حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2003ء میں حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ کا ذکر خیر مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپؓ 1867ء میں ارائیں قوم کے ایک متموّل خاندان میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔ بچپن قادیان کے قریب پھیروچچی گاؤں میں گزارا۔ وہیں پرائمری پاس کی۔ پہلی شادی قادیان کے ملحقہ گاؤں ننگل میں ہوئی۔ آپؓ وہاں سے اکثر قادیان جاتے تو مولوی محمد حسن صاحبؓ آپ کو تبلیغ کرتے۔ قریباً 1902ء میں آپؓ نے بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ آپؓ پھیروچچی کے پہلے احمدی تھے۔ پہلی شادی سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جبکہ دوسری شادی سے پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں ہوئیں۔
حضرت مولوی صاحب بہت دلیر طبع اور نڈر تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اس راہ میں کسی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
دریائے بیاس کے پار راجپورہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو کچھ زمین دی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ برسات کے موسم میں آپ سر پر آٹے کی بوری لے کر جب واپس اپنے گھر آرہے تھے تو گاؤں کا ایک اَور شخص بھی ہمراہ ہولیا۔ جب دونوں دریا میں اُترے تو طغیانی آئی ہوئی تھی۔ درمیان میں پہنچے تو ایسا زبردست ریلا آیا جس نے آپ ؓ کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ دوسرے آدمی نے کسی نہ کسی طرح دریا پار کر لیا لیکن آپؓ تیرتے ہوئے دریا میں ایک گڑھے تک پہنچ گئے جہاں موت یقینی تھی۔ آپؓ نے اُس وقت اپنے مولا سے درددل سے دعا کی کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ان کی ماں بھی کوئی نہیں، ان کا کیا بنے گا؟ تب کسی طاقتور وجود نے آپؓ کو وہاں سے اوپر اٹھالیا اور اس جگہ لاکر کھڑا کردیا جہاں زمین پر آپؓ کے قدم لگ گئے اور آپؓ بحفاظت کنارے پر آگئے۔ دوسرے آدمی نے گاؤں میں جاکر بتایا کہ آپؓ کو پانی بہالے گیا ہے تو گاؤں کے لوگ اُس گڑھے کی طرف آئے تاکہ آپ کی لاش ہی پکڑ سکیں ۔ لیکن آپؓ کو سامنے زندہ پاکر وہ بھی حیران ہوئے کیونکہ سب کے نزدیک آپؓ کی موت یقینی تھی۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو سلسلہ کی بہت سی خدمات کا شرف حاصل ہوا۔ 1932ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے سندھ میں زمینیں خریدیں تو آپ کو نگران بناکر سندھ بھیج دیا۔ یہیں 9؍جون 1957ء کو وفات پائی۔ ایک مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی محنت، بہادری اور صبر کا نہایت محبت سے ذکر فرمایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں