خدا کی تابعداری

مجلس انصاراللہ ناروے کے رسالہ ’’انصاراللہ‘‘ برائے 2011ء میں ’انتخاب‘ کے زیرعنوان جو تحریریں شامل اشاعت ہیں ، اُن میں سے ایک ہدیۂ قارئین ہیں :
جناب خواجہ حسن نظامی دہلوی کا بیان ہے کہ ایک زمانہ میں چار بزرگ ہندوستان میں بہت مشہور تھے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آباد میں ، حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب دیوہ میں ، حضرت غوث علی شاہ صاحب پانی پت میں اور حضرت میاں محمد شیر صاحب پیلی بھیت میں ۔
مجھے اُس زمانہ میں تسخیر ہمزاد اور تسخیر جنات کا بہت شوق تھا اور مَیں دو برس سے مسلسل ان اعما ل کی کوشش کر رہا تھا۔ اور جو شخص جوطریقہ تسخیر ہمزاد اور تسخیر جنات کا بتاتا تھا اس پرمحنت کرتاتھا ۔ سردی کے موسم میں دریا کے پانی کے اندر آدھی رات کو کھڑے ہوکر عمل پڑھنے سے گردوں میں تکلیف ہوگئی تھی۔ ترکِ حیوانات کے چِلّوں سے جسم مرجھا گیاتھا اور ایک طرح کا جنون اور خبط میرے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ یکایک مَیں نے سنا کہ پیلی بھیت میں حضرت میاں محمدشیر صاحب تسخیرِ جنّات و تسخیرِ ہمزاد کے بہت بڑے عامل ہیں ۔ چنانچہ مَیں دہلی سے ریل میں سوار ہو کر پیلی بھیت گیا۔ میرے دل میں صر ف ہمزاد اور جنات کی تسخیر کا شوق تھا، خدا پرستی یا خدا جوئی کا کچھ بھی خیال نہ تھا۔
جب مَیں پیلی بھیت کے اسٹیشن پر اترا تو میرے پاس صرف چار پیسے تھے۔ مَیں نے خیال کیا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہ جانا چاہئے اس لئے میں نے ایک آنہ کے امرود خرید لئے اور شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مَیں نے دیکھا مٹی سے بنا ہوا ایک کچا چبوترا ہے جس کے اوپر ایک دروازہ ہے۔ دروازہ کا آدھا کواڑ کھلا ہواہے اور چوکھٹ کے پاس ایک چھوٹی سی منڈھیا بچی ہوئی ہے جس پر سانولے رنگ کے چھوٹے قد کے ایک بزرگ بیٹھے ہیں جن کی سفید لمبی داڑھی، گاڑھے کا لباس اورنیلے گھاڑھے سے ایک چھوٹی سی پگڑی سر پربندھی ہوئی ہے۔
مَیں نے جا کر سلام کیا اور امرود اُن کے قدموں میں رکھ دئے اور دیگر لوگوں کے ساتھ مٹی کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: کہو میاں دہلی میں خیریت ہے ؟ مَیں نے گستاخانہ انداز میں عرض کی کہ جب آپ کو یہ معلوم ہو گیاکہ مَیں دہلی سے آیاہوں تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ دہلی میں خیریت ہے یا نہیں ۔
یہ سن کر شاہ صاحب مسکرائے اور فرمایا ہم تو درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؓ کے نام لینے والوں میں سے ہیں جہاں کے تم رہنے والے ہو اور جن کے تم کہوتے ہو۔ یہ امرود کیوں لائے ہو؟
مَیں نے کہا جن کا نام ابھی آپ نے لیا کہ آ پ ان کا نام لینے والے ہیں ، اُنہی کی نصیحت ہے کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہ جانا چاہئے۔ شاہ صاحب پھر مسکرائے اور فرمایا کہ جب چار ہی پیسے پاس ہوں تو انسان انہیں کیوں خرچ کرے!۔
تھوڑی دیر کے بعد پہاڑ کے کچھ آدمی ایک عورت کو لائے۔ اس عورت کی آنکھیں لال تھیں اور وہ بہک رہی تھی۔ ساتھ والوں نے کہا کہ اس عورت پر آسیب ہے ۔
شاہ صاحب نے فرمایا تیل منگاؤ۔ تھوڑی دیر میں تیل آگیا۔ شاہ صاحب نے اس تیل کو نہ اپنے ہاتھ میں لیا اور نہ اس کو دیکھا ، نہ اس پر کچھ دَم کیا۔ فرمایا کہ ایک ایک قطرہ تیل کا عورت کے دونوں کانوں میں ڈا ل دو۔ فوراً تعمیل کی گئی ، تیل ڈالتے ہی عورت اچھی ہو گئی ، آنکھوں کی سرخی جاتی رہی اور اس کے حواس بھی درست ہو گئے۔ شاہ صاحب پھر مسکرائے اور مجھ سے فرمایا: لوگ کہیں گے کہ یہ عورت میری کرامت سے اچھی ہوئی حالانکہ اس میں میری کوئی کرامت نہیں ہے۔ مَیں نے تو تیل پر کچھ پڑھا بھی نہیں اور اس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ دراصل عورت کے دماغ میں خشکی تھی، تیل ڈالنے سے و ہ خشکی جاتی رہی۔
مَیں نے کہا جاننے والے سب کچھ جانتے ہیں ۔ آپ کے بہلانے اور ٹالنے سے کچھ فائدہ نہیں ہے ۔
یہ سن کر شاہ صاحب نے پھر تبسم فرمایا۔ اس کے بعد ارشاد کیا: میاں ! جب ہم تمہاری عمر میں تھے تو ہمزاد اور جنات تابع کرنے کا بہت شوق تھا ۔ ہمیں ایک شخص نے تسخیرِ ہمزاد اور تسخیرِ جنات کاعمل بتایا اور ہم نے مسجد میں جا کراس کو پڑھنا شروع کیا کہ اچانک ایک غیبی چیز نے ہم کو مسجد کے بورئیے میں لپیٹ کر کونے میں کھڑا کر دیا۔ ہم بہت مشکل سے بورئیے سے باہر نکلے۔ بورئیے کو پھر بچھا دیا اور پھر عمل پڑھنا شروع کیا۔ اورپھرہم کو کسی نے بورئیے میں لپیٹ کر کھڑا کر دیا۔ تین دفعہ ایسا ہی ہوا۔ چوتھی دفعہ ایک آدمی ہمارے سامنے آیا اور اُس نے کہا مَیں جنّ ہوں ، تُو یہاں کیوں بیٹھا ہے اور کیا پڑھ رہاہے؟ ہم نے کہا: جنات اور ہمزاد کو تابع کرنے کا عمل پڑھ رہا ہوں ۔ اُس نے کہا: ارے دیوانے! تُو خداکا مسخّر ہوجا اور خداکا تابعدار بن جا، ساری مخلوق تیری مسخّر اور تابعدار بن جائے گی۔ اورہم جنات بھی خدا کی مخلوق ہیں ہم تیرے تابعدار ہو جائیں گے۔بس اس دن سے ہم نے توجنّات اورہمزاد کی تسخیر کے عملیات چھوڑ دیئے اور خدا کے دروازے پر آن بیٹھے۔
شاہ صاحب کی یہ بات سن کر میرے دل کی آنکھیں کھل گئیں اور ایک کانٹا نکل گیا جو دو برس سے میرے خیال میں چبھا ہوا تھا اور اس دن میں نے عہد کیا کہ اب خدا کی تابعداری کے سوا اَور کسی چیز کی تسخیر کا عمل نہیں پڑھوں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں