حمل اور بچے کی پیدائش – جدید تحقیق کی روشنی میں

حمل اور بچے کی پیدائش – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

٭ برطانیہ کی دو یونیورسٹیز کے تعاون سے کی جانے والی ایک نئی مطالعاتی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ناشتہ کرنے والی اور اپنی خوراک میں زیادہ کیلوریز پر مشتمل غذا کھانے والی خواتین کے ہاں بیٹے کی پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں ترقی یافتہ ممالک میں لڑکوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے کیونکہ ان ممالک میں خواتین اپنا وزن کم رکھنے کی غرض سے کم کیلوریز والی غذا کا استعمال کرتی ہیں بلکہ ناشتہ نہ کرنے کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے۔ اس تحقیق کی تفصیلات رائل سوسائٹی کے سائنسی جریدے ’’بائیولوجیکل سائنس‘‘ میں شائع کی گئی ہیں جن کے مطابق اس تحقیق میں برطانیہ میں پہلی بار ماں بننے والی 740 خواتین کا حمل سے پہلے اور حمل کے ابتدائی مراحل میں خوراک کے ریکارڈ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق میں شامل 56فیصد خواتین کے ہاں بیٹا ہوا اور یہ وہی خواتین تھیں جو زیادہ کیلوری اور غذائیت سے بھرپور خوراک استعمال کر رہی تھیں۔ یہ خواتین باقاعدہ ناشتہ کرتی تھیں اور اِن کی غذا میں مختلف وٹامنز اور معدنیات بھی شامل تھیں جن میں پوٹاشیم، کیلشیم ، وٹامن بی اور وٹامن سی اہم ہیں۔ ناشتہ کرنے والی اکثر خواتین صبح دودھ کے ساتھ ہائی انرجی سیریل کھاتی تھیں چنانچہ محققین کے مطابق اس سے اجناس کی غذائی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جسم میں گلوکوز کی زیادہ مقدار سے لڑکوں کے زیادہ اور لڑکیوں کے پیدا ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور جو خواتین ناشتہ نہیں کرتیں، اُن میں گلوکوز کی مقدار گر جاتی ہے۔
سائنسدانوں نے مزید بتایا ہے کہ گائے، گھوڑوں اور ہرن کی کئی اقسام میں بھی یہ چیز دیکھی گئی ہے کہ جب اُن جانوروں کے پاس وسائل زیادہ ہوں یا اُن کا مقام بڑھ جائے تو اُن کے ہاں نر بچے کی پیدائش کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شیفلیڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن کہتے ہیں کہ قدرت کے نظام سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا حالات اور وسائل کا بچے کی جنس سے گہرا تعلق ہے لیکن اس بات کو سائنسی بنیاد بناکر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ خوراک کم یا زیادہ کرنے سے والدین بچے کی جنس پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک مطالعاتی تحقیق ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
٭ ایک تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ حاملہ عورتوں کے لئے خالص چاکلیٹ کا استعمال اُنہیں ممکنہ ہائی بلڈ پریشر سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق حمل کے دوران خالص چاکلیٹ کے استعمال کے نتیجے میں بلڈپریشر کے نتیجے میں ہونے والی ایسی پیچیدگیوں سے محفوظ رہنے کے انہتر فیصد زیادہ چانسز ہیں جن پیچیدگیوں کا شکار آٹھ فیصد حاملہ خواتین ہوجاتی ہیں۔ ایک طبی جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق Yale یونیورسٹی کے طبی شعبے کے تحت ہونے والی اس تحقیق میں 2291 خواتین کا معالعاتی جائزہ لیا گیا جس کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ چاکلیٹ میں شامل ایک کیمیائی مادہ Theobromine وضع حمل کے دوران بعض پیچیدگیوں کو روکتا ہے جبکہ چاکلیٹ میں شامل دیگر اجزاء میں میگنیشیم بھی بلڈپریشر کو کم کرتا ہے جبکہ flavanoids کا شمار Anti- Oxidents میں ہوتا ہے۔
٭ برطانیہ میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ حاملہ یا بچوں کو دودھ پلانے والی ایسی مائیں جو ڈائٹنگ کرتی ہیں یا جنک فوڈ پر گزارا کرتی ہیں، وہ اپنے بچوں کے عمر بھر کے لئے موٹاپے اور صحت کی خرابی کی ذمے دار ہوتی ہیں۔ ایک جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماں کی خراب غذا بچے کی پوری زندگی کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتی ہے جس میں موٹاپا، کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ اور ذیابیطس کے خطرات شامل ہیں۔ اگرچہ یہ نتائج چوہوں پر تجربات کے دوران سامنے آئے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان پر بھی اس کے ایسے ہی اثرات رونما ہوں گے۔
امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء میں شامل بعض کیمیائی اجزاء خواتین میں بانچھ پن کا سبب بن سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ تحقیق ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم سائنسدان اسے اس لئے اہم قرار دے رہے ہیں کہ پہلی بار پرفلوریٹڈ کیمیائی مرکبات یا پی ایف سیز اور حمل ٹھہرنے مسائل کے درمیان تعلق کا پتہ چلا ہے۔
جدید عہد میں ان مرکبات کے اثرات سے بچنا اس لئے مشکل ہے کہ یہ ہر طرح کی گھریلو اشیاء میں شامل ہوتے ہیں،مثلا کھانے پینے کی چیزوں کے ڈبوں میں،کپڑوں اور قالینوں وغیرہ میں۔ ان اشیاء میں ان کا استعمال اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ گرد اور چکنائی کا روکیں۔ان کا استعمال کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے اور اس سے قبل ان کے بارے میں خیال تھا کہ یہ انسانی صحت کے لئے بالکل بے ضرر ہیں۔ مگر ڈنمارک میں کی گئی تحقیق کے دوران خواتین میں بانچھ پن اور ان کیمیائی مرکبات کے درمیان ربط کا انکشاف ہوا ہے۔
اس تحقیق میں بارہ سو حاملہ خواتین نے حصہ لیا۔اس تجربے کے دوران خواتین کے خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا جس سے پتہ چلا کے دو کثیرالاستعمال پی ایف سیز ان کے خون میں موجود تھے ۔ ان خواتین کے انٹرویو بھی لیے گئے اور ان سے پو چھا گیا کہ حاملہ ہونے میں انہیں کتنا وقت لگا۔ اس طرح ان کیمیائی مادوں اور حمل ٹھہرنے میں مشکلات باہمی تعلقات کا پتہ چلا۔
یہ تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ پروفیسر جارن السن کا کہنا ہے کہ ان کیمیائی مادوں کے اثرات سے بچنے کی زیادہ گنجائش اس لئے نہیں ہے کہ یہ کافی عرصے تک جسم اور گردونواح میں باقی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
٭ طبی ماہرین نے کہا ہے ملٹھی ایک جڑی بوٹی کے طور پر جن امراض میں استعمال ہوتی ہے ان امراض کو ضرور فائدہ ہوتا ہے لیکن دوران حمل جو خواتین ملٹھی کا استعمال کرتی ہیں ان کے ہاں جنم لینے والے بچے ذہنی طور پر معذور ہوسکتے ہیں۔ یا پھر ان بچوں میں جوانی کے دوران ذہنی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ بچوں سے متعلق ایک امریکی طبّی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں، دو ہزار سے زیادہ خواتین کے بچوں کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ کم عمر بچوں اور حاملہ ماؤں کو ملٹھی کے بہت زیادہ استعمال سے گریز کرنا چاہئے۔
٭ ایک طبّی رپورٹ میں خواتین کو جم میں جاکر سخت ورزش کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو خواتین اس عمل سے مسلسل ایک سے دو سال تک گزرتی ہیں، اُن کے ہاں اولاد کی پیدائش کے امکانات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ناروے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تین ہزار خواتین پر مکمل کی جانے والی اس تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ خواتین کی سخت ورزش اُن کے اعصاب اور پٹھوں کو کھینچ کر اُن میں کھردراپن پیدا کردیتی ہے جس سے اُن کے اعصابی نظام میں تعطّلی پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ چیز اُن کے ہارمونل تبدیلیوں میں بھی رکاوٹ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے ایسی خواتین کے حاملہ ہونے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔
٭ ماہرین طب نے کہا ہے کہ سردی، نزلے اور دوسرے انفیکشنز سے بچوں میں کینسر ہونے کے خطرات میں آٹھ فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ نیو کیسل یونیورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے یہ نتیجہ 1954ء سے 1998ء کے دوران کینسر کا شکار ہونے والے چودہ سال سے کم عمر کے تین ہزار بچوں پر تحقیق کے بعد اخذ کیا ہے۔ حاملہ خواتین میں انفیکشن سے بھی بچے کو کینسر ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انفیکشن سے انسانی خلیوں کی شکل بدل جاتی ہے جن پر وائرس باآسانی حملہ آور ہوسکتا ہے اور ان خلیوں کی شکل مزید بدل کر انہیں کینسر میں تبدیل کر سکتا ہے۔
٭ ایک طبّی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حاملہ خواتین کو نزلے زکام سے بچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جانے چاہئیں کیونکہ نزلے زکام کا وائرس ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے دماغ کی نشوونما پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ یہ تحقیق پہلے بندروں پر مکمل کی گئی تھی اور بعد میں انسانوں پر کی گئی تو نتائج ایک جیسے ہی تھے یعنی نزلے زکام کا بہت زیادہ شکار رہنے والی عورتوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں اِس وائرس کے نتیجے میں زبان و بیان ، معلومات کے تبادلے، چھونے، دیکھنے اور سننے کی حس میں بھی بگاڑ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پوڈبلیومیڈیسن یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹوفر نے حاملہ خواتین کو وضع حمل سے قبل نزلے سے بچاؤ کی ویکسین کروانے کا مشورہ دیا ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ ہر سال عالمی سطح پر گیارہ فیصد حاملہ خواتین کے ہاں ذہنی معذور بچوں کی پیدائش کی ایک وجہ نزلہ و زکام کے دوران حمل کا قرار پانا بھی ہے۔
٭ اور آخر میں یہ رپورٹ کہ جریدے ’’ایشو آف ڈایابیٹیز کیئر‘‘ کی حالیہ اشاعت میں شامل ایک مضمون میں، معروف طبّی اور دواساز اداروں کے زیرانتظام، گزشتہ دس سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس تحقیق میں قریباً ساڑھے تیرہ ہزار خواتین کا طبّی جائزہ لینے کے بعد نتائج مرتب کئے گئے تھے۔ اِن نتائج میں بتایا گیا ہے کہ زمانۂ حمل سے گزرنے والی خواتین اگر کولا مشروبات کا استعمال کریں تو اُن کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں طور پر زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس جائزے میں خواتین کی عمر، اُن کے خاندان میں ذیابیطس کی شرح، جسمانی سرگرمیاں، تمباکونوشی کی عادت اور متفرق میٹھے مشروبات کے استعمال کی شرح کے علاوہ کئی دیگر عوامل کو بھی پیش نظر رکھا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر مشروبات کے پینے سے حاملہ خواتین کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرات میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا لیکن کولا مشروبات کا مہینے بھر میں صرف ایک بار استعمال کرنے سے ہی اُن کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرات میں 22فیصد تک اضافہ ہوگیا۔
جبکہ گزشتہ ہفتے ایک عالمی خبررساں ادارے کی آن لائن سروس پر شائع کی جانے والی ایک دوسری رپورٹ میں لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک محقق لی وے چن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بہت سے جسمانی مسائل کی اصل وجہ چینی ہی ہے کیونکہ وہ موٹاپا پیدا کرنے کے علاوہ ذیابیطس اور دل کے امراض جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ جو خواتین بڑی مقدار میں چینی کے مشروبات پینے کی عادی ہوتی ہیں، اُن میں حمل کے ایام میں ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے ماں اور بچے، دونوں کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
چِن نے اِس تحقیق میں تیرہ ہزار سے زیادہ خواتین سے متعلق معلومات کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہر قسم کے میٹھے مشروبات کے معمولی استعمال سے بھی حمل کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ آپ کی صحت کو بہت سے عوامل متأثر کرتے ہیں لیکن ذیابیطس ایک ایسی پیچیدگی ہے جس پر قابو پایا جاسکتا ہے اور خصوصاً غذائی عادات میں تبدیلی کرنے سے خواتین کو حمل کے دوران صحت مند رکھنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں