حضرت مولوی برہان الدین جہلمی صاحبؓ

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے بارہ میں اسی کالم میں (11؍اگست 1995ء کے شمارہ میں) ذکرخیر ہوچکا ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جولائی 2001ء میں آپؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم مولانا محمد منور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس میں بیان شدہ بعض زائد امور ذیل میں پیش ہیں:-
حضرت مولوی برہان الدین جہلمی صاحبؓ کو علم حدیث، تفسیر، فقہ، نحو اور طب یونانی میں خاص دسترس حاصل تھی اور آپؓ اردو، فارسی، عربی، پشتو اور پنجابی میں بلاتکلّف گفتگو کرسکتے تھے۔ آپؓ نے کئی علماء کو حدیث کا علم سکھایا۔ لیکن آپؓ حددرجہ کے منکسرالمزاج تھے۔ روحانی استفادہ کے لئے پہلے باولی شریف کے بزرگوں کے پاس پہنچے، پھر کئی سال حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی صحبت سے فیض اٹھایا، پھر حضرت پیر صاحب کوٹھہ شریف کی مریدی اختیار کی لیکن روحانی تسکین نہ ہوئی۔ جب ’’براہین احمدیہ‘‘ آپ کی نظر سے گزری تو اسے پڑھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ 1886ء میں آپ قادیان پہنچے لیکن حضورؑ اُس وقت ہوشیارپور میں مقیم تھے۔ پھر آپؓ ہوشیارپور پہنچے اور حضورؑ کی رہائشگاہ کا بڑی مشکل سے پتہ چلایا۔ وہاں پہنچ کر خادم کے ذریعہ اپنے نام اور مقصد سے اندر اطلاع بھجوائی۔ جب خادم اندر گیا تو آپ کو فارسی میں الہام ہوا کہ آپ نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں، اب یہاں سے نہ ہٹیں۔
خادم نے واپس آکر عدم فرصتی کی معذرت کی کہ پھر کسی وقت تشریف لائیں لیکن آپ نے کہا کہ میرا گھر دُور ہے اس لئے دروازہ پر ہی بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں۔ اس پر خادم پھر اندر گیا تو اندر حضورؑ کو عربی میں الہام ہوا کہ مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنی چاہئے۔ چنانچہ حضورؑ نے مہمان کو اندر لانے کی تاکید کی۔ آپ اندر آئے تو حضورؑ بہت خندہ پیشانی سے ملے۔ آپ نے چند روز وہاں قیام کیا اور حضورؑ کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ پھر حضورؑ سے بیعت کے لئے درخواست کی لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ مجھے بیعت لینے کا حکم نہیں ملا۔
جب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ مسیحیت پر کفر کا فتویٰ لکھا اور اس پر قریباً دو سو مولویوں نے دستخط کئے تو حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے بھی مشروط فتویٰ لکھا لیکن جلد ہی حضورؑ کی کتب پڑھنے کے بعد اپنے فتویٰ سے رجوع کرلیا اور اس کا اعلان بھی کردیا۔ لیکن بٹالوی صاحب نے پہلے فتویٰ کی اشاعت ترک نہ کی۔ اس پر آپ نے انہیں ایک سخت خط لکھا کہ مجھ پر حق کھل گیا ہے۔ آپ صرف مغلوب النفسی کی وجہ سے پرانی باتیں شائع کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر دوسرا آدمی مغلوب الغیرت ہوکر برابر کا جواب دینے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
بیعت کرلینے کے بعد آپؓ اکثر قادیان جایا کرتے۔ آپؓ وہاں زائرین کو دعوت الی اللہ کرتے، طباعت کے کام میں مدد دیتے اور پروف ریڈنگ کرتے۔ حضورؑ فرمایا کرتے ’’مجھے آپؓ کے آنے سے آرام ملتا ہے‘‘۔ ایک بار حضورؑ کے ارشاد پر آپؓ نے خطبہ بھی دیا۔
آپؓ کی فدائیت بے مثال تھی۔ حضورؑ جب سیر سے واپس آتے تو آپؓ اپنے کندھے والی چادر سے حضورؑ کی نعلین مبارک صاف کردیتے۔
قبول احمدیت کے بعد مخالفین نے آپؓ کو بہت ایذا پہنچائی اور آپؓ کی مالی حالت بھی بہت خراب ہوگئی۔ ایک بار سیالکوٹ میں کسی عورت نے چھت سے حضورؑ پر راکھ پھینکی جو آپؓ پر گری۔ اس پر آپؓ نے عالمِ محویت میں کہا: ’’پا اے مائیں پا‘‘۔ اسی طرح بعض شریروں نے آپکے منہ میں زبردستی گوبر ٹھونس دیا تو آپؓ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا’’او برہانا! ایہہ نعمتاں کیتھوں‘‘۔
عشق کے اسی بلند مقام کا ذکر حضورؑ نے اپنے ایک عربی شعر میں کیا ہے جس کا ترجمہ ہے: ’’اے میرے پیارے ربّ! تیری راہ میں جو مصائب و ابتلاء آتے ہیں، ان میں بھی ہم راحت و آرام پاتے ہیں اور وہ ہماری مسکراہٹیں ہم سے نہیں چھین سکتے۔‘‘
3؍دسمبر 1905ء کو آپؓ کی وفات جہلم میں ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کی وفات پر فرمایا: ’’ان کو ایک فقر کی چاشنی تھی۔ …ایک سوزش اور جذب ان کے اندر تھا اور ہمارے ساتھ ایک مناسبت رکھتے تھے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں