حضرت مولانا عبد المالک خان صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29 و 30جون 2005ء اور 2؍جولائی 2005ء میں حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم کی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی ہے جو آپ نے مئی 1968ء میں قلمبند فرمائی تھی۔
آپ بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ 1900ء میں احمدی ہوئے۔ پہلے سرکاری محکمہ آبکاری میں ملازم تھے پھر نواب رامپور حامد علی خان صاحب نے ان کی خدمات کو اپنی ریاست کے لئے طلب کر لیا اور 1920ء تک آپ وہاں محکمہ آبکاری کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔ اکثر مذہبی بحث مباحثہ بھی دربار میں رہتا تھا۔ نواب صاحب کو میرے والد صاحب سے خاص الفت تھی اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کے وہ اس درجہ قائل تھے کہ وفات سے ایک ماہ پیشتر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کو تار دے کر میرے والد صاحب کو قادیان سے اپنے پاس بلوالیا کہ وہ دوا وغیرہ ان کو پلایا کریں۔
میرے والد صاحب نے چار شادیاں کیں۔ میں تیسری والدہ کا لڑکا ہوں، میری والدہ سے ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ دونوں مجھ سے بڑے ہیں۔ میری والدہ حضرت کلثومؓ میرٹھ کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے 1905ء میں بیعت کی تھی۔ وہ حافظ قرآن تھیں اور اکثر اوقات تلاوت میں مصروف رہتیں۔ دین سے بےحد لگاؤ تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ میں خواب دیکھ کر احمدی ہوئی اور جس دن سے احمدی ہوئی مجھے قرآن کریم پڑھنے کا شوق بہت بڑھ گیا۔ محلہ کی بہت سی لڑکیوں کو بھی پڑھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ اور قرآن و احادیث کی دعائیں اکثر سناتی تھیں۔ میں نے اُن کو کبھی نماز بےوقت پڑھتے نہیں دیکھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا درس سننے پیدل دارالفضل سے شہر جاتیں۔ حضورؓ نے کئی بار مجھے اور میرے والد کو فرمایا کہ میری والدہ بہت نیک اور پارسا خدا پرست عورت ہیں اور اس وجہ سے اس کی اولاد کو خدا نے کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین کا موقعہ دیا ہے۔ 31 دسمبر 1929ء کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔ وفات سے ایک ہفتہ پیشتر والد صاحب کو بلا کر وصیت کا حساب سمجھایا اور سب وصیت ادا کروادی۔ میری دوسری والدہ کو بلا کر میری بہن کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا سب سامان جہیز کا تیار ہے اس کی شادی کر دینا۔ … حضرت مصلح موعودؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ تک تشریف لے گئے۔ میرے والد صاحب 26 فروری 1954ء میں فوت ہوئے۔ میں نے اپنے والدین کو تہجد قضا کرتے نہیں دیکھا۔ جب کبھی رات کے اخیر حصہ میں آنکھ کھلی ان کو نماز پڑھتے پایا۔
1920ء میں جبکہ میری عمر آٹھ سال تھی، والد صاحب ہم سب کو لے کر قادیان دارالامان مستقل سکونت کے لئے چلے آئے۔ میں تیسری جماعت میں داخل ہوا۔ پانچویں میں تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں جماعت کو اپنے بچے دین کے لئے وقف کرنے کی تحریک کی۔ میرے والدین نے میرا بازو پکڑا اور حضور کی خدمت میں پیش کر دیا اور میں ہائی سکول کو خیر باد کہہ کر مدرسہ احمدیہ میں داخل کر دیا گیا۔
طالب علمی میں میرا شمار اچھے طلباء میں رہا۔ کھیل کا بھی بہت شوق تھا اور عمدہ کھلاڑیوں میں میرا شمار تھا۔ جامعہ احمدیہ کی فٹ بال ٹیم کا ایک سال تک کیپٹن رہا۔ گورداسپور اولمپک گیمز میں ضلع کا فٹ بال کا بہترین کھلاڑی منتخب ہوا۔ پھر ہاکی ٹیم کا بھی ایک سال تک کیپٹن رہا۔ والی بال کی فرسٹ الیون میں رہا۔ ایتھلیٹکس میں بھی اکثر انعام ملتا۔ تیراک بھی بہت اچھا تھا۔ فٹ بال کھیلتے ہوئے بائیں بازو کی ہڈی بھی ٹوٹی۔
ہمارے محلہ میں ایک کلب بنایا گیا جس کے بانی و سرپرست ماسٹر علی محمد صاحب تھے۔ ہر جمعہ کے دن ہماری میٹنگ بلاتے اور اس میں تقاریر کراتے۔ ماسٹر عبد الرحمان صاحب سابق مہر سنگھ بھی ہمارے اساتذہ میں سے تھے اور پڑوسی تھے۔ نمازوں میں باقاعدہ لے جاتے۔ اکثر مغرب کی نماز کے وقت جو لڑکا کھیلتا رہتا اس کو بہت تنبیہ کرتے کہ ہم میں سے جونہی کوئی انہیں آتا دیکھتا تو مسجد کی طرف رُخ کر لیتا۔ انہوں نے ہم کو بچپن سے نمازوں کا عادی بنایا۔
حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ مربیان کو پڑھاتے تھے تو مجھے بہت خواہش ہوتی کہ میں بھی کبھی ان سے پڑھوں اور خدا تعالیٰ مجھے مربی بنا دے۔ 1929ء میں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت اعلیٰ نمبروں پر کامیاب کرکے مَیں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوا۔ مجھے فارسی، اردو کے اشعار والد صاحب پڑھایا کرتے تھے۔
1928ء میں قادیان میں ریل گاڑی آئی تو ہم بچے وڈالہ نتھیاں تک پیدل گئے، وہاں سے بیٹھ کر آئے۔ بارش کے دنوں میں قادیان جزیرہ نما سا بن جاتا۔ شہتیروں کو جوڑ کر ہم لوگ کشتیاں بنا لیتے اور شہر جانے والوں کو دارالعلوم سے ریتی چھلّہ پار کراتے۔
بچپن میں دعا کی طرف توجہ مجھے والدہ صاحبہ نے بہت دلائی۔ پھر مجھے ماسٹر عبدالرحمان صاحبؓ سابق مہر سنگھ کے ساتھ مدرسہ احمدیہ پڑھنے کے لئے دارالفضل سے آنا جانا پڑتا۔ وہ بھی دعا کے واقعات سناتے۔ ایک بار سکول جاتے ہوئے اُن کی اہلیہ نے مجھے اپنی سونے کی انگوٹھی مرمت کروانے کیلئے دی۔ سکول سے واپسی پر قادیان کے قریبی گاؤں میں ایک مناظرہ تھا، ہم ماسٹر صاحبؓ کے ہمراہ وہاں گئے۔ مغرب کی نماز واپسی کے راستہ میں ادا کی۔ گھر پہنچ کر اُن کی اہلیہ نے انگوٹھی کی بابت دریافت کیا۔ تمام جیبیں دیکھیں، کہیں نہ ملی۔ ماسٹر صاحبؓ نے فرمایا آؤ خدا سے دعا کریں۔ چنانچہ میں بھی آپؓ کے ساتھ دعا میں شریک ہوگیا اور دو نفل ادا کئے۔ جب نفل ختم کرکے مصلّٰی لپیٹا تو نیچے سے انگوٹھی ملی۔ جو خوشی اس وقت مجھے ہوئی وہ میں بتا نہیں سکتا اور خدا کی ہستی پر زندہ یقین ان واقعات سے بچپن میں ان بزرگوں کے طفیل نصیب ہوا۔
1931ء میں جب میرے والد صاحب کو نواب صاحب رامپور نے طلب کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے دینی مصالح کے ماتحت انہیں رامپور جانے کی اجازت دیدی۔ مجھے بھی والد صاحب اپنے ہمراہ لے گئے۔ اس طرح میری تعلیم ایک سال کے لئے رُک گئی۔ قادیان کی یاد بے حد ستاتی اور رامپور کا ماحول قطعاً مجھے پسند نہ آیا۔ وہاں مشہور مدرسہ عالیہ تھا لیکن طرز تعلیم مجھے قطعاً پسند نہ آئی۔ مَیں نے اپنے والد کو لمبے لمبے خط لکھے اور اپنی حالت سے آگاہ کیا۔ آخر مَیں قادیان چلا آیا، میرے ساتھ میرے دو بھائی بھی چلے آئے تھے۔ 1932 ء میں مولوی فاضل کا امتحان بہت اچھے نمبروں میں پاس کیا۔ امتحان سے چار ماہ پہلے سے مَیں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر پڑھائی شروع کی۔ ہم روزانہ 16سے 18 گھنٹے پڑھتے تھے۔ امتحان دینے کے بعد خاکسار کو والد صاحب نے رامپور بلا لیا تھا۔ وہیں مجھے حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے مولوی فاضل میں کامیابی کی مبارکباد بذریعہ تار ملی۔
انہی دنوں نواب صاحب رامپور سے ملنے کسی عرب ملک کے ایک مجلہ کا مدیر آیا۔ ریاست کے مہمانوں کے انتظامات کے نگران والد صاحب تھے۔ یہ عرب ہمارے مکان پر بھی تشریف لائے۔ دوران گفتگو اُن کو ہمارے احمدی ہونے کا معلوم ہوا تو وہ احمدیت کے خلاف بولنے لگے اور یہ بھی کہا کہ آپ نے اس وجہ سے احمدیت سے متاثر ہو کر قبول کیا ہے کہ آپ عربی نہیں جانتے، ہم لوگ اہل زبان ہیں اس لئے حقیقت حال ہم سمجھتے ہیں۔ والد صاحب نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ بار بار اپنی عربی دانی کا رعب ڈالتا رہا۔ اس پر والد صاحب نے مجھے بلاکر اُن سے عربی میں گفتگو کرنے کا ارشاد فرمایا۔ میرے ساتھ حیات وممات مسیح علیہ السلام پر گفتگو چلی تو اس نے پوچھا کہ آپ نے عربی کہاں سے سیکھی ہے؟ میں نے کہا کہ قادیان میں۔ وہ خاصّہ متاثر تھا۔ میں نے اسے حضرت مسیح موعودؑ کا وہ چیلنج جو کلمہ توفّی کے متعلق آپ نے ازالہ اوہام میں پیش کیا ہے، دہرایا اور مطالبہ کیا کہ آپ اہل زبان ہیں، اس کا جواب دیں۔ وہ لاجواب ہوکر کھسیانا سا ہورہا۔
حیدرآباد میں میرے بڑے بھائی پولیس میں ملازم تھے۔ مجھے پانچ روپے کی فوری ضرورت لاحق ہوئی تواُن سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل انتظام کردوں گا۔ کیونکہ ضرورت فوری تھی اس لئے مجھے سخت قلق ہوا اور رات بھر نیند نہ آئی۔ صبح میں نے یہ ارادہ کیا کہ مجھے کام تلاش کرنا چاہئے۔ پھر بہت لوگوں کے توسط اور بڑی کوشش سے عربی کی تدریس کے لئے ایک جگہ مقرر ہوا۔ اس وقت کے لحاظ سے خاصی تنخواہ تھی۔ ملازمت کا کاغذ گھر لاکر بھائیوں کو دکھا یا اور اپنے والد صاحب کو رامپور اطلاع دی تو تیسرے دن اُن کا خط آیا کہ میں نے تم کو مولوی فاضل اس لئے کرایا تھا کہ تم دین کی خدمت کرو اور یہی تمہاری مرحومہ والدہ کی خواہش تھی، اب تم جوان ہو میں نے اپنی خواہش اور منشا کا اظہار کر دیا تم جس طرح چاہو کرو۔ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگیا۔ اِدھر ملازمت معقول اور ترقی کے امکانات تھے اُدھر والدین کی خواہش کا احترام۔ وہ رات بھی دعا کرتے گزری۔ صبح دفتر جاکر افسر سے عرض کیا کہ آپ اس جگہ کسی اور کو متعین کر دیں میرے والد رضا مند نہیں۔ انہوں نے مجھے بہت سمجھایا لیکن میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ میں زندگی بھر اپنے والد کی دعاؤں سے محروم ہوجاؤں گا وہ جب مجھے دیکھیں گے ان کے دل کو صدمہ گزرے گا جو مجھے برداشت نہیں ہوسکے گا۔ آخر قادیان واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تا کہ مربیان کلاس میں شامل ہوجاؤں۔ کرایہ کا سوال درپیش تھا۔ محترم سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب مرحوم کا انہوں نے ایک مضمون اردو زبان میں لکھا اور مجھے کہا کہ اسے دیکھ لوں چنانچہ رات گیارہ بجے تک وہ مضمون مکمل کر کے صاف کر کے ان کو دیا اور رات کو گھر واپس آیا۔ دوسرے دن سیٹھ صاحب نے مجھے قادیان تک جانے کا کرایہ ارسال فرمایا اور اگلے دن ہی میں حیدرآباد سے قادیان کے لئے روانہ ہوگیا۔
مربیان کلاس میں منتخب ہوا تو چار روپیہ وظیفہ مقرر ہوگیا۔ امتحان میں کامیابی کے بعد حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات ہوئی اور حضورؓ نے مجھے لکھنؤ میں مقرر فرمایا۔ جب حضور نے سب کو جانے کی اجازت دی تو سب رخصت ہوگئے۔ خاکسار ٹھہرا رہا۔ حضورؓ کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ مجھے کچھ آتا جاتا نہیں، لکھنؤ علمی جگہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری نالائقی کی وجہ سے سلسلہ کو نقصان پہنچے۔ حضورؓ نے فرمایا تم کو قرآن کریم پر کوئی اعتراض ہے؟ کہا نہیں۔ فرمایا: سوامی دیانند کو تھا: کہا ہاں۔ فرمایا: اس نے اعتراض کر کے تم کو موقع دیا کہ تم جواب دو۔ پس علم ہمیشہ انسان دشمن سے سیکھتا ہے تم بالکل نہ گھبراؤ ابھی تم محسوس کرتے ہو جب دشمن کا مقابلہ ہوگا خدا تم کو خود علم حاصل کرنے کی توفیق دے گا۔ میں دعا بھی کروں گا۔
5؍اپریل 1936ء کو مَیں روانہ ہوا۔ مولوی علی محمد احمد کو دو ماہ کے لئے حضور نے میرے ساتھ روانہ کیا۔ 10؍اپریل کو ہم احمدیہ مشن لکھنؤ پہنچے۔ سیٹھ خیرالدین احمد صاحب جماعت کے صدر تھے بہت اچھے عالم باعمل انسان تھے اور بہترین مناظر تھے ہر مذہب سے واقفیت تھی اور چوٹی کے لوگوں سے مناظرہ کیا کرتے۔ میرا کام شروع شروع میں نمازیں پڑھانا، درس دینا تھا گفتگو عموماً مولوی صاحب ہی کرتے۔ پھر ایک جلسہ میں خاکسار نے تقریر کی تو بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ کیا کل کا بچہ مربی بنا کر بھیج دیا گیا ہے جسے تقریر کی تمیز نہیں۔ یہ رائے سن کر مجھے رات بھر نیند نہ آئی اور حضورؓ کو وہ روئیداد لکھ بھیجی۔ حضورؓ کا ارشاد ملا کہ میں صرف علماء کو دعوت الیٰ اللہ کروں اور تین ماہ تک کسی کو دعوت الیٰ اللہ نہ کروں۔ چنانچہ خاکسار تن تنہا لکھنؤ کے مشہور مدارس اور بعض مساجد کے مولویوں سے ملتا رہا۔ تین ماہ تک نہ میں نے کوئی لیکچر دیا اور نہ کسی سے گفتگو کی۔ صرف خطبہ جمعہ پڑھ کر سنا دیتا، درس دیدیتا۔ تین ماہ بعد جلسہ سیرۃ النبیﷺ منعقد ہوا جس میں غیرازجماعت مقررین نے بھی تقریریں کی۔ خاکسار نے سب کے آخر پر تقریر کی اور خدا کے فضل سے وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ جلسہ کے اختتام کے بعد دوغیراز جماعت معززین نے اپنے گھروں پر ملنے کی دعوت دی اور جماعت کے وہ دوست جو پہلی تقریر پر معترض ہوئے تھے، میرے لئے تحفہ خرید کر لائے اور بہت دعائیں دیں۔ پھر تین سال تک خاکسار لکھنؤ میں رہا۔ ہندوؤں اور مولویوں سے خوب مناظرے ہوئے۔ پورا یوپی کا صوبہ خاکسار کے سپرد تھا۔
(محترم عبدالمالک خانصاحب نے اپنی سوانح میں میرٹھ، کانپور، جھانسی وغیرہ میں کئی کامیاب مناظروں، لیکچروں اور دعوت الی اللہ کی ایمان افروز مجالس کا ذکر بھی کیا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ)
خاکسار کچھ مدت کے لئے مرادآباد میں مقیم رہا۔ اردگرد کے علاقہ میں ایک احمدی جو کپڑا بیچتے تھے اپنے ساتھ ٹریکٹ بھی رکھتے۔ ایک گاؤں میں ایک شخص نے جو کھڈی پر کپڑا بننے کا کام کرتا تھا، اس نے احمدیت کو قبول کرلیا۔اُس میں اتنا جذبہ تھا کہ اس نے علی الاعلان دعوت الی اللہ شروع کردی جس کی وجہ سے اس کی مخالفت بڑھ گئی۔ پھر اُس کے بھائی نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ یہ احمدی کھڈی پر جو تھان بناتا وہ بستی والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا لیکن بائیکاٹ کی وجہ سے کسی نے اس کا تھان نہ خریدا۔ اُس نے دعا کی اور دوسرے روز عصر سے ذرا پہلے ایک شخص آتا اور تھان کو اچھے داموں خرید کر لے جاتا ۔ اس نے نہ اس کا نام پوچھا نہ پتہ۔ پیسے لئے تھان بیچ دیا۔ چودہ دن تک بائیکاٹ رہا اور اس سارے عرصہ میں یہی ہوتا رہا۔ جس دن بائیکاٹ ختم ہوا ، اس دن سے اس آدمی نے آنا بند کردیا۔ اس چیز نے اُس شخص کے ایمان کو بہت پختہ کر دیا اور اس کے گھر والوں نے بھی احمدیت کو سچ سمجھ کر قبول کرلیا۔
لکھنؤ کے بعد خاکسار کا ہیڈ کوارٹر آگرہ مقرر کیا گیا۔ یہ نہائت گرم ضلع تھا، مکان بھی بہت چھوٹا تھا۔ تاہم تین سال وہاں گزارے۔ اس عرصہ میں متعدد افراد سلسلہ میں داخل ہوئے۔ انیس مناظرے یہاں ہوئے۔ اور آریوں نے مولوی لال حسین اختر کو بلا کر ہمارے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرائیں۔ رات وہ تقریر کرتے صبح ہم جواب شائع کراتے۔ ان کو تحریری مناظرہ کی دعوت دی جو قبول کر کے منحرف ہوگئے۔ ہم نے مناظرہ کا پہلا پرچہ بھی شائع کردیا۔ یہاں ایک الٰہی تصرف عجیب ہوا کہ مولوی لال حسین نے پانچ سوال پیش کئے کہ قادیانی ان کا قیامت تک جواب نہیں دے سکتے۔ چنانچہ معززین شہر ہمارے پاس آئے اور ہم سے ان کے جوابات طلب کئے۔ جمعہ کا دن مقرر ہوا۔ ایک حوالہ نہیں مل رہا تھا جس کے لئے مرکز کو بھی لکھا گیا، مقامی لائبریریوں سے تلاش کیا لیکن جمعہ کے بارہ بجے تک حوالہ نہ ملا اور جمعہ کے بعد دکھانا تھا۔ اتفاقاً ڈاکٹر محمد حسین صاحب جو میرے مکان کے احاطہ میں رہتے تھے ان کو جمعہ کے لئے لینے گیا، اُن کی الماری کے اوپر کچھ کتب بکھری پڑی تھی جن میں ایک چیمبرز انسائیکلو پیڈیا بھی تھی۔ اس میں مطلوبہ حوالہ درج تھا۔ نماز جمعہ کے بعد وہ معززین آگئے۔ ان کے سب سوالات کے جوابات دئے گئے۔ اُس حوالہ کا مطالبہ کیا گیا تو سب کو سنادیا گیا۔ اس پر اُن معززین میں سے محمد عمر صاحب چنیوٹی نے اُسی وقت احمدی ہونے کا اعلان کردیا۔پھر جلسہ کیا گیا اور دس پندرہ روز تک شہر میں احمدیت کا خوب گرما گرم چرچا رہا اور چند دنوں میں گیارہ افراد نے بیعت کی۔
آگرہ کی جماعت چھوٹی اور غریب افراد پر مشتمل تھی۔ اللہ جوایا صاحب صدر جماعت متمول آدمی تھے اور سلسلہ کے لئے خرچ بھی کرتے تھے۔ ایک بار وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور ہم کو فوری طور پر ایک اشتہار چھپوانا تھا۔ اُن کی اہلیہ سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے اپنا سونے کا ایک زیور دیا کہ اسے گروی رکھ کر اشتہار چھپوالیں۔ چنانچہ پریس والوں کو میں نے وہ زیور لے جا کر دیا لیکن وہ پریس کا مالک اس درجہ متأثر ہوا کہ اس نے یونہی اشتہار راتوں رات چھاپ دیا اور کہاکہ پیسے پھر دیدینا اور لوگوں کو جاکر کہا کہ تم لوگ ان کے برابر قربانی نہیں کرسکتے۔ بعد میں اُس نے خفیہ طور پر بیعت بھی کرلی۔
بچپن سے حضرت مصلح موعود کو دیکھنے، آپ کی باتوں کو سننے اور پھر آپ کے دورِ خلافت میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نوجوانوں کو ورزش کی طرف حضورؓبہت توجہ دلاتے اور میدان کی کھیلوں کو بہت پسند فرماتے۔ آپؓ نے قادیان میںٹورنامنٹ بھی جاری فرمایا اور خود بھی اس کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ ورزش کے ساتھ بھی دینی اخلاق حضور کے ہمیشہ مدنظر رہتے۔
ایک دفعہ باہر سے ایک ٹیم ہاکی کا میچ کھیلنے آئی۔ حضورؓ بھی میچ کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ ہاف ٹائم میں حضور سے ہم سب کھلاڑی ملے تو خاکسار کو حضور نے فرمایا مالک گول کرو۔ حضور کے اس ارشاد نے بلا کا عزم اور خواہش دل میں پیدا کردی اور خاکسار موقعہ کی تلاش میں رہااور دعا بھی کرتا رہا۔ کھیل ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے میں گول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
ایک دفعہ کشمیر سے چند مہمان قادیان آئے۔ حضور کشمیر کمیٹی کے صدر تھے۔ آپ نے ان معزز مہمانوں کی ضیافت فرمائی اور دو نوجوانوں کو ہاتھ بٹانے کو بلایا جس میں خاکسار بھی تھا۔ جب سب مہمان چلے گئے تو حضور نے ہمیں ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا اور خود تھوڑی دیر کے بعد حضور ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے تشریف لائے اور یہ محسوس کر کے کہ ہم ادب کی وجہ سے حضور کی موجودگی میں کھا نہ سکیں گے تو آپ ساتھ کے کمرہ میں تشریف لے گئے۔
حضرت عبدالرحیم صاحب نیرؓ ایک زمانہ میں آپ کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے۔حضورؓ نے کوئی خط ان کو مطالعہ کے لئے دیا جس پر کچھ ہدایت درج تھی۔ حضورؓ کو اس خط کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپؓ نے وہ خط طلب فرمایا۔ سارا دفتر چھان مارا مگر خط نہ ملا۔ میں نے نیر صاحب سے عرض کیا کہ آپ گھر میں تو بھول کر نہ چھوڑ آئے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے مجھے اپنے گھر بھیجا۔ خط مل گیا اور میں نے لاکر دیدیا۔ اس وقت حضورؓ مغرب کی نماز کے لئے تشریف لے جاچکے تھے۔ نماز کے بعد دریافت فرمایا تو نیر صاحب نے خط حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورؓ نے اندر سے پیغام بھجوایا کہ نیر صاحب کھانا کھا کر جاویں۔ پھر اُن کے اطلاع دینے پر کہ یہ خط مَیں نے اُن کے گھر سے لاکر دیا ہے، حضورؓ نے مجھے بھی طلب فرمالیااور نہائت اہتمام کے ساتھ کھانا کھلوایا۔
ایک دفعہ میرے چچا جان مولانا محمد علی جوہرؔ مرحوم قادیان تشریف لائے۔ حضورؓ سے ملاقات میں مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ جب کوئی سیاسی لیڈر حضورؓ سے ملتا تو آپؓ باہمی دلچسپی کے موضوع پر گفتگو فرماتے۔ مذہبی گفتگو کا آغاز اس وقت فرماتے جب آپؓ سے کچھ پوچھا جاتا۔ چچا جان نے اپنا پشاور جانے کا مقصد بتایا اور اپنی اسکیم کا کچھ حصہ واضح کیا تو حضورؓ نے ایک مشورہ دیا جسے چچا جان نے بہت پسند کیا اور فرمایا کہ میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا، جناب مرزا صاحب! آپ نے بہت اچھا مشورہ دیاہے۔
پھر مَیں چچا جان کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر بہشتی مقبرہ گیا۔ وہاں حضورؑ کی قبر کے پاس مرغی کا ایک پَر ہوا سے اُڑ کر آگیا۔ آپ نے جھک کر اسے اٹھا لیا اور مجھے کہا کہ اسے پرے پھینک دو۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے مزار کا احترام ملحوظ رکھا اس لئے خدا نے ان کی آرام گاہ بھی معزز جگہ بنادی۔
1932ء میں مجھے مولوی فاضل کا امتحان دینا تھا اور میرے والد محترم اس زمانہ میں رامپور میں تھے۔ میں نے انہیں داخلہ فیس (19 روپیہ) بھجوانے کو لکھا۔ اُن کے جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا۔ حضورؓ نے ازراہ شفقت بیس روپیہ میاں نور محمد صاحب کابلی کے ہاتھ مجھے بھجوادئے جو پھر واپس نہیں لئے۔
جس زمانہ میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا کاروبار جاری تھا۔ حضورؓ نے فضل دین صاحب کے حق میں جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ فرمایا اور ان کی ضمانت کے لئے حضرت نیّر صاحب کو انچارج مقرر کرکے سرگودھا بھجوایا۔ پھر مربیان کلاس میں سے صرف مجھے منتخب کرکے فرمایا: آپ کے چچا جان صاحبان (علی برادران) تو انتخابات میں بہت سرگرمی دکھاتے ہیں، آپ بھی خوب دوڑ دھوپ کریں۔ چنانچہ خاکسار نیّر صاحب کے ساتھ سرگودھا چلا گیا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
1940ء میں میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ سے علاج کروایا لیکن افاقہ کی صورت پیدا نہ ہوئی بلکہ ایک دن آپ کو نیم بیہوشی کی حالت پیدا ہوگئی تو میری والدہ نے مجھے بااصرار کہا کہ ان کو دہلی لے چلو۔ میں مناسب نہ سمجھتا تھا کہ اس تکلیف کی حالت میں سفر کیا جائے۔ میری والدہ حضرت اماں جانؓ کے پاس چلی گئیں اور میری شکائت کی۔ حضرت اماں جانؓ نے مجھے بلا کر حقیقت دریافت کی اور فرمایا کہ تم ماں بیٹے کا فیصلہ حضرت صاحب کریں گے وہ ابھی ڈلہوزی سے آنے والے ہیں۔ حضورؓ تشریف لائے تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو ہمارے گھر بھیجا اور رپورٹ طلب کی۔ پھر ظہر کے وقت مجھے بلا کر فرمایا کہ تم انہیں امرتسر لے جاؤ اور ڈاکٹر یعقوب صاحب کو دکھاؤ، میں نے ان کو اطلاع کروادی ہے۔ اس رات کو میں والد صاحب کو فرسٹ کلاس میں مع والدہ صاحبہ کے امرتسر لے گیا۔ اسٹیشن پر ایمبولینس کار تھی۔ فوراً ہسپتال گئے ایک انجکشن لگایا گیا۔ والد صاحب کی حالت سدھرنے لگی اور صبح تک یہ صورت پیدا ہوئی کہ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور ایک ہفتہ بعد ٹھیک ہو گئے۔ یہ سب حضور کی دعا کا اثر تھا۔
اللہ تعالیٰ نے19 نومبر1939ء کو مجھے فیروزپور میں پہلی بچی عطا فرمائی۔ اس کی پیدائش پر دائی کی غلطی سے میری اہلیہ کو پرسوت کا بخار ہوگیا اور ٹمپریچر 108تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹر کو بلایا، انہوں نے معائنہ کرکے انجکشن لگایا لیکن بخار اترا اور اترتے ہی پھر دوبارہ اتنا ہی ہوگیا۔ اس پر ڈاکٹر کے مشورہ پر مشن ہسپتال لے گیا اور ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کو قادیان دعا کے واسطے دو تار دیئے لیکن کوئی جواب نہ آیا تو ایک نرس کو اپنی اہلیہ کی نگرانی کے لئے ملازم رکھ کر خاکسار قادیان روانہ ہوگیا۔ حضورؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ حضور میں بہت تکلیف میں ہوں۔ میں نے دو تار دیئے لیکن جواب نہ پاکر میں بے قرار ہوکر حضور کی خدمت میں چلا آیا۔ حضور نے فرمایا میں نے دونوں کا جواب دفتر کو بھجوایا تھا، یہ دفتر کی غلطی ہے اس نے آپ کو جواب نہ بھجوایا۔ میں نے حضور کا ارشاد سن کر بے خودی میں حضور کا دست مبارک بازوؤں سے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور عرض کیا آپ خدا کے پیارے، میرے آقا اور امام ہیں۔ مجھے آپ کی دعا پر بے حد یقین ہے آپ ابھی میری بیوی اور بچی کے حق میں دعا کردیں۔ حضور نے میری درخواست پر دعا کی اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا مولوی صاحب! اب آپ کی بیوی کو بخار نہ ہو گا۔ میں فرط مسرت سے جھوم اٹھااور فوراً دست بوسی کے بعد سلام کہہ کر رخصت ہوگیا۔ وہاں حضرت حافظ مختار احمد صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ باہر آکر وہ کہنے لگے: حضورؓ نے جب یہ فرمایا کہ اب تمہاری بیوی کو بخار نہ ہوگا، اُس وقت حضورؓ کے کمرہ میں لگی ہوئی گھڑی میں نو بج کر سنتالیس منٹ تھے۔ تم جا کر دیکھنا اس وقت حضور کی دعا سے بخار ٹوٹا ہوگا۔ اس بزرگ کی اس فراست نے میری خوشی اور دوبالا کردی۔ میں نے واپس جاکر امریکن لیڈی ڈاکٹر کو یہ بات بتائی اور اس کی اجازت سے چارٹ جا کر دیکھا تو اس میں بخار ٹوٹنے کا ٹائم ٹھیک نو بج کر سنتالیس منٹ درج تھا۔ ہسپتال میں عیسائی عورتیں تبلیغ کیلئے بھی آتیں۔ جب انہیں یہ معجزہ بتایا گیا تو انہوں نے میری اہلیہ کے کمرہ میں آنا چھوڑ دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں