حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب

حضرت مولاناعبدالمالک خانصاحب کی وفات پر ان کی سب سے بڑی بیٹی مکرمہ فرحت الہ دین صاحبہ مرحومہ نے یہ مضمون رقم کیا تھا جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27 و 28اکتوبر 2005ء میں شائع ہوا ہے۔
ایک شفیق مہربان اور بے مثال باپ جن کا محض باپ ہونا تو خاص خوبی کی بات نہ ہوتی بلکہ انہوں نے اپنی پدرانہ شفقت اور خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمارے سامنے ایک بلند کردار، اولوالعزم جواں ہمت انسان اور ایک مثالی اور قابل تعریف باعمل باپ بن کر دکھایا جس سے متاثر ہو کر ہم خود بخود ان کے نیک نمونہ پر چلنے لگے۔ آپ ہی نے مجھے قرآن کریم پڑھایا اور قرآن کا پہلا دَور مکمل کرنے پر بہت خوشی منائی۔ گویا عید کا دن تھا۔ نماز پڑھنا بھی آپ نے سکھائی۔ آپ ہی نے مجھے ابتدائی اردو اور فارسی بھی سکھائی۔
آپ کی تقاریر کی املاء کرنے کا بھی موقع ملا۔ جب کوئی تقریر لکھواتے توپھر گھر میں ایک بار سب کو سناتے اور رائے پوچھتے۔ پھر تقریر کرنے سے پہلے خود بھی بہت دعا کرتے اور ہمیں بھی دعا کے لئے کہتے۔ تقریر سامعین کو پسند آتی تو گھر آکر سجدہ شکر بجالاتے۔ ہر وقت درودشریف پڑھنا آپ کی عادت ثانیہ بن گئی تھی اور ہمیں بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔
آپ بیٹیوں سے بہت پیار کرتے۔ ہم بیمار ہوتے تو علاج اور تیمارداری کی طرف بھرپور توجہ دیتے۔ ہم گرمی میں تھکے ہوئے سکول سے گھر آتے تو آپ فوراً کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ گیلا کرکے ہمارے چہرے پر پھیرتے، پنکھے کے سامنے بٹھاکر باتیں کرتے۔ اگر ہم کہتے کہ آپ یہ تکلیف نہ کیا کریں تو فرماتے کہ میرے آقا محمد رسول اللہﷺ اپنی بیٹی فاطمہؓ سے کیسی شفقت کا سلوک فرماتے تھے، مَیں اُس نمونے کی پاسداری کرتا ہوں۔
ہمارے ساتھ آپ کھیلا بھی کرتے تھے، امّی کی بیماری میں ہمارا ہر طرح خیال رکھتے، سکول کے لئے تیار کرواتے، کھانا تیار کرتے۔ ہم آپ کے ساتھ بہت خوش رہتے تھے۔ لیکن ایسے میں اگر دینی کام کے لئے کوئی بلاوا آجاتا تو فوراً چل دیتے۔ رشتہ داروں کا بھی خاص خیال رکھتے۔
آپ کی کمسنی میں ہی آپ کی والدہ آپ کو ہمراہ لے کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضورؓ نے منظوری مرحمت فرمائی اور آپ کے بائیں گال پر بوسہ لیا۔ آپ اس یادگار لمحہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے کہ حضورؓ کی شفقت نے میری زندگی یکسر بدل ڈالی۔ اسی وجہ سے اپنی والدہ کے لئے بھی شکر کے جذبات سے بھرپور رہتے۔ آپ صرف تیرہ سال کے تھے جب والدہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بعد میں جب آپ کے چچا مولانا محمد علی جوہر نے آپ کو ایک عمدہ نوکری دلادی تو آپ کے والد نے یہ خبر سن کر خوش ہونے کی بجائے کہا کہ تمہاری ماں نے تو تمہیں وقف کیا تھا اور تم دنیا کمانے کی فکر میں ہو۔ چنانچہ آپ نے اگلے ہی دن استعفیٰ دیدیا اور اپنے والد کی اطاعت کرتے ہوئے مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔
اکثر رات کو عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر ایک گھنٹہ بیت بازی ہوتی۔ اس دوران آپ ہمیں بعض اشعار کے معانی بھی سمجھاتے جاتے۔ ایک بار آپ نے ہمیں کہا کہ ہم سب بچے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر آپ سے بیت بازی کا مقابلہ کرلیں۔ چنانچہ یہ مقابلہ ہوا اور حیرت تھی کہ ہم سب کو جتنے شعر یاد تھے، آپ کو اُس سے بھی زیادہ یاد تھے۔
آپ ہمیں مسلمان خواتین کی قربانیوں کے قصے بھی سنایا کرتے۔ آپ نے ہی ہمیں تقریر لکھنا اور کرنا سکھایا، مضمون لکھنا سکھایا، ادبی ذوق سے روشناس کیا۔ صبح فجر کی نماز پر اٹھاتے اور رات سونے سے پہلے دعائیں یاد کرواتے۔ آپ الارم وغیرہ کے عادی نہ تھے بلکہ خود ہی صبح تین چار بجے اُٹھ جایا کرتے تھے اور بغیر گھڑی کے چاندستاروں کی روشنی سے وقت معلوم کرلیتے تھے۔
آپ زندگی کو قدرت کا بہترین عطیہ سمجھتے جس کا اوّلین مصرف اپنے پیدا کرنے والے سے ذاتی تعلق قائم کرنا تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کا خوف بھی دل میں بہت تھا۔ نیکی کو بشاشت قلبی کے ساتھ اختیار کرتے اور بدی کو بیزار ہوکر ترک کردیتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں