حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ 23 جون 2006 ء میں مکرم محمد داؤد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت میر محمد اسحق صاحب کی سیرۃ کا بیان ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ابتدائی زمانہ کا عربی الہام ہے کہ یعنی شکرگزار ہو اپنے خدا کا جس نے سسرال اور باپ دادا دونوں کی طرف سے تیرا رشتہ اچھی نسل کے ساتھ جوڑا ہے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے اسی صہری رشتے کی ایک مقدس کڑی تھے اور ہندوستان کے مشہور صوفی منش بزرگ حضرت خواجہ میر درد کی نسل میں سے تھے۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی عقل نہایت درجہ تیز اور دل و دماغ کی طاقتیں انتہائی طور پر روشن تھیں۔ مناظرہ میں یہ کمال حاصل تھا کہ جہاں دیدہ اور کہنہ مشق مخالفوں کو چند منٹ میں خاموش کراکے رکھ دیتے۔ 1918ء میں جبکہ وہ بالکل نوجوان تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے انہیں بمبئی میں تبلیغ کے لئے بھیجا ۔ وہاں ایک بوڑھے پادری نے غیر ازجماعت کا ناطقہ بند کررکھا تھا لیکن جب حضرت میر صاحبؓ کا اس کے ساتھ مناظرہ ہوا تو آپؓ کے سامنے خرانٹ پادری ایک طفل مکتب نظر آتا تھا۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ جب بظاہر ایک کمزور بات پر بھی بولنے لگتے تھے تو مضبوط بات کے حاملین ان کے سامنے لاجواب ہو کر رہ جاتے تھے۔ مجلس مشاورت میں آپؓ جب بولنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گھنے بادلوں سے گھرا ہوا آسمان دیکھتے ہی دیکھتے بالکل صاف ہو گیا ہے۔ افسوس کہ حضرت میر صاحب کی عمر نے زیادہ وفا نہیں کی اور وہ 54 سال کی عمر میں ہی داغ مفارقت دے گئے۔
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر لکھتے ہیں کہ حضرت میر صاحب کے اخلاق و اوصاف اور آپ کا علم و فضل ہماری تعریف سے مستغنی ہے۔ جو شخص بھی آپ کے پاس بیٹھتا یا آپ کی بات سنتا، وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔ ہندوؤں کے مایہ ناز فلسفہ اور منطق کے جواب میں آپ کی کتاب ’’حدوث روح و مادہ‘‘ اسلامی فلسفہ اور علم کلام کی آئینہ دار ہے اور لاجواب کتاب ہے۔ علم مناظرہ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ ایسے دو ٹوک، مختصر، مسکت اور جامع و مانع دلائل پیش فرماتے کہ مخالف نرغے میں آجاتا اور بات کو طول نہ دے سکتا۔ ورنہ مناظرے عام طور پر ادھر ادھر کی باتوں سے طویل ہو جایا کرتے ہیں۔
حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب تحریر فرماتے ہیں: میں نے ان کے بعض مناظرات بھی سنے ہیں اور اکثر دفعہ ان کی صدارت میں خود بھی مناظرات اور تقاریر کی ہیں وہ ہر موقعہ پر لاجواب بات کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک سناتنی پنڈت سے مناظرہ تھا۔ اس پنڈت نے پہلی تقریر سنسکرت اور ملی جلی ہندی میں کی۔ ہم حیران تھے کہ اب کیا ہوگا۔ حضرت میر صاحب سارا وقت خاموشی سے تقریر سنتے رہے اور جب آپ کا وقت شروع ہوا تو کھڑے ہو کر نہایت متانت سے عربی میں تقریر شروع فرما دی۔ سارے ہندو اور آریہ منہ تک رہے تھے۔ ان کے صدر نے کہا کہ حضرت آپ کی تقریر کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے فرمایا ونحن کذالک۔ آخر قرار پایا کہ اردو میں تقاریر ہوں۔ چنانچہ آرام سے نہایت کامیاب مناظرہ ہوا۔
آپ کو اپنی دلیل پر بڑا اعتماد ہوتا تھا۔ دشمنوں سے اس بارے میں آپ نے بارہا خراج تحسین حاصل کیا ہے۔ پادریوں، پنڈتوں اور مخالف مولویوں سب سے آپ کے کامیاب مناظرات ہوئے۔
مکرم شیخ عبدالقادر صاحب محقق لکھتے ہیں:
آپؓ تقریر و تحریر میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ دینی کاموں کی زیادتی کی وجہ سے آپ کی صحت عموماً اچھی نہیں رہتی تھی۔ اس لئے آپ کی تصانیف زیادہ نہیں ہیں۔ تاہم جس قدر بھی ہیں وہ ایسے اچھوتے اور دلنشین پیرایہ میں لکھی ہیں کہ مضامین انسان کے ذہن کی گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ آریوں کے مقابلہ میں آپ کی ایک مشہور کتاب ’’حدوث روح و مادہ‘‘ ہے۔ میں نے بڑے بڑے قابل اور مانے ہوئے آریہ مناظروں اور مصنفوں کو اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان پایا ہے۔
آپ مقرر ایسے تھے کہ چوٹی کے آریہ اور عیسائی مناظر آپ کے زبردست دلائل کی تاب نہ لاکر بدحواس ہوجاتے تھے۔ مثال کے طور پر مشہور عیسائی مناظر پادری جوالا سنگھ کے ساتھ جو آپ کا مناظرہ ہوا اس کی مختصر سی روداد ’’کسر صلیب‘‘ کے ٹریکٹوں میں دیکھ کر ناظرین آپ کی ذہنی قابلیت ، قوت استدلال اور مضبوط گرفت کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن اپنی عمر کے آخری سالوں میں خرابی صحت کی وجہ سے آپ بالعموم مناظرہ نہیں کرتے تھے البتہ مناظرہ کی صدارت منظور فرمالیا کرتے تھے۔ میں نے دینانگر میں مکرم و محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کا مشہور آریہ مناظر پنڈت رامچند دہلوی کے ساتھ مناظرہ دیکھا ہے۔ اس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے صدر حضرت میر صاحب تھے۔ آپ آریہ مناظر کو اس کی بے ضابطگی کی طرف جچے تلے اور معقول اور مدلل انداز میں توجہ دلاتے تو وہ حیران و ششدر رہ جاتا اور اسے آپ کی بات کو تسلیم کرلینے کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔
مکرم مولوی غلام باری صاحب سیف نے تحریر فرمایا: مکرم مولوی تاج الدین صاحب ناظم قضاء نے فرمایا۔ مرافعہ اولیٰ میں حضرت میر صاحب کے ساتھ میں کئی دفعہ شریک ہوا۔ سماعت کے وقت فرماتے دعویٰ پڑھ دیں۔ جواب دعویٰ پڑھ دیں، فیصلہ قاضی صاحب اول پڑھ دیں اور اس کے بعد آپ کی ذہانت کی وجہ سے یوں ہوتا جیسے مسل کے تمام مندرجات اور مقدمہ کی تمام باریکیوں پر آپ کی نظر حاوی ہے۔
آپ کی وفات پر صدر انجمن احمدیہ کے ایک ممبر نے تعزیتی جلسہ میں یہ الفاظ کہے کہ جب میر صاحب اجلاس میں تشریف فرما ہوتے ہمیں پورا اطمینان ہوتا تھا کہ اب کوئی فیصلہ غلط نہیں ہوگا۔ کتنا شاندار تبصرہ تھا آپ کی قوت فیصلہ کے متعلق۔ پھر اس سے اچھی سند آپ کی ذہانت کی کیا ہوگی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ جیسے عالم و عاشق قرآن فرماتے ہیں کہ میں معترض کو دو منٹ میں خاموش کرسکتا ہوں لیکن جب میر صاحب مجلس میں ہوں تو میں بہت محتاط ہو جاتا ہوں۔
حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے فرمایا: میر صاحب مرحوم نہایت ذکی، فہیم اور صائب الرائے انسان تھے۔ مجھے ان پر اتنا اعتماد تھا کہ جس مجلس میں وہ موجود ہوتے میں اس میں بے فکر رہتا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ آج ہم جو فیصلہ کریں گے وہ درست ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں