حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ 2007ء میں حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ آف پیرکوٹ کے مختصر حالاتِ زندگی شاملِ اشاعت ہیں۔
حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ کھوکھر قوم کے زمیندار تھے اور موضع پیرکوٹ ضلع حافظ آباد میں تقریباً دو سو ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ آپؓ عربی اور فارسی علوم کے ماہر اور فن طبابت میں ایک حاذق طبیب تھے۔ پھر ذاتی وجاہت اور حسن اخلاق کی وجہ سے آپ اس تمام علاقہ میں بڑے بارسوخ اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے خسر تھے۔
آپؓ دعویٰ مسیحیت سے پہلے ہی حضرت مسیح موعودؑ کے دوست تھے۔ جب ’’براہین احمدیہ‘‘ کا پہلا اشتہار شائع ہوا تو اس وقت آپ مظفرگڑھ میں ابتدائی بندوبست کے تاریخ نویس تھے۔ چنانچہ آپؓ اور آپؓ کے دیگر دوستوں نے کتاب کی پیشگی رقم قادیان روانہ کی۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں درج معاونین کی فہرست میں آپؓ کانام موجود ہے۔ قدیم تعلق کی وجہ سے آپؓ اول فرصت میں حضور کی بیعت میں داخل ہوگئے۔ حضورؑ جب اپنی شادی کے لئے دہلی تشریف لے گئے تو اس موقع پر حضورؑ نے جن احباب کو اپنی برات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی ان میں ایک آپؓ بھی تھے لیکن کسی معذوری کی وجہ سے آپ شامل نہ ہوسکے۔
آپؓ کی نظر موتیا کی وجہ سے بعد میں خراب ہوگئی تھی۔ آپ نے حضورؑ کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر فرمایا۔ چنانچہ حضور اقدسؑ نے آپ کے لئے اور اسی عارضہ سے معذور دو اَور دوستوں کے لئے دعا کی۔ خدا تعالیٰ کی حکمت کہ حضورؑ کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ دعا مولوی صاحب کے حق میں قبول نہیں ہوئی مگر دوسرے دو افراد کے لئے قبول ہوگئی ہے۔ حضور نے جب حضرت مولوی صاحب کو اس منشائے ایزدی سے مطلع فرمایا تو ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس شخص کی دونوں آنکھوں کی بینائی کھو جائے اور وہ خدا تعالیٰ کے لئے صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے جنت کا وارث بناتا ہے۔ اس کے بعد اگرچہ آپ کے دوستوں اور رشتہ داروں نے کئی دفعہ اپریشن کرانے کے لئے کہا مگر آپ نے پھر آنکھوں کا علاج نہیں کرایا اور نہایت صبر و استقلال سے اس تکلیف کو برداشت کرتے رہے۔
آپ ایک مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ صلہ رحمی، اطاعت والدین، ہمدردی مخلوق اور اکرام ضیف جیسے اعلیٰ اخلاق سے متصف تھے۔ صلہ رحمی کا جذبہ یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ اپنی ذاتی اور زرخرید جائیداد میں اپنے تینوں بھائیوں کو بھی برابر کا حصہ دار بنایا ہوا تھا۔ تبلیغ کا بھی جوش تھا اور آپؓ کے اخلاق حسنہ دیکھ کر اکثر رشتہ داروں اور علاقے کے دیگر افراد نے احمدیت قبول کرلی تھی۔ آپؓ کے پانچ بیٹے بھی اصحاب احمدؑ میں شامل تھے۔
آپؓ نے 17 مارچ 1904ء کو وفات پائی۔ بعد میں ایک موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ’’منشی جلال الدین (آف بلانی ضلع گجرات یکے از 313 وفات 1902ٰء۔ ناقل) بھی بڑے مخلص تھے اور ان کے ہم نام پیرکوٹ والے بھی۔ دونوں میں سے ہم کسی کو ترجیح نہیں دے سکتے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں