (ترمذی ٗ کتاب الدعوات ٗ باب حدیث فی اسماء اللہ الحسنی مع ذکرھا تماما)
ذکر الٰہی کرنا سے مراد یہ ہے کہ جنت کے باغ ہیں مسجد اور ذکر الٰہی کرنا وہاں کی خوراک۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ جگہیں ان کی مساجد اور شہروں کی ناپسندیدہ جگہیں ان کی مارکیٹیں ہیں-(مسلم ٗ کتاب المساجد ٗ باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح و فضل المساجد)
لیکن آج کل آپ دیکھیں کہ جو ناپسندیدہ جگہیں ہیں ان میں لوگ زیادہ بیٹھتے ہیں اور مساجد جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں ان میں کم بیٹھا جاتاہے، اس طرف توجہ کم ہے۔
تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی مساجد کو آباد کریں-
پھر مسجد میں تلاوت اور درس و تدریس کے بارہ میں حدیث ہے۔ ا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس و تدریس کیلئے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں-
(سنن الترمذی، کتاب القراء ات، باب ماجاء ان القران انزل علی سبعۃ احرف)
حضرت برادہ الاسلمیؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ:اندھیروں کے دوران مسجدوں کی طرف بکثرت چل کر جانے والوں کو قیامت کے روز نور تام عطا ہونے کی بشارت دے دو۔
تو اس سے ایک یہ بھی مراد ہے کہ یہ دنیاداری کا زمانہ ہے، اس میں مسجدیں آباد کرنے والوں کو مکمل نور عطا ہوگا اور اس کی بشارت دی گئی ہے۔
پھر حضر ت ابوسعید ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو (اس لئے کہ )اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہیں ‘‘۔ (ترمذی کتاب التفسیر۔تفسیر سورۃ التوبہ)
عروہ بن زبیر نے اپنے دادا عُروہ کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے محلوں میں مسجدیں بنائیں اور یہ کہ ہم ان کو عمدہ تعمیر کریں اور ان کو پاک صاف رکھیں- (مسند احمد بن حنبل)
تو مسجد کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھنا چاہئے۔ مسجدکی صفائی کے ضمن میں ایک حدیث آتی ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :میرے سامنے میری اُمّت کے اجر پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ خس و خاشاک بھی اجرکا باعث ہے جسے ایک شخص مسجد سے باہر پھینکتاہے۔
مسجد کی صفائی کے لئے اگر کوئی تنکا بھی ا ٹھا کر باہر پھینکتاہے تو اس کا بھی ا جر ملتاہے۔
پھر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مسجد سے تکلیف دینے والی چیز نکالی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب تطھیر المساجد وتطییبھا)
پس اس مسجد میں بھی دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ کی مساجد ہیں ہمیں ان کی صفائی کی طرف خاص طورپر توجہ دینی چاہئے۔ صرف یہ نہیں کہ بنا لی ہے اور اس کے بعد اس کی صفائی اور Maintenance کی طرف توجہ نہ ہو۔ بلکہ بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اور ہماری مساجد کی صفائی کے معیار بہت بلند ہونے چاہئیں- آنحضرت ﷺ توبعض اوقات گند دیکھ کے خود بھی صفائی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ تو جماعتی نظام کو اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بعض لوگ اگر امام کے انتظار میں کچھ دیر بیٹھنا پڑے تو بڑبڑانا شروع کر دیتے ہیں ، باربار گھڑیاں دیکھ رہے ہوتے ہیں-ان کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز میں مشغول شمار ہوتا ہے جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اور تم میں سے ہر شخص کے لئے فرشتے یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ! تو اسے بخش دے۔ اے اللہ! تُو اس پر رحم فرما۔ جب تک وہ مسجد میں ہو۔(ترمذی، کتاب الصلٰوۃ، باب ماجاء فی القعود فی المسجد…)
ہر انسان جو اس معاشرے میں رہ رہاہے اس کی چکاچوند سے متأثر ہوتاہے۔مادیت کا لالچ اس پر باربار حملہ کررہاہوتاہے۔ شیطان اپنا پورا زور لگارہاہوتاہے کہ مَیں اس شخص کو کسی طرح قابو کروں اور اس کو خدا سے دور لے جاؤں- بعض دفعہ یہی ہوتاہے کہ چلو یہ کام ہے، دنیا دار ی کا کام چھوٹاسا یہ پہلے کر لو، نماز بعد میں پڑھ لیں گے ابھی کافی وقت ہے۔ تو یہ شخص اپنی روحانی سرحد کے اس دائرے کو کمزور کر رہاہوتاہے اور جب یہ دائرہ کمزورہو جاتاہے تو پھر شیطان حملہ کرکے اس کو بہت دور لے جاتاہے۔ بعض دفعہ یہی ہوتاہے کہ چلو پڑھ لیں گے، ٹھہر کر پڑھ لیں گے۔تو پھر وہ نماز رہ ہی جاتی ہے یا پھر اتنی جلدی میں پڑھی جاتی ہے جیسے جلدی جلدی کوئی مصیبت گلے سے ا تاری جائے۔ تو اس سستی سے بچنا چاہئے۔ مومن کا دل تو نماز کی طرف رہنا چاہئے اور اس مادی دنیا میں تو آج کل یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ حدیث میں آتاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں آپ کو وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے‘‘۔فرمایا وہ یہ ہے کہ :’’ جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا،اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا، نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ رِباط ہے، یہ رِباط ہے، یہ رِباط ہے (سرحدوں پر گھوڑے باندھنایعنی تیاریٔ جہاد)‘‘۔(سنن النسائی، کتاب الطہارۃ، باب الامر باسباغ الوضوء)
تو یہ ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی روحانی سرحدوں کی حفاظت کرے کیونکہ جب سب مل کر اس طرح سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور مسجدوں میں آئیں گے اور مسجدوں کو آباد کریں گے توپھر کوئی دشمن نہیں جو کبھی ہمیں نقصان پہنچا سکے۔ انشاء اللہ۔ او ر آپ ﷺہمیں یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ اس طرح کروگے تو ہمیشہ محفوظ رہو گے،ہر دشمن سے بچے رہو گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’باجماعت نماز اداکرنا گھر اور بازار میں اکیلے پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ اجرکا موجب ہے۔تم میں سے جب کوئی اچھی طرح وضو کرے اور مسجد میں محض نماز کی خاطر آئے تووہ کوئی قدم نہیں اٹھاتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ میں اس کی ایک خطا معاف کر دیتاہے اور اس کا ا یک درجہ بلند فرما تا جاتاہے،یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جائے۔ ا ور جب وہ مسجد میں آ جاتاہے تو جب تک نماز کے لئے وہاں رُکا ہے نماز ہی میں شمار ہوگا۔ اس کے لئے ملائکہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ

’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ ‘

یہ حالت اس وقت تک رہتی ہے جب تک کہ وہ کسی اور کام یا بات میں مصروف نہیں ہوتا۔
(صحیح بخاری۔کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی المسجد)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ہماری اس مسجد میں اس نیت سے داخل ہوا کہ بھلائی کی بات سیکھے یا بھلائی کی بات جانے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہو گا۔ اور جو مسجد میں کسی اور نیت سے آئے تو وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کو حاصل نہیں ہو سکتی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد ۲صفحہ ۳۵۰مطبوعہ بیروت)
مسجد میں آ کر نوافل پڑھنا بھی مستحب ہے۔حضرت ابوقتادہ اَلاسۡلَمِی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ بیٹھنے سے قبل دو رکعات (نفل) ادا کرے۔
(بخاری ٗ کتاب الصلٰوۃ ٗ باب اذا دخل المسجد فلیرکع رکعتین)
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺجب مسجد میں داخل ہونے لگتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ا ور اللہ کے رسول پر سلامتی ہو، یعنی اللہ کا نام لے کر مسجد میں داخل ہوں یعنی یہ کہیں

’’ بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‘‘

اللہ کے نام کے ساتھ ا ور اللہ کے رسول پر سلامتی ہو۔ پھر کہے

’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ‘‘

اے اللہ میرے گناہ مجھے بخش دے

’’وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَاب رَحْمَتِکَ‘‘

اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے نکلنے لگے تو یہ دعا کرے

’’ ِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‘‘

اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول پر سلام ہو

’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ‘‘

اے اللہ میرے گناہ بخش دے

’’وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ‘‘

اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ (مسند احمد بن حنبل)
ایک حدیث میں آداب مساجد کے بارہ میں آتاہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ باتیں ہیں جو مسجد میں کرنی جائز نہیں- (۱)مساجد کو گزرنے کا راستہ نہ بنایا جائے۔( شارٹ کٹ میں یہ نہیں کہ ایک دروازے سے آئے دوسرے سے نکل گئے)۔ (۲)مسجد میں اسلحہ کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ (۳)مسجد میں کمان نہ پکڑی جائے اور نہ مسجد میں تیر برسائے جائیں-
(۴)کچا گوشت لے کر مسجد سے نہ گزرا جائے۔ (اس سے گند بھی پھیلتاہے، بُو بھی پھیلتی ہے )۔(۵)مسجد میں نہ تو کسی پر حد جاری کی جائے اور نہ مسجد میں کسی سے قصاص لیا جائے۔اسی طرح مسجد کو بازار نہ بنایا جائے (یعنی مسجد میں خرید و فروخت نہ کی جائیں )۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب مایکرہ فی المساجد)
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’حق اللہ میں بھی امراء کو دقّت پیش آتی ہے اور تکبر اور خودپسندی ان کو محروم کر دیتی ہے۔مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا برا معلوم ہوتاہے۔ اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۶۸۔ جدید ایڈیشن)
پھر آپ ؑنے فرمایا :’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ ٔخدا ہوتاہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے،پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام ِمسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اُسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شرّ کوہرگز دخل نہ ہو، تب خدا برکت دے گا۔
یہ ضرور ی نہیں کہ مسجد مرصّع اور پکّی عمارت کی ہو۔ بلکہ صرف زمین روک لینی چاہئے اور وہاں مسجد کی حدبندی کردینی چاہئے اور بانس وغیرہ کاکوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔ خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرتﷺکی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمان ؓنے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا، اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا‘‘۔ (تو یہ بھی وہم نہیں ہونا چاہئے کہ صرف کچی مسجد ہی ، چھپر ہی ہوں- بلکہ پختہ بھی بنوائی گئیں-اور آنحضرت ﷺنے جیساکہ مَیں نے پہلے حدیث سے ذکر کیاتھا حضرت عثمانؓ نے اس کی وضاحت بھی کی تھی)۔ فرمایا ’’حضرت عثمان ؓنے اس لئے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا، اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتاہے کہ حضرت سلیمان ؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتاہے۔ شاید اسی مناسبت سے اُن کو اِن باتوں کا شوق تھا۔ غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔ اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیاکریں- جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کردینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم۔صفحہ ۹۳۔ جدید ایڈیشن)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نمازپڑھتے ہیں- ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں-رسول کریم ﷺکی مسجد چھوٹی سی تھی۔کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتاتھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔آنحضرت ﷺکے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خداتعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھایعنی ضرررساں- اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں ‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۹۱۔جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہر ا حمدی کو توفیق دے کہ ہماری جو بھی مسجد بنے اس کی خالص بنیاد تقوی اللہ پر ہو اور ہمیشہ ہمارا شمار اللہ تعالیٰ کے عبادتگزاروں میں سے ہو۔اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے ہوں اور اپنی ساری مرادیں اور خواہشیں اس کے حضور پیش کرنے والے ہوں اور اس خدا کو سب قوتوں کا مالک اور سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہوں اور خالص اسی کے ہو جائیں- اور اسی کے حکم کے مطابق و موافق مسجدوں کو آبادکرنے والے بھی ہوں- یہ مسجد بھی اور دنیا میں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں اللہ کرے کہ وہ گنجائش سے کم پڑنے لگ جائیں- اور نمازیوں سے چھلک رہی ہوں- یاد رکھیں اسلام اور احمدیت کی فتح اب ان مسجدوں کو آباد کرنے سے ہی وابستہ ہے۔پس اے احمدیو ! اٹھو! اور مسجدوں کی طرف دوڑو اوران کو آباد کرو تاکہ الٰہی وعدوں کے مطابق ہم جلد از جلد اسلام اور احمدیت کی فتح کے دن دیکھ سکیں- اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے اوریہ دن دیکھنے نصیب کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں