حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍جون 2006ء میں مکرم عبدالحلیم سحر صاحب کے قلم سے حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے جو دراصل ایسے ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہے جو مضمون نگار نے حضرت مولوی صاحب سے سنے ہوئے ہیں۔ قبل ازیں اسی کالم کے متعدد مضامین میں آپ کا مختصر ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔
مولوی نذیر احمد مبشر صاحب کو وقف کرنے کی نیت آپ کے والد محترم نے آپ کی پیدائش سے قبل ہی کی ہوئی تھی۔ چنانچہ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کروادیا گیا۔ 1930ء میں جامعہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان دینے کے بعد آپ کو سیالکوٹ کے دورہ پر بھجوایا گیا جہاں ایک روز ظہر کی نماز کے آخری سجدہ میں آپ کو آواز آئی: ’’نذیر احمد پاس‘‘۔ اسی قسم کا کشف آپ کے والد صاحب نے بھی دیکھا اور اُنہیں ایک تختی پر یہی الفاظ لکھے ہوئے دکھائے گئے۔
1935ء میں حضرت مولوی صاحب اپنے والد محترم کی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلہ میں ڈسکہ ہسپتال میں تھے جب اخبار الفضل میں حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کی طرف سے یہ اعلان شائع ہوا کہ گولڈکوسٹ (غانا) میں ایک مولوی فاضل کی ضرورت ہے جو افریقن مربیان کی تربیت کرے، اُسے معمولی گزارہ دیا جائے گا۔ آپ نے یہ اعلان پڑھا تو حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کو لکھ دیا کہ مَیں بلاشرط جانے کے لئے تیار ہوں۔ جب حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے آپ کی چٹھی پیش ہوئی تو حضورؓ نے حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ سے فرمایا کہ انہیں لے جائیں کیونکہ شرط لگانے والے کام نہیں کیا کرتے۔ چنانچہ آپ نے پاسپورٹ بنوایا اور 2؍فروری 1936ء کو حضرت مولوی صاحبؓ کے ہمراہ قادیان سے روانہ ہوئے۔
سفر کے دوران قاہرہ میں بھی قیام کیا۔ آپ وہاں جامعہ ازہر بھی تشریف لے گئے اور ایک طالبعلم سے عربی میں گفتگو کی۔ اُس کے پوچھنے پر بتایا کہ آپ نے عربی ہندوستان کے ایک گاؤں قادیان سے سیکھی ہے۔ اس پر اُس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو علمی عربی بولتے ہیں۔
افریقہ پہنچے تو چونکہ آپ کو اپنے گزراوقات کا سامان خود کرنا تھا چنانچہ آپ نے اپنے والد صاحب سے کچھ کھیلوں کا سامان منگوایا اور کچھ دوائیں بھی منگوائیں جنہیں فروخت کرکے اپنا گزارہ کرتے اور سارا دن دعوت الی اللہ بھی کرتے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ آپ کی روانگی کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے اشارۃً آپ کو تجارت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت میں اتنی برکت ڈالی کہ 1937ء میں جب حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ کا تبادلہ سیرالیون میں ہوا تو اُن کے کرایہ جہاز اور دیگر اخراجات کی ساٹھ پاؤنڈ کی رقم اسی تجارت کی آمدنی سے ادا کی۔ حضرت مولوی صاحب کی روانگی کے وقت آپ کو فکر ہوئی کیونکہ آپ کی انگریزی کمزور تھی اور غانا میں سکولوں کے انتظام کے سلسلہ میں حکومت سے انگریزی میں خط وکتابت ہوا کرتی تھی۔ جب آپ نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ کا سونٹا تو بے جان تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس سے کام لے لیا۔ آپ تو خدا کے فضل سے عالم ہیں، اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور کام لے گا۔
اسی دوران ایک پیراماؤنٹ چیف نے بیس احمدیوں کو دعوت الی اللہ کے الزام میں قید کردیا تو مولوی صاحب نے آپ کو پیراماؤنٹ چیف کے پاس دو مترجمین کے ہمراہ بھجوادیا۔ چیف پڑھالکھا تھا۔ اُس نے آپ سے کہا کہ تبلیغ کرنے والے اَن پڑھ لوگ ہیں اس لئے انہیں دعوت الی اللہ کا کوئی حق نہیں۔ آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا زمینداروں کے دماغ اچھے ہوتے ہیں یا مچھیروں کے؟ چیف نے جواب دیا کہ زمینداروں کے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک نبی کے شاگرد اَن پڑھ مچھیرے تھے اگر اُنہیں تبلیغ کا حق تھا تو آپ کی چیفڈم کے زمینداروں کو کیوں نہیں۔ اس پر چیف خاموش ہوگیا اور احمدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔
حضرت مولوی نذیر احمد مبشر صاحب نے 270 صفحات پر مشتمل اختلافی مسائل سے متعلق عربی میں ایک کتاب

’’القول الصریح فی ظہورالمہدی والمسیح‘‘

تصنیف فرمائی جو افریقہ اور عرب ممالک میں بہت پسند کی گئی۔
ایک بار آپ نے ایک خواب دیکھا کہ ایک سانپ نکلا ہے اور دوسری جگہ غائب ہوگیا ہے۔ اگلی دوپہر دوبارہ خواب میں سانپ دیکھا جسے آپ نے بھون دیا۔ چند روز بعد اس خواب کی تعبیر سامنے آئی کہ ایک مخالف احمدیت جماعت نے احمدیہ سکول کے ایک استاد کو اپنے ساتھ ملاکر ایک خطرناک سکیم بنائی تھی جو اللہ تعالیٰ نے بروقت ناکام کردی۔
ایک بار آپ نیکر بنیان پہنے مشن ہاؤس کی کیاریاں درست کر رہے تھے کہ سوٹ میں ملبوس ایک پادری وہاں آیا اور آپ کو مالی وغیرہ سمجھتے ہوئے آپ سے کہا کہ وہ مولوی نذیر احمد مبشر سے ملنا چاہتا ہے۔ آپ نے جواباً کہا کہ مَیں ہی ہوں۔ وہ بے ساختہ بولا: Very Great۔ لیکن پھر آپ کے روکنے کے باوجود وہ واپس چل دیا اور کہا کہ اگر اتنا عالم فاضل ہوکر بھی یہ مبلغ اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرتا ہے تو مَیں اس سے بحث نہیں کرسکتا۔
غانا میں علاقہ اشانٹی میں کچھ فتنہ انگیزوں نے جماعتی نظام کو خراب کرنا چاہا تو حضرت مولوی نذیر احمد مبشر صاحب نے اُن کو جاکر سمجھایا لیکن حالات تبدیل نہ ہوئے۔ ایک رات آپ نے خواب میں کچھ سانپ دیکھے اور پھر اُن سانپوں کو انسانوں میں تبدیل کرکے دکھایا گیا جس سے آپ فتنہ پردازوں کو پہچان گئے اور فتنہ کا ازالہ کرنے کی توفیق بھی مل گئی۔
جنگ عظیم دوم کے دوران عام تجارت ختم ہوگئی۔ آپ کی جمع شدہ رقم مجلس عاملہ نے آپ سے ادہار لے لی۔ لوکل مربیان کی تنخواہیں کم کردی گئیں۔ آپ ہر سہ ماہی ایک سرکلر جاری کرتے کہ ہر مرد ایک شلنگ اور ہر عورت چھ پینس چندہ ادا کرے۔ اس چندہ سے جماعت کے معمولی اخراجات ادا کئے جاتے۔ آپ کی تجارت بھی بند ہوچکی تھی۔ آپ اُس دَور میں ناشتہ نہ کرتے۔ دوپہر کو ایک پودا کساوا اُبال کر نمک مرچ ڈال کر کھالیتے۔ آپ کو علم نہیں تھا کہ اس پودے کے ساتھ مچھلی کا گوشت ضرور کھانا چاہئے۔ یہ بھی تھا کہ آپ کو مچھلی خریدنے کی استطاعت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ کساوا کے مسلسل استعمال سے آپ کے جسم پر خارش اور پھنسیاں نکل آئیں۔ حالت اتنی خراب ہوگئی کہ ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔
1939ء میں آگونا سرکٹ کے چیف رئیس نے آپ کو بتایا کہ مکّہ سے ہوکر آنے والا ایک نوجوان احمدیت کی بہت مخالفت کر رہا ہے۔ اُس کے اصرار پر آپ اُس کے علاقہ میں گئے اور ظہور مہدی پر لیکچر دے کر واپس آگئے۔ لیکن مخالفین نے وہاں بہت شور ڈالا کہ مہدی اگر آگیا ہے تو زلزلہ کیوں نہیں آیا جو کہ مہدی کے آنے کی نشانی ہے۔ جب شور بہت بڑھا تو آپ نے وہاں مختلف مقامات پر جلسے کرنے کا ارشاد فرمایا اور مخالفین کو کہا کہ اگر تم زلزلوں کے خواہشمند ہو تو اللہ تعالیٰ وہ بھی بھیج دے گا۔ آپ نے خاص طور پر دعا بھی شروع کی۔ ابھی دو جلسے ہی ہوئے تھے کہ تیسرے مقام پر جلسہ سے قبل عشاء کے بعد شدید زلزلہ آیا کہ ساری رات لوگ کھلے میدانوں میں بیٹھے رہے اور گھروں میں واپس نہ گئے۔ اس سے اگلے ہی روز مخالفین نے گانا شروع کردیا کہ مسیح آگیا ہے کیونکہ زلزلہ آگیا ہے۔ آپ کو دیکھ کر لوگ کہتے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ اس ملک میں زلزلہ آئے گا۔
1941ء میں آپ دریا کے پار گھنے جنگل میں واقع ایک گاؤں میں تربیتی پروگرام کے لئے گئے۔ ایک نوجوان بطور گائیڈ آپ کے ہمراہ تھا۔ واپسی پر وہ راستہ بھول گیا اور ایک جگہ آپ کو بٹھاکر راستہ ڈھونڈنے نکلا۔ اسی اثناء میں خنجر لئے ایک نائیجیرین وہاں پہنچا جس کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ اُس نے آپ سے پوچھا کہ لوگ کہاں ہیں۔ آپ نے اونچی آواز میں جواب دیا کہ یہیں ہیں۔ اُسی وقت احمدی گائیڈ ایک طرف سے نمودار ہوا تو حملہ آور واپس جنگل میں بھاگ گیا۔ بعد میں یہ حملہ آور احمدی ہوگیا اور آپ نے اُس سے احمدیہ مسجد میں بھی ملاقات کی۔
25؍ستمبر 1942ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’مولوی نذیر احمد مبشر سیالکوٹی آجکل گولڈکوسٹ میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں، جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ دعوت الی اللہ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کا رخصتانہ بھی نہ کرسکے۔‘‘
ایک بار احمدیہ اساتذہ نے آپ سے تعلیم یافتہ افراد کو ایک لیکچر دینے کے لئے کہا۔ آپ نے کہا کہ میری انگریزی اچھی نہیں ہے، گاؤں کے لوگوں کے سامنے تو لیکچر دے سکتا ہوں لیکن تعلیم یافتہ افراد کے سامنے بہت مشکل ہے۔ جب دوسروں نے اصرار کیا تو آپ نے ایک ہفتہ دعا کرنے کے بعد آمادگی ظاہر کردی۔ اس لیکچر کے لئے دعوت نامے جاری کئے گئے۔ آپ نے ڈیڑھ گھنٹہ انگریزی میں لیکچر دیا۔ پھر ایک گھنٹہ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ بہت کامیاب پروگرام تھا جس کا اظہار مقامی چرچ میں اتوار کی عبادتگاہ کے وقت کیا گیا۔ یہ لیکچر ریویو آف ریلیجنز نومبر 1943ء میں Which is the universal Religion کے عنوان سے شائع ہوا۔
1943ء میں ٹاکوراڈی بندرگاہ کے نزدیک ایک گاؤں میں ہاؤسا قوم سے تعلق رکھنے والے ایک غیراحمدی معلم داؤد کے ساتھ حضرت مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا۔ وہ صرف فتنہ برپا کرنا چاہتا تھا۔ اسی جوش میں اُس نے احمدیوں کے جنرل سیکرٹری کو تھپڑ بھی مار دیا۔ لیکن مناظرہ میں شکست کھاکر جب وہ واپس اپنے گاؤں پہنچا تو اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور چند روز میں وہ ہلاک ہوگیا۔
حضرت مولوی صاحب 14؍ستمبر 1946ء کو غانا سے واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ شدید مالی تنگی تھی۔احمدیوں نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر آپ کو الوداع کہا اور راستہ کے اخراجات کے لئے پچاس پاؤنڈ پیش کئے لیکن آپ نے لینے سے انکار کردیا۔ جماعت کے بار بار اصرار پر پھر یہ رقم لے لی۔ واپسی کا سفر بہت دشوار گزار تھا۔ راستہ میں کئی کئی دن پانی نہیں ملتا تھا۔ لوگ اپنے ساتھ مشکیزہ رکھتے تھے۔ بدقسمتی سے آپ کا مشکیزہ چوری ہوگیا تو آپ پیاس سے نڈھال ہوگئے۔ سامان میں دودھ کی ایک بوتل پڑی تھی، اُس کی موجودگی غنیمت ثابت ہوئی۔ خشکی کا سفر شام چار بجے شروع ہوتا اور اگلے روز دس بجے تک جاری رہتا۔ پھر گرمی کی وجہ سے سفر کرنا ممکن نہ رہتا۔ آپ ٹوگولینڈ، ڈھومی، نائیجیریا، کیمرون، چاڈ سے ہوتے ہوئے سوڈان پہنچے۔ وہاں سے بذریعہ بحری جہاز 31؍اکتوبر کو جدہ پہنچے۔ پہلے مکہ جاکر فریضۂ حج ادا کیا۔ پھر واپس جدہ آکر جہاز کا انتظار کرنے لگے۔ چونکہ رقم کافی نہ تھی اس لئے صرف ایک وقت کھانا کھاتے۔ 26؍دسمبر کو جہاز ملا۔ سفر شروع ہوا تو سمندر میں بہت طوفان تھا۔ کئی مسافروں کے ساتھ آپ بھی بیمار ہوگئے۔ اس جہاز کے طوفان میں غرق ہونے کی افواہ بھی پھیلی۔ لیکن آخر مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد یہ جہاز کراچی پہنچ گیا۔ وہاں سے آپ بذریعہ ٹرین بٹالہ پہنچے اور 7؍جنوری 1947ء کو قادیان پہنچ گئے۔ احمدیوں کی کثیر تعداد استقبال کے لئے موجود تھی۔ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ؓ نے آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کی کار میں بٹھایا اور دارالضیافت لے گئے۔ اگلے روز آپ نے حضورؓ سے ملاقات کی تو پچاس پاؤنڈ کی وہ رقم جو جماعت غانا نے آپ کو دی تھی، وہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کردی جو حضورؓ نے جماعتی اخراجات کے لئے وکیل التبشیر صاحب کو دیدی۔ 13؍جنوری کو مدرسہ احمدیہ کی طرف سے مولوی صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: وہ قومیں جن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے اُنہیں یہ سعادت حاصل نہیں اور مولوی نذیر احمد مبشر صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت مولوی صاحب کا نکاح جنوری 1928ء میں محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ سے ہوا تھا۔ جب گیارہ سال کی دعوت الی اللہ کے بعد آپ واپس آئے تو آپ کے بال سفید ہوچکے تھے۔ 1947ء میں آپ کی شادی ہوئی۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ نے مضمون نگار کو بتایا کہ آپ اپنے کمرہ میں پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے باتیں شرع کردیں کہ اے اللہ! مولوی نذیر احمد مبشر جب بارہ سال کا تھا تو اُس وقت سے نماز تہجد باقاعدگی سے پڑھ رہا ہے اور آج تک کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ تیری توفیق اور فضل سے فرض نمازیں بھی باجماعت اور باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ تیرے پیارے دین کی خدمت کی بھی توفیق ملی اور قدم قدم پر تیرے فضلوں کے نظارے بھی دیکھے۔ تیری عزت کے نظارے بھی دیکھے۔جو دعا بھی مانگی تُو نے قبول کی، جو مانگا، تُو نے دیا۔ میری زندگی تو ساری کی ساری تیرے اور تیرے دین کیلئے ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی اپنا دیدار تو کروا۔ یہ الفاظ مکمل ہوئے ہی تھے کہ سامنے کی کھڑکی سے روشنی کا ایک ہیولہ سا آیا جو اتنا طاقتور اور روشن تھا کہ آپ پلنگ سے اچھل کر زمین پر گرگئے اور آدھ گھنٹہ تک بے ہوش رہے۔ جب تھوڑا ہوش آیا تو زور زور سے کہنے لگے: بس اللہ میاں! بس۔
مضمون نگار کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک روز حضرت مولوی صاحب کے پاؤں میں پرانی سی چپلی دیکھی تو کہا کہ اب تو اس کو نئی چپلی سے بدل لیں۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ اسے پہن کر سامنے میدان سے چکر لگاکر آئیں۔ میرے واپس آنے پر پوچھا کہ کوئی تکلیف یا دقّت تو نہیں ہوئی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کہ اس جوتی میں کیا نقص ہے، مَیں تو یہی پہنوں گا۔
اگرچہ آپ کو جماعتی نظام کے تحت کار استعمال کرنے کی سہولت حاصل تھی لیکن آپ یہی کوشش کیا کرتے تھے کہ پیدل ہی دفتر آیا جایا کریں۔ گویا ہرممکن سادگی سے زندگی بسر کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں