حضرت کعب بن مالکؓ

حضرت کعب بن مالکؓ کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا اور زمانہ جاہلیت میں آپؓ کی کنیت ابو بشیر تھی جسے آنحضرت ﷺ نے بدل کر ابو عبداللہ کردیا۔ آپؓ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور بیعت عقبیٰ ثانیہ کے موقع پر 70؍ افراد کے ہمراہ مدینہ سے مکہ آکر آپؓ نے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ جب آنحضورﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپؓ کو حضرت طلحہؓ کے ساتھ بھائی بنادیا۔ غزوہ بدر میں آپؓ شامل نہ ہوسکے کیونکہ آنحضور ﷺ کا جنگ کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس لئے بہت سے صحابہؓ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ غزوہ احد میں آپؓ نے خوب داد شجاعت دی اور آپؓ کو گیارہ زخم آئے۔ اسی موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں تو اس وقت حضرت کعبؓ نے ہی آنحضرتﷺ کو پہچانا اور صحابہ کو اطلاع دی۔ اس کے بعد آپ ہر غزوہ میں شامل ہوئے لیکن جس طرح جنگِ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اسی طرح آنحضورﷺ کے آخری غزوہ میں بھی شرکت سے محروم رہے۔
جب آنحضرت ﷺ نے غزوہ تبوک کی تیاری کیلئے صحابہ کو ارشاد فرمایا تو حضرت کعبؓ نے بھی سفر کیلئے دو اونٹ تیار کئے لیکن جب آنحضور ﷺ روانہ ہونے لگے تو آپؓ بغیر کسی وجہ کے، باوجود ارادہ ہونے کے بھی سفر پر نہ جا سکے۔ جب شہر میں نکلتے تو دیکھتے کہ سوائے کمزوروں اور منافقوں کے کوئی پیچھے نہیں رہا تو شرمندگی محسوس کرتے۔ ہر روز سفر کی نیت کرتے لیکن رہ جاتے حتی کہ آنحضورﷺ تبوک کے مقام پر پہنچ گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حضرت کعبؓ کے بارے میں خبر دی اور آپؐ نے صحابہ سے آپؓ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جب آنحضور ﷺ سفر سے واپس تشریف لائے تو حضرت کعبؓ کے دل میں آنحضورؐ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے کئی تدابیر آئیں لیکن جب آپؓ خدمتِ رسالتؐ میں حاضر ہوئے تو تہیہ کرلیا کہ صرف سچ بولیں گے۔ چنانچہ اس روز 80 سے زیادہ آدمیوں نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں سفر پر نہ جا سکنے کی معذرت کی اور آپؐ نے ان کا عذر منظور فرمایا۔لیکن حضرت کعبؓ نے اپنی باری آنے پر عرض کیا ’’… جھوٹ بولنے سے اس وقت آپؐ تو خوش ہو جائیں گے لیکن خدا ناراض ہو جائے گا جو مجھے گوارا نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ مجھے کوئی عذر نہیں تھا…‘‘۔
حضرت کعبؓ کی بات سن کر آنحضورﷺ نے آپؓ کو جانے کا حکم دے کر فرمایا ’’تمہارے لئے خدا فیصلہ کرے گا‘‘۔ آپؓ وہاں سے اٹھے تو بنو سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپؓ سے کہا کہ اگر آپؓ بھی دوسروں کی طرح کوئی عذر پیش کر دیتے تو آنحضورؐ نے سب کی طرف سے جو استغفار کیا تھا، تمہارا گناہ بھی معاف ہو جاتا۔ یہ سن کر آپؓ کو خیال آیا کہ بارگاہِ رسالتؐ میں جاکر اپنے پہلے بیان کی تردید کردیں۔ پھر کچھ سوچ کر پوچھا کہ میرے جیسے کوئی اور بھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ دو نہایت صالح صحابہ مرارہ بن ربیعؓ اور ہلال بن امیہؓ بھی اسی صورتحال میں ہیں۔
آنحضورﷺ نے مسلمانوں کو ان تینوں اصحابؓ سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیا۔ حضرت کعبؓ مسجد جاتے تو آنحضور ﷺ کو کن انکھیوں سے دیکھتے رہتے۔ آنحضورﷺ بھی آپؓ کو دیکھتے لیکن جب آپؓ نماز سے فارغ ہوکر حضورؐ کی طرف متوجہ ہوتے تو آپؐ مونہہ پھیر لیتے۔ آپؓ کے ساتھ یہی برتاؤ آپؓ کے رشتہ داروں نے بھی کیا اور بالکل قطع تعلق کرلیا۔ ایسی مایوسی کے عالم میں آپؓ کے نام غسان کے بادشاہ نے ایک خط لکھا کہ ’’تمہارے ساتھ آنحضورؐ نے بڑی زیادتی کی لیکن خدا نے تم کو کسی ذلیل گھر میں پیدا نہیں کیا۔ تم میرے پاس آ جاؤ…‘‘۔ آپؓ نے خط پڑھ کر کہا یہ بھی ایک آزمائش ہے اور بادشاہ کا خط ایک تنور میں ڈال دیا۔
40 روز گزرے تو آنحضورﷺ کا قاصد آپؓ کے پاس آیا اور حضورؐ کا یہ حکم سنایا کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ۔ آپؓ نے پوچھا طلاق دے دوں۔ جواب ملا نہیں، صرف الگ رہو۔ اس پر آپ نے بیوی کو میکے بھجوادیا۔ 50ویں روز آپؓ فجر کی نماز پڑھ کر اپنے مکان کی چھت پر بیٹھے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آواز آئی ’’اے کعب! بشارت ہو‘‘۔یہ سنتے ہی آپؓ فوراً سجدہ میں گرگئے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرکے اپنی مغفرت چاہی۔ اسکے بعد دو افراد نے آنحضورﷺ کا پیغام آپؓ کو پہنچایا جس میں معافی کی بشارت دی گئی۔ آپؓ نے خوش ہوکر اپنے کپڑے ان دونوں کو دے دیئے اور پھر آنحضوؐر کی خدمت میں حاضری ہوکر پوچھا ’’یا رسول اللہ آپ نے معاف کیا‘‘۔ فرمایا ’’میں نے نہیں خدا نے معاف کیا‘‘۔ آپؓ نے جوشِ مسرت سے عرض کیا میں اپنا سارا مال صدقہ کرتا ہوں۔ آنحضورؐ نے فرمایا’’ کم کرو‘‘۔ چنانچہ آپؓ نے خیبر کا اپنا حصہ صدقہ کے طور پر پیش کیا۔
حضرت کعبؓ نے اشعار بھی کہے اور اس حوالے سے آپؓ زمانہ جاہلیت میں بھی مشہور تھے۔ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ سے آپؓ نے دریافت کیا کہ شعر کہنا کیسا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ’’کچھ مضائقہ نہیں، مسلمان اس کی وجہ سے تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے‘‘۔
حضرت کعبؓ کے پانچ بیٹے تھے۔ آپؓ کے حالاتِ زندگی مکرم مبشر احمد شاد صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ ربوہ جون 1997ء کی زینت ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں