خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 26؍ستمبر2003ء

تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہو۔
دسویں شرط بیعت میں ’طاعت در معروف‘ کی وضاحت اور اطاعت کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں
(حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت کے بعد پیدا ہونے والی روحانی تبدیلیوں کے ایمان افروز واقعات کابیان )
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۶؍ستمبر ۲۰۰۳ء بمطابق ۲۶؍ تبوک ۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یَشْرِکْنَ بِاللہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللہَ۔ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الممتحنہ:۱۳)

گزشتہ خطبہ میں شرائط بیعت کی دسویں اور آخری شرط کے بارہ میں بیان کیا تھا لیکن طاعت درمعروف کے بارہ میں مزید کچھ وضاحت کرنا چاہتاہوں- یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں عورتوں سے اس بات پر عہد بیعت لینے کی تاکید ہے کہ شرک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں گی،جھوٹا الزام کسی پر نہیں لگائیں گی اور معروف امورمیں نافرمانی نہیں کریں گی۔تو یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتاہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتاہے جو غیر معروف ہوں- اور اگر نبی کر سکتا ہے تو ظاہر ہے پھر خلفاء کے لئے بھی یہی ہوگا کہ وہ بھی ایسے احکامات دے سکتے ہیں جو غیرمعروف ہوں- اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے ا حکامات دے ہی نہیں سکتا۔ نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا۔ اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اوررسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجا لاناہے۔ کہیں نہیں لکھاکہ جو معروف حکم ہوں اس کی اطاعت کرنی ہے۔تو پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں- یہ اصل میں دو مختلف حکم نہیں ہیں ، سمجھنے میں غلطی ہے۔جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا۔ اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف،شریعت کے احکامات کے خلاف کرہی نہیں سکتا۔ وہ تو اسی کام پر مامور کیا گیا ہے۔ توجس کام کے لئے مامور کیا گیا ہے، اس کے خلاف کیسے چل سکتاہے۔ یہ تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نے نبی کو مان کر،مامور کو مان کر،اس کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے، تم محفوظ ہو گئے ہو کہ تمہارے لئے اب کوئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں-جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے۔ یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بھی آیا ہے

وَلاَ یَعصِینَکَ فِی مَعرُوفٍ (الممتحنۃ:۱۳)

اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنالی ہے۔ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے۔ اس میں ایک سرّ ہے۔ میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں- میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے‘‘۔
(خطبہ عید الفطر فرمودہ ۱۵ ؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء۔ خطبات نور صفحہ۴۲۰۔۴۲۱)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ

کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں-
’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں-اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں- پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔ (براھین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۴۲۰)
تو جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتاہے، وہی احکامات دیتا ہے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے۔بری باتوں سے روکتا ہے، نیک باتوں کا حکم دیتاہے اور ان سے پرے ہٹ ہی نہیں سکتا۔ تو خلیفہ بھی جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتاہے وہ بھی اس تعلیم کے انہی احکاما ت کو آگے چلاتاہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کے ذریعہ ہم تک پہنچائے۔ اوراس زمانہ میں آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت کرکے ہمیں بتائے تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہوچکاہے اورانشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں-اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں-اگر کسی وقت خلیفہ ٔوقت کی غلطی سے یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ ہو جاتاہے جس سے نقصان پہنچنے کااحتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتاہے کہ اس کے بدنتائج کبھی بھی نہیں نکلتے اور نہ انشاء اللہ نکلیں گے۔
اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفۂ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے۔ لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عِصمت صغریٰ کہا جاتا ہے۔ گویا انبیاء کو تو عِصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عِصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو۔ ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیا ں ہو سکتی ہیں- مگر انجامکار نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہو گی۔ گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہو گی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہو گی جو ان کی ہو گی۔بے شک بولنے والے وہ ہوں گے،زبانیں انہی کی حرکت کریں گی، ہاتھ انہی کے چلیں گے، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہو گا۔ان سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں- بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہو گی۔ اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہو گی اور ایسی مضبوط ہو گی کہ کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکے گی۔(تفسیر کبیر جلد ۶صفحہ۳۷۶۔۳۷۷)
پھر قرآن شریف میں آتا ہے

وَ اَقْسَمُوْا بِاللہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَہُمْ لَیَخْرُجَنَّ۔ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌبِّمَا تَعْمَلُوْنَ (سورۃ النور:۵۴)۔

اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تُو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق (معروف طریق کے مطابق )اطاعت (کرو)۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
تو اس آیت سے پہلی آیتوں میں بھی اطاعت کا مضمون ہی چل رہاہے اورمومن ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور مانا۔ اور اس تقویٰ کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ٹھہرتے ہیں اور بامراد ہو جاتے ہیں- تو اس آیت میں بھی یہ بتایاہے کہ مومنوں کی طرح ’سنو اوراطاعت کرو‘ کا نمونہ دکھاؤ، قسمیں نہ کھاؤ کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کردیں گے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تفسیر میں لکھاہے کہ دعوے تو منافق بھی بہت کرتے ہیں-اوراصل چیز تو یہ ہے کہ عملاً اطاعت کی جائے اورمنافقوں کی طرح بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کی جائیں- تو یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے فرمارہاہے کہ جو معروف طریقہ ہے اطاعت کا،جو دستورکے مطابق اطاعت ہے، وہ ا طاعت کرو۔نبی نے تمہیں کوئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا جس کے بارہ میں تم سوال کر رہے ہو۔ اس کی مثال مَیں دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میری بیعت میں شامل ہوئے ہو اور مجھے مانا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عاد ی بن جاؤ،جھوٹ چھوڑ دو، کبر چھوڑ دو، لوگوں کے حق مارنا چھوڑ دو،آپس میں پیار ومحبت سے رہو، تویہ سب طاعت در معروف میں ہی آتاہے۔ یہ کام کوئی کرے نہ اور کہتے پھرو کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو حکم ہمیں دیں گے ہم اس کو بجا لائیں گے اور اسے تسلیم کریں گے۔
اسی طرح خلفاء کی طرف سے مختلف وقتوں میں مختلف تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں-روحانی ترقی کے لئے بھی جیساکہ مساجد کو آباد کرنے کے بارہ میں ہے، نمازوں کے قیام کے بارہ میں ہے،اولاد کی تربیت کے بارہ میں ہے، اپنے اندر اخلاقی قدریں بلند کرنے کے بارہ میں ، وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارہ میں ، دعوت الی اللہ کے بارہ میں ،یا متفرق مالی تحریکات ہیں- تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔ دوسرے لفظوں میں طاعت در معروف کے زمرے میں یہی باتیں آتی ہیں- تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الٰہی اور خلاف عقل توکام نہیں کروانے۔یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جاؤ اور سمند میں چھلانگ لگا دو۔ گزشتہ خطبہ میں ایک حدیث میں مَیں نے بیان کیاتھاکہ امیر نے کہا کہ آگ میں کود جاؤ۔ تواس کی اورروایت ملی ہے جس میں مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عَلْقَمَہ بِنْ مُجَزِّز کو ایک غزوہ کے لئے روانہ کیا جب وہ اپنے غزوہ کی مقررہ جگہ کے قریب پہنچے یا ابھی وہ رستہ ہی میں تھے کہ ان سے فوج کے ایک دستہ نے اجازت طلب کی۔ چنانچہ انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور ان پر عبداللہ بن حذافہ بن قیس السہمی کو امیر مقرر کر دیا۔ کہتے ہیں مَیں بھی اس کے ساتھ غزوہ پر جانے والوں میں سے تھا۔ پس جب کہ ابھی وہ رستہ میں ہی تھے تو ان لوگوں نے آگ سینکنے یا کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی تو عبداللہ نے ( جو امیر مقرر ہوئے تھے اور جن کی طبیعت مزاحیہ تھی) کہا کیا تم پر میری بات سن کر اس کی اطاعت فرض نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر عبداللہ بن حذافہؓ نے کہا کیا میں تم کو جو بھی حکم دوں گا تم اس کو بجا لاؤ گے؟ انہوں نے کہا۔ ہاں ہم بجا لائیں گے۔
اس پر عبداللہ بن حذافہؓ نے کہا میں تمہیں تاکیداً کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو۔ اس پر کچھ لوگ کھڑے ہو کر آگ میں کودنے کی تیاری کرنے لگے۔ پھر جب عبداللہ بن حذافہؓ نے دیکھا کہ یہ تو سچ مچ آگ میں کودنے لگے ہیں تو عبداللہ بن حذافہؓ نے کہا اپنے آپ کو (آگ میں ڈالنے سے) روکو۔(خود ہی یہ کہہ بھی دیا جب دیکھا کہ لوگ سنجیدہ ہو رہے ہیں )۔کہتے ہیں پھر جب ہم اس غزوہ سے واپس آگئے تو صحابہ ؓ نے اس واقعہ کا ذکر نبی ﷺ سے کر دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’امراء میں سے جو شخص تم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو۔(سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد باب لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ)
تو واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ وقت کبھی بھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کر سکتا۔تو اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم کسی واضح حکم کی خلاف ورزی تم امیر کی طرف سے دیکھو تو پھراللہ اور رسول کی طر ف رجوع کرو۔اور اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہو چکاہے اور خلیفہ ٔوقت تک پہنچو۔ جس کا فیصلہ ہمیشہ معروف فیصلہ ہی ہوگا انشاء اللہ۔ اور اللہ اور رسول ﷺکے احکام کے مطابق ہی ہوگا۔تو جیساکہ مَیں نے پہلے عرض کیاکہ تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہی ہو۔ کوئی ایسا فیصلہ انشاء اللہ تمہارے لئے نہیں ہے جو غیرمعروف ہو۔
اس کے بعداب مَیں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوکر،آپ کی بیعت کرکے،آپ سے ان دس شرائط پر عہد بیعت باندھ کر ان شرائط پر عمل بھی کیا گیا،اطاعت کا نمونہ بھی دکھایا گیا یا صرف زبانی جمع خرچ ہی رہا کہ ہم اس شرائط پر آپ سے بیعت کرتے ہیں- اس کے لئے مَیں نے چند نمونے لئے ہیں جن سے پتہ چلے کہ بیعت کرنے والوں نے اپنے اندر کیا روحانی تبدیلیاں کیں اور کیا روحانی انقلابات آئے۔ اور یہ تبدیلیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اوراس زمانہ میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں-
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’میں حلفاً کہتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے ہیں‘‘۔ (سیرت المہدی جلد اول۔ صفحہ ۱۴۶)
تو ایک شرط یہ تھی کہ شرک سے اجتناب کریں گے۔صرف ہمارے مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ایسے اعلیٰ معیار قائم کر گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتاہے کہ کیا انقلاب آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے دعا نکلتی ہے۔
ایک واقعہ ہے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی والدہ کا نمونہ کہ آپ کو کس طرح شرک سے نفرت تھی- کہتے ہیں کہ آپ کے بچے اکثر وفات پاجاتے تھے۔ ایک دفعہ آ پ کا ایک بچہ بیمار ہوا۔ بچے کا علاج کیا گیا۔ ایک آدمی تعویذ دے گیا۔اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا۔ لیکن بچے کی والدہ نے تعویذ چھین کر چولہے کی آگ میں پھینک دیا اورکہا کہ میرابھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے۔مَیں ان تعویذوں کو کوئی وقعت نہیں دوں گی۔ بچہ دو ماہ کا ہوا تو وہی جے دیوی ملنے کے لئے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آ پ سے کچھ پارچات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے مترشح ہوتا تھا کہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لیٔ ہیں- آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو۔ اگر تم صدقہ یا خیرات کے طورپر کچھ طلب کروتو مَیں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیارہوں- لیکن مَیں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں- مَیں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اورحیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی۔ ایسی باتوں کو مَیں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بنا پر مَیں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں- جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو اگربچے کی زندگی چاہتی ہوتو میرا سوال تمہیں پور ا ہی کرنا پڑے گا۔
چند دن بعد آپ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی اور بچے کی طر ف اشارہ کرکے دریافت کیا :اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا:’’ ہاں یہی ہے‘‘۔جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں- آپ نے پھروہی جواب دیا جو پہلے موقع پر دیا تھا۔ اس پر
جے دیوی نے کچھ برہم ہوکر کہا :’’اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ مَیں جھوٹ کہتی تھی‘‘۔ آپ نے جواب دیا:’’ جیسے خدا کی مرضی ہوگی وہی ہوگا‘‘۔ ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خو ن کی قے ہوئی اور خون ہی کی ا جابت ہوگئی۔ چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی۔ اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی یا اللہ ! تُو نے ہی دیا تھا اور تُونے ہی لے لیا۔ مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں-اب توُ ہی مجھے صبر عطا کی جیو۔ اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں-
(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحہ ۱۵۔۱۶)
دیکھیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی کتنے انعامات سے نوازا۔اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ جیسا بیٹا انہیں دیا جس نے بڑی لمبی عمر بھی پائی اوردنیا میں ایک نام بھی پیداکیا۔
پھر بیعت کرنے کے بعد نفسانی جوشوں سے کس طرح لوگ محفوظ ہو رہے ہیں- اب اُس زمانے کی نہیں مَیں اِس زمانے کی مثال دیتاہوں اوروہ بھی افریقہ کے لوگوں کی۔ افریقہ کے جو Pagan لوگ ہیں ان کے اندر بہت سی گندی رسمیں اور عادتیں پائی جاتی ہیں مگراحمدیت میں داخل ہوتے ہی وہ ان رسموں پر اس طرح لکیر پھیر دیتے ہیں اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں جیسے یہ برائیاں کبھی اُن میں تھیں ہی نہیں-ایسی رپورٹیں بھی آئیں کہ شراب کے رسیا ایک دم شراب سے نفرت کرنے لگ گئے اوراس کا دوسروں پر بھی بہت گہرا اثر ہوا۔ اور جب وہ اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مولوی کہتے ہیں کہ احمدیت نے ان پرجادو کر دیاہے اور اس وجہ سے انہوں نے شراب چھوڑ دی ہے۔
پھر ایک واقعہ مجھے یاد آیا۔ ایک مربی صاحب نے مجھے بتایا۔ گھانا میں ہی ایک شخص احمدی ہوا جس میں تمام قسم کی برائیاں پائی جاتی تھیں- شراب کی بھی،زناکی بھی، ہر قسم کی۔وہاں رواج یہ ہے کہ گھروں میں لوگ غربت کی وجہ سے یا رہائش کی کمی کی وجہ سے بڑے بڑے مکان ہوتے ہیں اس میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیتے ہیں-اسی طرح رہنے کارواج ہے۔ تو یہ شخص اسی طرح کے ماحول میں رہتاتھا۔ عورتوں سے دوستی تھی لیکن جب احمدیت قبول کی توسب کو کہہ دیا کہ کسی غلط کام کے لئے کوئی میرے پاس نہ آئے- لیکن ایک عورت اس کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی۔ اس نے اس پر یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب وہ اسے دور سے دیکھتاتھا تو کنڈی لگاکرفوراً نفل پڑھنا شروع کر دیتایا قرآن شریف کی تلاوت کرنی شروع کر دیتاتھا، اس طر ح اس نے اپنے آپ کو محفوظ کیا۔تو یہ انقلابات ہیں جو احمدیت لے کرآئی ہے۔
پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر،وہ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار جماعت احمدیہ غانا کے افراد کے ساتھ ایک عید کی نماز کے بعد پیرا ماؤنٹ چیف سے ملنے گیا۔وہ اپنے سب سرکردہ افراد کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھے۔ جب ہم اندرداخل ہوئے تو احمدی دوستوں نے چیفوں اور ان کے ساتھیوں کے سامنے بڑے جوش سے اس طرح گانا شروع کیا کہ ایک بوڑھا احمدی جو چیف کے سامنے تھا چھڑی ہوا میں لہرا لہرا کر گارہا تھا اور باقی دوست جو تین صد کے قریب تھے اس کے پیچھے وہی فقرات دہرا رہے تھے۔ میں نے ترجمان سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور احمدیت کی برکات کا ذکر کر رہے ہیں-یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بت پرست اور مشرک تھے۔ ہمیں حلال و حرام اورنیکی بدی کا کوئی علم نہیں تھا۔ ہماری زندگی بالکل حیوانی تھی ہم وحشی تھے۔ شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے۔احمدیت نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا اور ہماری بدیاں ہم سے چھوٹ گئیں اور ہم انسان بن گئے۔ تو یہ لوگ اپنے ہی شہر کے ایک پیراماؤنٹ چیف اور دیگر اکابر کے سامنے جو ان کی سابقہ عادات و اخلاق سے پوری طرح واقف تھے اپنی تبدیلی بڑی تحدی کے ساتھ بیان کر رہے تھے اور جماعت کی صداقت کے طور پر پیش کر رہے تھے۔(ماہنامہ انصاراللہ جنوری۱۹۸۴ء صفحہ ۳۰)
پھرنمازوں کی پابندی اور تہجد کی ادائیگی کے بارہ میں بھی شرائط بیعت میں حکم آتاہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ مَیں دیکھتاہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہوگیاہے۔ مَیں اکثر دیکھتاہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں-ناپاک دل کے لوگ ان کوکافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ‘‘۔(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۵)
یہاں پھر میں گھانا کی ایک مثال دیتاہوں- ایسی تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں لوگوں نے کہ خود میرے تجربے میں آئی کہ لمبا سفر کرکے آیا ہے اور رات کو لیٹ پہنچے، بارہ بجے کے قریب سونے کا موقعہ ملا۔ رات کو جب آنکھ کھلی دیکھا کہ ڈیڑھ دو بجے کا وقت ہوگا۔مسجد میں بیٹھے ہیں اور سجدہ ریزہیں-
پھر ایک روایت آتی ہے حضرت منشی محمد اسمعیلؓ فرماتے تھے کہ مجھے صرف ایک نماز یاد ہے جو میں نماز باجماعت ادا نہیں کرسکا وہ بھی بیت الذکر سے ایک ضروری حاجت کے لئے واپس آنا پڑا تھا۔(اصحاب احمدجلد ۷صفحہ ۱۹۶)
پھر حضرت منشی محمد اسمعیل صاحبؓ کے بارہ میں ہی ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کرکے اپنے شہرسیالکوٹ واپس گئے تو یکدم لوگوں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی سابقہ لغوعادات یعنی تاش کھیلنا اور بازار میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا سب چھوڑ دیاہے اور نماز تہجد باقاعدہ شروع کردی ہے۔ان کے حالات میں اس قدر غیر معمولی تغیر دیکھ کر سب بہت حیران ہوئے۔(اصحاب احمد جلداول صفحہ ۲۰۰)
قادیان میں نمازوں اور تہجد کے ا لتزام کے بارہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے نماز پڑھائی اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آ موجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی، سحری کھائی جاتی اور اوّل وقت صبح کی نماز ہوتی ا س کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لئے تشریف لے جاتے۔سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اول وقت میں پڑھی جاتی۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کاوقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتاکہ گویا کوئی آباد نہیں مگر دوبجے رات سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوتی‘‘۔ (اصحاب احمد جلد ۲صفحہ ۷۷)
پھر نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک روایت لکھی ہے کہ نماز کے عاشق تھے۔ خصوصاً نماز باجماعت کے قیام کے لئے آ پ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے۔ بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے۔ جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہوگئے تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو۔ جب ذرا چلنے پھر نے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کرلیتے۔ یا رتن باغ میں نماز والے کمرہ کے قریب ہی کرسی سرکا کر باجماعت نماز میں شامل ہوجایا کرتے۔ جب ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں گئے تووہیں پنجوقتہ باجماعت نماز کا اہتمام کرکے گویا گھر کو ایک قسم کی مسجد بنا لیا۔پانچ وقت اذان دلواتے۔موسم کی مناسبت سے کبھی باہرگھاس کے میدان میں ، کبھی کمرے کے اندر چٹائیاں بچھوانے کا ا ہتمام کرتے اور بسا اوقات پہلے نماز ی ہوتے جو مسجد میں پہنچ کردوسرے نمازیوں کا انتظار کیا کرتا۔ مختلف الانواع لوگوں کے لئے اپنی رہائش گاہ کو پانچ وقت کے آنے جانے کی جگہ بنا دینا کوئی معمولی نیکی نہیں خصوصاً ایسی حالت میں اس نیکی کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ صاحب خانہ کارہن سہن کا معیار خاصا بلند ہو اور معاشرتی تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہو‘‘۔ (اصحاب احمد جلد ۱۲ صفحہ۱۵۲۔۱۵۳)
پنجگانہ نماز کے التزام کے بارہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ حامد علی صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں :
’’حبی فی اللہ شیخ حامد علی۔یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریباًسات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اورمَیں یقینا جانتا ہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتاہے۔ اگرچہ دقائق تقویٰ تک پہنچنا بڑے عرفاء اور صلحاء کاکام ہے۔ مگر جہاں تک سمجھ ہے اتباع سنت اور رعایت تقویٰ میں مصروف ہے۔مَیں نے اس کو دیکھاہے کہ ایسی بیماری میں جونہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیاتھا۔التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھاکہ اس بیہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا۔ مَیں جانتاہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا ا ندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھناکافی ہے کہ کس قدر ہے اورمجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نمازادا کرتاہے اورخوف اور بیماری اورفتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خداتعالیٰ پرایک سچا ایمان رکھتاہے۔ مگر یہ ایما ن غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۴۰)
پھر یہ جو شرط ہے کہـ ’ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا‘۔ اس کے بارہ میں ایک بزرگ مولوی فضل الٰہی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزاایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کاکیا نمونہ تھاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مرزا یوب بیگ صاحب ؓسے بڑی محبت تھی۔ایک دن مَیں نے مغرب کی نماز مرزاایوب بیگ صاحب کے ڈیرے پر پڑھی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں تھے۔مرزا ایوب بیگ صاحب کی نماز

اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ

کا رنگ رکھتی تھی۔جب نماز پڑھتے تھے تو دنیا کے خیالات سے لاپرواہ ہوتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو گر اکرتے تھے۔ اس دن انہوں نے غیر معمولی طورپر نماز لمبی پڑھی۔نمازکے بعد سب لوگ بیٹھ گئے تو مرزا صاحب سے پوچھا گیا کہ آج نماز تو آپ نے بہت لمبی پڑھی ہے اس کی کیا وجہ ہے۔پہلے تو آ پ نے نہ بتلایا مگر اصرار ہونے پرکہاکہ جب مَیں درُود پڑھنے لگا تو مجھے کشف ہوا کہ آنحضرتﷺایک پلیٹ فارم پرٹہل رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں-مرزا صاحب نے عربی الفاظ بھی بتلائے اوردعا کا ترجمہ بھی بتلایا۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ اے خدا ! میری امت کو ضلالت سے بچا اور اس کی کشتی کو پار لگا۔ مَیں اس دعا کے ساتھ آمین کہتارہا۔ پھر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا ! محمد رسول اللہ ﷺکی دعائیں قبول فرما اور آپ کی امت کو گردابِ ضلالت سے بچا۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا ختم کی تو مَیں نے بھی نماز ختم کردی‘‘۔
(اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۱۹۴۔۱۹۵)
تو یہ انقلاب ہے کہ جاگتے میں بھی دیدار ہو رہاہے۔
پھر حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ؓاور حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓپر حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کا کیا اثر ہوا۔ اس بارہ میں ایک روایت یہ ہے بلکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ ہمارے والد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ جب میرے یہ دونوں لڑکے ۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء کے موسم گرما کی تعطیلات میں میرے پاس بمقام ککرہٹہ ضلع ملتان میں آئے تو مَیں نے ان کی حالت میں ایک عظیم تبدیلی دیکھی جس سے مَیں حیران رہ گیا اور مَیں حیرت میں کہتاتھا کہ اے خدا !تُو نے کون سے اسباب ان کے لئے میسر کردئے جن سے ان کے دلوں میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ یہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہو گئے۔یہ ساری نمازیں پڑھتے ہیں اور ٹھیک وقت پر نہایت ہی شوق اور عشق اور سوزوگداز کے ساتھ اور نہایت رقّت کے ساتھ کہ ان کی چیخیں بھی نکل جاتیں- اکثر ان کے چہروں کو آنسوؤں سے تر دیکھتا اورخشیت الٰہی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر تھے۔اس وقت ان دونوں بچوں کی بالکل چھوٹی عمرتھی۔داڑھی کاآغاز تھا۔ مَیں ان کی اس عمر میں یہ حالت دیکھ کر سجدات شکر بجا لاتانہ تھکتا تھااورپہلے جو ان کی روحانی کمزور ی کا بوجھ میرے دل پرتھا وہ اتر گیا۔
پھر والد صاحب نے اس دوست سے کہا کہ ان کی اس غایت درجہ کی تبدیلی کا عقدہ مجھ پر نہ کھلا کہ اس چھوٹی سی عمرمیں ان کو یہ فیض اور روحانی برکت کہاں سے ملی۔ کچھ مدت کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ رُشد انہیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت سے حاصل ہوئی ہے اور والد صاحب کو حضرت صاحب کی بیعت میں شامل کرنے کاایک بڑا بھاری ذریعہ ہماری تبدیلی تھی۔(یعنی بچوں کی تبدیلی سے والد احمدی ہوئے )جس نے ان کو حضرت اقدس کی طہار ت اور انفاس طیبہ کی نسبت اندازہ لگانے کا اچھا موقعہ دیا‘‘۔(اصحاب احمد جلد ۱صفحہ ۱۸۶)
حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب ؓکا نمونہ ،جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے والد تھے۔ان کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ:
’’میری طبیعت پر بچپن سے یہ اثرتھاکہ والد صاحب (چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ) نماز بہت پابندی کے ساتھ اور سنوار کر ادا فرمایا کرتے تھے اورتہجد کاالتزام رکھتے تھے۔ مَیں اپنے تصور میں اکثروالد صاحبؓ کو نمازپڑھتے یا قرآ ن کریم کی تلاوت کرتے دیکھتاہوں- بیعت کرلینے کے بعد فجرکی نمازکبوتراں والی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔مسجد ہمارے مکان سے فاصلے پرتھی اس لئے والد صاحب گھرسے بہت اندھیرے ہی روانہ ہو جایا کرتے تھے۔(اصحاب احمدجلد ۱۱صفحہ ۱۶۳)
پھر بلاناغہ نمازوں کی پابندی کے بارہ میں ایک نمونہ پیش کرتاہوں حضرت بابوفقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کا۔ آپ’ دل بہ یا ر دست بہ کار‘ پرعمل پیرا تھے۔ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس زمانہ میں انگریزوں کا رعب داب بھی بہت تھا۔ وہ کہتاتھا مولوی صاحب! کوئی حادثہ کروا دو گے۔ ہروقت نماز پڑھتے رہتے ہو۔ آپ اس کی ایسی باتوں سے بہت تنگ پڑے۔ ایک روز دروازہ اورکھڑکی آپ نے بند کیا (دفتر کا ) اور اس کے قریب ہو کر بات کرنے لگے۔ تو وہ گھبرا گیا مباد ا آپ حملہ کردیں- آپ نے اسے اطمینان دلایا کہ میرا ایساارادہ نہیں- مَیں علیحدگی میں بات کرنا چاہتاہوں جو یہ ہے کہ آپ دفترمیں قضائے حاجت پروقت صرف کرتے ہیں-اسی طرح چائے سگریٹ پینے پر بھی۔پھرمجھ پر معترض کیوں ہیں؟ کہنے لگا یہ امورتو مقتضائے طبیعت ہیں- آ پ نے کہا مَیں آپ کے ماتحت ہوں ،آ پ کی فرمانبرداری کروں گا لیکن صرف انہی احکام میں جو فرض منصبی سے متعلق ہوں- دیگر امور کے متعلق اطاعت مجھ پر فرض نہیں- اس لئے نمازوں سے آپ کے کہنے پرمَیں رُک نہیں سکتا۔میر ی غفلت سے حادثہ رونما ہو یاٹرین میں تاخیرہو جائے تو بے شک آ پ مجھ سے نرمی کا سلوک نہ کریں- یہ کہہ کر آپ نے دروازہ اورکھڑکی کھول دی۔ وہ آپ کی گفتگو سے بہت حیران ہوا۔…… اس گفتگو کا اس پر ایسااثر ہوا کہ آپ کے لوٹے کو ہاتھ ڈالتے ہی وہ کہتا:مولوی صاحب آپ تسلی سے نماز پڑھیں ،مَیں آپ کے کام کاخیال رکھوں گا۔ ایک دن آپ کا روکھا سوکھا کھانا دیکھ کربھی اس پربہت اثر ہوا کہ ان کا یہ حال ہے ‘‘۔ (اصحاب احمد جلد ۳صفحہ ۵۵)
یہاں انگلستان میں ایک ہمارے پرانے احمدی بلال نٹل صاحب جب احمدی ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے ’’بلال‘‘ نام کا انتخاب کیا اور پھرحضرت بلالؓ ہی کے تتبع میں انہوں نے نماز کی خاطر بلانے میں (اذان دینے میں ) ایک خاص نام پیدا کیا۔انہیں سچ مُچ نماز کے لئے بلانے کا از حد شوق تھا۔(ماھنامہ انصاراللہ جون ۱۹۶۵ صفحہ ۳۶)
پھریہ ہے شرط کہ نفسانی جوشوں کو دبانا، اس میں کیا مثالیں ہیں-
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خوبی بیان فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ جلسہ تھااوروہاں جھگڑا ہوگیااوربڑے ضبط کانمونہ دکھایا جماعت نے۔فرماتے ہیں کہ:
’’ اگر پاک طبع مسلمانوں کو اپنی تہذیب کا خیال نہ ہوتا اور بموجب قرآنی تعلیم کے صبر کے پابند نہ رہتے اور اپنے غصہ کو تھام نہ لیتے توبلا شبہ یہ بدنیت لوگ ایسی اشتعال دہی کے مرتکب ہوئے تھے کہ قریب تھاکہ وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا۔ مگرہماری جماعت پر ہزار آفرین ہے کہ انہوں نے بہت عمدہ نمونہ صبر اور برداشت کا دکھایا اوروہ کلمات آریو ں کے جو گولی مارنے سے بدتر تھے ان کو سن کر چپ کے چپ رہ گئے‘‘۔
اسی طرح فرماتے ہیں کہ :’’اگرمیری طرف سے اپنی جماعت کے لئے صبر کی نصیحت نہ ہوتی اوراگر مَیں پہلے سے اپنی جماعت کو اس طور سے تیار نہ کرتا کہ وہ ہمیشہ بدگوئی کے مقابل پر صبر کریں تو وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا۔مگر یہ صبر کی تعلیم تھی کہ اس نے ان کے جوشوں کو روک لیا ‘‘۔(حیات نور با ب چہارم صفحہ ۳۰۹۔۳۱۰)
پھرنفسانی جوشوں کو دبانے کی ایک مثال حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی ہے۔عجیب نمونہ ہے۔روایت ہے کہ :
’’ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی مسجد میں تشریف لے گئے۔ اس وقت ایک سخت مخالف احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی (ڈاکٹر صاحب سرکاری ڈاکٹر تھے، سرکاری ہسپتال میں وہاں تعینات تھے )مذہبی بات چیت شروع کردی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پرچوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آ کرمٹی کا لوٹا زور سے آپ کے ماتھے پر دے مارا۔ لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا۔ ماتھے کی ہڈی تک ماؤف ہوگئی اورخون زور سے بہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خو ن سے لت پت ہوگئے۔ آ پ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فوراً مرہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دئے۔ ان کے واپس چلے جانے پر چوہدری رحیم بخش بہت گھبرائے کہ اب کیا ہوگا؟ یہ سرکاری ڈاکٹرہیں-افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں-مَیں کہاں جاؤں !اور کیا کروں !؟وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے (مسجد )میں ہی دبکے پڑے رہے۔ ادھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جاکر زخمی سرکی مرہم پٹی کی، دوائی لگائی اور پھرخون آلود کپڑے بدل کردوبارہ نماز کے لئے اسی مسجد میں آگئے- جب ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب دوبارہ مسجد میں داخل ہوئے اور چوہدری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ :’’چوہدری رحیم بخش !ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں؟‘‘۔
یہ فقرہ سنتے ہی چوہدری رحیم بخش کی حالت غیر ہوگئی۔ فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے ملتجی ہوئے اورکہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں- یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اورعفو کاسلوک سوائے الٰہی جماعت کے افراد کے اورکسی سے سرزد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ چوہدری صاحب احمدی ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد ان کے باقی اصحاب خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔
تویہ چند نمونے ہیں جو مَیں نے پیش کئے۔یہ پہلی تین چار شرائط بیعت کے تعلق میں ہیں-انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ کچھ اورنمونے بھی پیش کروں کہ لوگوں میں بیعت میں داخل ہونے کے بعد کیاانقلابات آئے تاکہ نئے آنے والوں کو بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی پتہ چلے اور وہ بھی اپنے اندرایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں اورکبھی ان پر رعب دجال نہ آئے۔ آمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں