خداتعالیٰ کا ایک متوکل بندہ – سیرۃ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مئی 2006ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت کے چند پہلو مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
قرض سے نجات کا طریق:
حضرت جمعدار فضل الدین صاحب آف لاہور تحریرکرتے ہیں کہ میں نے 1911ء میں حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر قادیان حاضر ہو کر بیعت کی۔ اس سے پہلے میں غیرمقلد خیالات کا تھا۔ میں اوورسیر تھا اور میری تنخواہ اخراجات کے لئے ناکافی تھی اس لئے ہمیشہ مقروض رہتا تھا اور اس قرضہ کو میں ان رقوم سے ادا کرتا تھا جو وقتاً فوقتاً بعض ٹھیکیدار باوجود میرے انکار کے مجھے بطور رشوت دیدیا کرتے تھے۔ جب میں نے بیعت کرتے وقت حضورؓ کے ہاتھ پر اقرار کیا کہ رشوت نہیں لوں گا، جھوٹ نہیں بولوں گا۔ تو مجھے اپنے قرضہ کا خیال آیا کہ اب کس طرح اتاروں گا۔ جس روپے کو پہلے میں رشوت نہیں سمجھتا تھا اب رشوت سمجھنے لگا اور ادھر قرض کا فکر تھا۔ بعض دفعہ توبہ توڑنے کے خیالات پیدا ہوئے ، کبھی دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی کہ مجھے کوئی کچھ دے اور میں اپنا قرضہ اتارلوں۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے تجھے توبہ کی توفیق دی ہے ممکن ہے دوبارہ تجھے سچی توبہ کی توفیق نہ ملے۔ ان متضاد جذبات کا تلاطم تین ماہ تک میرے دل میں رہا۔ پھر مجھے ایک خواب کے ذریعہ اطلاع دی گئی کہ اگر تُو توبہ پر قائم رہے گا تو یہ یہ انعامات ملیں گے۔ اور اگر توبہ توڑ دی تو گو تیری دنیا سدھر جائے گی مگر پھر توبہ نصیب نہیں ہوگی۔
اس خواب کے بعد میں نے اپنے متعلقین سے کہہ دیا کہ میری تنخواہ اس قدر ہے اور اسی میں سے مجھے چندہ وغیرہ دینا ہے۔ اور قرضہ کے متعلق فیصلہ کرلیا کہ قرض خواہوں کی طرف سے اگر مجھے قید میں بھی ڈال دیا جائے تو قید بھگت لوں گا مگر رشوت نہیں لوں گا۔
1912ء میں مَیں دوبارہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ میں حضور سے اپنے مصر جانے کے متعلق مشورہ لوں کیونکہ ان دنوں مصر میں کافی تنخواہ پر بھرتی کی جا رہی تھی۔ جب میں نے اپنے مصر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضور نے فرمایا اچھا ہے، آپ مصر چلے جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں مقروض ہوں اور عیالدار ہوں حضور دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے قرضہ سے نجات دے۔ تو حضورؓ نے نذرانہ کے روپے واپس کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی دعا کروں گا۔ مگر تمہارا کام یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں آئے وہ قرض خواہ کو دیدیا کرو اور پھر ضرورتاً اسی سے قرض لیا کرو۔ اس طرح تمہارا اعتبار ہوجائے گا اور ساتھ ہی ساتھ بہت بہت استغفار کرتے رہا کرو، اﷲ تعالیٰ تمہیں قرضہ سے نجات دے۔ مگر دیکھنا قرض خواہ کا حق ادا کرنے میں جلدی کرنا۔ میں نے اسی دن اس نسخہ پر عمل شروع کر دیا جس کو آج 37 سال ہو گئے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ کے فضل سے باعزت رہا ہوں۔
بعض عطیات کا لینا ناجائز ہے
بعض لوگ ٹھیکیداروں کے عطیات کو رشوت نہیں سمجھتے بلکہ منہ سے مانگ کر بھی لے لیتے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا ایک ارشاد ہے جو کسی سٹیشن ماسٹر کے اس سوال کے جواب میں شائع ہوا تھا کہ بعض وقت جو لوگ سٹیشن پر بلٹی چھڑانے آتے ہیں باوجود اس کے کہ میں خود تقاضا نہیں کرتا وہ بلٹی کے ساتھ آنہ دو آنے میری میز پر رکھ دیتے ہیں۔ حضورؓ نے جواب دیا کہ ایسی رقم لینی ناجائز ہے۔ کیونکہ آج تو آپ لینے کی خواہش نہیں کرتے مگر کل کو جب آپ کو ایسی رقم لینے کی عادت ہو جائے گی، زبان سے مانگ کر لیں گے۔ اور اگر لوگ مانگنے پر نہیں دیں گے تو آپ ان کو نقصان پہنچا کر بھی لینے کی کوشش کریں گے۔
سؤر کیوں حرام ہے؟
حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب بھیرویؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ رشتہ میں میرے خالو تھے اور میری روحانی تربیت انہوں نے اس طرح کی تھی جس طرح باپ بیٹے کی کرتا ہے۔
جب حضرت مولانا صاحب ریاست جموں میں شاہی طبیب مقرر ہوئے تو اس وقت جموں میں گدی نشین مہاراجہ رنیر سنگھ صاحب تھے جو علم دوست آدمی تھے اور اپنے دربار میں مذہبی یا دیگر مسائل پر بحث بھی کراتے تھے۔ سب درباری فرش پر اور خود مہاراجہ صاحب ایک اونچی گدی پر بیٹھا کرتے تھے لیکن مباحثہ کے وقت وہ گدی سے اتر کر تمام درباریوں کے ساتھ فرش پر آ بیٹھتے تھے تاکہ مباحثہ میں سب بے خوف ہو کر حصہ لیں۔ ایک دفعہ دربار میں اس امر پر بحث چلی کہ خنزیر کا گوشت کیوں حرام ہے۔ ریاست جموں کے ڈوگرے خنزیر پالتے اور اس کا گوشت کھاتے تھے۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے خنزیر کے گوشت کی حرمت کے واسطے ایک یہ دلیل پیش کی کہ خنزیر ایک ناعاقبت اندیش جانور ہے جب وہ اپنے شکار ی پر حملہ کرتا ہے تو اگر شکاری برچھی یا تلوار سامنے کر دے تو خنزیر اپنا بچاؤ کرکے ادھر اُدھر نہیں ہو جاتا بلکہ اسی برچھی یا تلوار پر کٹ کر مر جاتا ہے۔ مہاراجہ صاحب بھی خنزیر کی اس عادت کوتاہ اندیشی سے واقف تھے۔ انہوں نے جواباً کہا اچھا مولوی صاحب بھلا ہم ڈوگرے تو کوتاہ اندیش ہوئے۔ مگر انگریز بھی تو سؤر کھاتے ہیں۔ وہ تو کوتاہ اندیش نہیں۔ مولانا صاحب نے جھٹ عرض کیا: جناب انگریز ساتھ ہی گائے کا گوشت کھالیتے ہیں اس سے اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہندو راجہ گائے کے ذکر پر غصہ سے لال ہو گئے مگر کچھ بولے نہیں۔ فوراً اٹھ کر گدی پر جا بیٹھے جس کا مطلب یہ تھا کہ مباحثہ بند اور کئی ماہ تک مباحثہ کا سلسلہ بند رہا۔ اس کے بعد پھر ایک دن مباحثہ شروع کیا اور کہا کہ مولوی صاحب ایسی سختی نہ کیا کریں۔ مگر دینی امور میں حضرت مولوی صاحب کسی سے نہ ڈرتے تھے اور حق بات ضرور کہہ دیتے تھے۔
دُعا کے متعلق عجیب نکتہ
حضرت مفتی صاحبؓ مزید فرماتے ہیں جب حضورؓ ریاست جموں میں شاہی طبیب تھے ان دنوں ایک مجذوب فقیر شہر جموں کے قریب کے جنگلوں میں رہتا تھا۔ وہ کبھی کبھی شہر آتا تو حضرت مولانا صاحب سے ملاقات کے لئے ضرور آتا۔ مولانا صاحب اسے علیحدہ کمرہ میں لے جاتے اور اﷲ بہتر جانتا ہے کیا کچھ راز و نیاز کی باتیں ہوتیں۔
آپؓ نے ایک دفعہ بتایا کہ مجھے ایک امر کے واقعہ ہونے کا خوف تھا جس کا ہونا مجھے پسند نہ تھا۔ اور میں دعا کرتا تھا کہ وہ نہ ہو مگر وہ ہونے لگ گیا۔ تب میں مایوس سا بیٹھا تھا کہ وہی مجذوب فقیر آیا۔ میں نے اس سے اس امر کا ذکر کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا ہی مقدر تھا، اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔ فقیر نے جواب دیا دعا کرو۔ میں نے کہا اب کیا دعا کریں جبکہ اس کے ہونے کا حکم خدا سے ہو گیا۔ فقیر نے کہا: نورالدین! کیا تم نے قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھی:

وَاﷲ غَالِبٌ عَلٰی اَمۡرِہٖ۔

خدا تعالیٰ اپنے حکم پر بھی غالب ہے۔ اﷲ تعالیٰ جب چاہے اپنے حکم کو منسوخ کر سکتاہے۔
خدا ہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے:
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ میرا توکّل ہمیشہ خدا پر رہا ہے اور وہی قادر ہر وقت میری مدد کرتا رہاہے چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پا س کچھ نہ تھا حتیٰ کہ رات کو کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ جب نماز عشاء کے لئے وضو کرکے مسجد کو چلا تو راستہ میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے۔ میں نے نماز کا عذر کیا۔ پر اُس نے کہا میں نہیں جانتا میں تو سپاہی ہوں، حکم پر کام کرتا ہوں۔ آپ چلیں ورنہ مجھے مجبوراً لے جانا ہوگا۔ ناچار مَیں ہمراہ ہو گیا وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ امیر افسر سامنے جلیبیوں کی بھری ہوئی رکابی رکھا بیٹھاہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں۔ کہا ایک ہندوستانی سے سن کر میں نے بنوائی ہیں ۔ خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندوستانی کو کھلاؤں گا۔ چنانچہ مجھے آپ کا خیال آ گیا اس لئے میں نے آپ کو بلوایا۔ اب آپ آگے بڑھیں اور کھائیں۔ میں نے کہا نمازکے لئے اذان ہو گئی ہے۔ فرصت سے نماز کے بعد کھاؤں گا۔ کہا: مضائقہ نہیں۔ ہم ایک آدمی مسجد بھیج دیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آکر کہہ دے۔ خیر میں کھاکر جب شکم سیر ہو گیا تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے۔ تکبیر ہو چکی ہے۔
پھر دوسری صبح ہی جب کہ اپنا بستر صاف کر رہا تھا اور اپنی کتابیں الٹ پلٹ کر رہا تھا توناگہاں ایک پونڈ مل گیا۔چونکہ میں نے کبھی کسی کا مال نہیں اٹھایا اور نہ مجھے کبھی کسی کا روپیہ دکھلائی دیا اور میں خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے کوئی آدمی میرے سوا نہیں رہا۔ ۔لہٰذا میں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں تک کے لئے یہ کام دے گا۔
بیٹھے بیٹھے سولہ روپے آ گئے
قریشی امیر احمد صاحب بھیروی کی روایت ہے کہ ہمارے سامنے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں شیخ محمد صاحب چٹھی رساں کتابوں کا ایک VP لائے جو سولہ روپے کا تھا۔ آپؓ نے فرمایا: یہ کتابیں مجھے بہت پیاری ہیں اور میں نے شوق سے منگائی ہیں لیکن اب ان کی قیمت میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن میرے مولیٰ کا میرے ساتھ ایسا معاملہ ہے کہ سولہ روپے آئیں گے اور ابھی آئیں گے۔ چنانچہ وہیں بیٹھے تھے کہ ایک ہندو اپنا ایک بیمار لڑکا لے کر آیا۔ حضرت نے نسخہ لکھ کر دیا ۔ ہندو ایک اشرفی اور ایک روپیہ رکھ کر چل دیا۔ آپ نے اسی وقت سجدہ شکر اد اکیا اور فرمایا کہ میں اپنے مولیٰ پر قربان جائوں اس نے مجھے تمہارے سامنے شرمندہ نہیں کیا۔ اگر یہ شخص مجھے کچھ بھی نہ دیتا تو میری عادت ہی مانگنے کی نہ تھی۔ پھر ہو سکتا تھا کہ وہ صرف ایک روپیہ ہی دیتا یا اشرفی ہی دیتا۔ مگر میرے مولیٰ نے اسے مجبور کیا کہ میرے نور الدین کو سولہ روپے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اشرفی کے ساتھ روپیہ بھی رکھو۔
صرف نورالدین کا ہاتھ لگا ہے:
ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دارالضعفاء یا نور ہسپتال کے چندہ کے لئے حاضر ہوئے۔ آپؓ نے فرمایا۔ میرے پاس اس وقت کچھ نہیں پھر دیدوں گا۔ مگر حضرت میر صاحبؓ اصرار کرتے رہے۔ جب اصرار بڑھا تو حضرت مولوی صاحبؓ نے کپڑا اٹھایا اور وہاں سے ایک پونڈ اٹھا کر دیدیا اور فرمایا: میر صاحب! اس پونڈ پر صرف نورالدین کا ہاتھ لگا ہے (یعنی یہ کسی ٹیکسال میں نہیں بنا) اﷲ تعالیٰ نے میر ی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے غیب سے مہیا کر دیا ہے کہ نورالدین شرمندہ نہ رہے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہی میرا خزانچی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی ضرورت ہو ہم دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت مولوی صاحب کھلے دل سے خرچ کرتے تھے اور اگر خدا کی راہ میں قرض بھی لینا پڑے تو لے لیتے تھے۔اﷲ تعالیٰ سے ان کا تعلق ایک راز تھا جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے وہ اﷲ تعالیٰ کے عشق میں سرشار تھے اور یہ سچ ہے کہ محبت محبت کو کھینچتی ہے ۔ جب بندہ اﷲ تعالیٰ کے عشق میں اپنی مرضیات کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کی اطاعت میں فنا ہو جاتا ہے تو ایک وقت ایساآتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا بھی بندہ کی رضا کے مطابق ہو جاتی ہے اور یہی مقام حضرت خلیفہ اوّل کو حاصل تھا۔ غرض آپ فنا کے مقام سے گزر کر بقااور لقا کے مقام تک پہنچ گئے تھے اس لئے فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نہیں جانتے کہ نورالدین کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا کیا معاملہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں