حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ اگست 1999ء میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے بعض خطوط مکرم امتہ الحفیظ جمن صاحبہ آف ہالینڈ نے نقل کرکے بھجوائے ہیں جن سے حضرت چودھری صاحب کی عظمت کردار اور اعلیٰ اخلاق کا انداز ہوتا ہے۔ مضمون نگار لکھتی ہیں کہ آپؓ نے ہمیشہ ہی میرے خط کا جواب دیا جو صاف ستھرا بڑے حروف پر مشتمل لیکن مختصر ہوتا تھا۔ ایک بار مَیں نے اپنی کسی مشکل کے دور ہونے کے لئے خط لکھا تو جواب آیا: ’’آپ ہر قسم کے سکھ، راحت، خوشی و محبت اور اطمینان کا مرکز خدا تعالیٰ کی ہی ذات کو اور اُس کی رضا کو بنائیں اور باقی سب تعلقات کو اُس کی رضا کے حصول کا ذریعہ شمار کریں۔ آپ کے لئے سکھ و چین کا موجب ہوگا۔ انشاء اللہ‘‘۔ یقینا ایسی نصیحت وہی کر سکتا ہے جس کا خود بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ یقین و اعتماد کا پختہ تعلق ہو۔
جب آپ عالمی عدالت انصاف کے صدر منتخب ہوکر ہالینڈ منتقل ہوگئے تو آپؓ کا نام تھا، عزت، دولت، شہرت سب کچھ تھا لیکن آپ کے اندر بے حد سادگی اور انکساری تھی۔ جماعت کے ہر ممبر کے ساتھ شفقت و ہمدردی پائی جاتی تھی۔ ایک بار رمضان میں مَیں نے کچھ نمک پارے آپؓ کی خدمت میں بھجوائے، ساتھ ہی دعا کے لئے خط لکھ دیا۔ آپؓ نے جواباً لکھا: ’’افطاری کا وقت عدالت میں ہی ہو جاتا ہے۔ … مَیں ایک عاجز، عاصی، پُرخطا اور نہایت کمزور انسان ہوں، خود دعاؤں کا محتاج ہوں۔ نہایت ممنون ہوں آپ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھتی ہیں۔ خاکسار کے لئے خاص طور پر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو اور خاتمہ بالخیر ہو۔ اِن دنوں ٹانگ کے درد سے سخت لاچار ہوں۔ جمعہ کی نماز میں حاضری سے محروم ہوں اور وہ بھی رمضان المبارک کے مہینہ میں۔ یہ بھی ضرور کسی بھاری معصیت کا خمیازہ ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ جو مرقع مغفرت ہے اس عاجز پر لطف و بخشش کی نگاہ ڈالے۔ عفو و درگزر سے نوازے اور مسجد میں حاضری کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ جو شخص ایک عام بندی کے سامنے ایسی دردمندانہ درخواست کر سکتا ہے اُس کا خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی و بے قراری سے دعا کرنے کا کیا انداز ہوگا!!۔
جب آپؓ نے نمک پارے قبول فرمالئے تو مَیں نے سوچا کہ آپؓ کو کھانا بناکر بھی بھیجنا چاہئے۔ سو ایسا ہی کیا۔ ایک بار تو آپؓ نے قبول فرمالیا لیکن دوسری بار ایک لمبا خط لکھ دیا جو آپؓ کی نیک سیرت کا ثبوت ہے، حالانکہ آپؓ ویسے ہی منع فرما سکتے تھے کہ کھانے بھجوانے کی ضرورت نہیں، آپؓ کا فرمانا سر آنکھوں پر ہوتا۔ لیکن آپؓ نے تحریر فرمایا: ’’مَیں ذیابیطس اور بعض دیگر عوارض میں مبتلا ہوں جو کہ بڑھتی عمر کا تقاضا ہیں۔ کھانے کے معاملہ میں شدید پرہیز کرنی پڑتی ہے۔ اگر کھانا استعمال کروں تو تکلیف میں پڑتا ہوں۔ نہ کروں تو کھانا ضائع ہوتا ہے جو خود ایک معصیت ہے … اگر میرے ہاں میرے کنبے کے کوئی افراد ہوتے تو دونوں طرف سے یہ طریق بہت خوبی سے نبھ سکتا تھا لیکن موجودہ صورت میں یہ طریق یکطرفہ ہے۔ آپ کی نیت تو خاکسا رکی خوشنودی ہے لیکن جو طریق میرے لئے بوجھ ہو وہ آپ کے لئے اطمینان و خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا۔‘‘
آپؓ کی شفقت اتنی زیادہ تھی کہ مَیں نے پھر کبھی کبھی آپؓ کے دفتر جانا شروع کردیا۔ خاص کر جب مجھے پتہ چلتا کہ آپ پاکستان تشریف لے جا رہے ہیں تو میرا کوئی نہ کوئی کام نکل آتا تھا۔ آپؓ نے ہمیشہ میرا کام خندہ پیشانی سے کیا باوجود اس کے کہ مَیں نے کبھی اپنے آنے کی اطلاع دی نہ اجازت لی۔ آپؓ کا دفتر Peace Palace میں تھا۔ یہ خوبصورت محل سیاحوں کا مرکز ہے۔ پہلی بار جب گئی تو دربان نے روک دیا۔ مَیں نے حضرت چودھری صاحبؓ کا نام لیا تو اُس نے مجھے آپؓ کے کمرہ تک پہنچادیا۔ پھر جب بھی جاتی وہ خود ہی حضرت چودھری صاحبؓ کا نام لے کر گیٹ کھول دیتا اور ایسے خوش ہوتا جیسے ایک نوکر اپنے آقا کو خوش کرکے ہوتا ہے۔ آپؓ ایشیائی ہونے کے باوجود بھی محل میں ہردلعزیز تھے۔ آپؓ عہدہ جلیلہ پر فائز تھے اور ایسے محل میں جہاں کا ادنیٰ ملازم بھی اعلیٰ قیمتی وردی میں ملبوس ہوتا ہے لیکن آپ بے حد سادہ لباس میں کام کرتے۔ ایک بار جب دفتر گئی تو دیکھا کہ آپؓ کی میز پر قرآن کریم کئی دیگر کتب کے درمیان کھلا پڑا ہے اور آپ نوٹ لکھ رہے ہیں۔ فرمایا: دفتر میں جب زیادہ کام نہیں ہوتا تو اپنے فالتو وقت میں مَیں اپنا جماعتی کام بھی یہیں کر لیتا ہوں۔ آجکل حضور نے میرے سپرد ایک کام کیا ہوا ہے۔ وہ کر رہا ہوں۔ اس پر مجھے ایک سوال یاد آیا کہ بائبل اور قرآن کریم دونوں خدا تعالیٰ کی کتابیں ہیں پھر ان میں کیا فرق ہے؟ آپؓ نے فرمایا: بائبل خدا تعالیٰ کی کتاب ہے مگر قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب بھی ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام بھی۔
حضرت چودھری صاحبؓ جب بھی لندن تشریف لے جاتے تو میرے میاں کو ایڈوانس رقم دے کر فرمایا کرتے کہ مَیں فلاں دن واپس آؤں گا، اتنا دودھ، اتنی بریڈ وغیرہ خرید کر میرے فلیٹ پر رکھ آنا۔ سو یہ ایسا ہی کرتے اور ساتھ ہی شاپنگ کی رسید اور بقیہ رقم بھی رکھ آتے۔ ایک دن وہاں کے مبلغ انچارج صاحب نے میرے میاں کو ایک سینٹ دیا اور بتایا کہ حضرت چودھری صاحبؓ نے یہ دے کر فرمایا تھا : یہ مکرم جمن بخش صاحب کو دیدیں، یہ ان کی طرف نکلتا ہے۔… یہ کتنا اعلیٰ تقویٰ کا مقام ہے۔ کہ میرے میاں نے ایک سینٹ جو چینج (Change) نہ ہونے کی وجہ سے وہیں چھوڑ دیا تھا، وہ بھی واپس کردیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں