حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جولائی 1999ء میں حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے حسنِ کردار کی کچھ جھلکیاں

حضرت مولانا صاحب کی سیرۃ و سوانح کے بارہ میں ایک زیر طبع کتاب سے مکرم یوسف سہیل شوق صاحب نے پیش کی ہیں۔
مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب ہر شخص کا بہت خیال رکھتے تھے چنانچہ جب مَیں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں تدریس کی خدمت بجالارہا تھا تو کالج کے میگزین کا انچارج بھی مقرر ہوا اور اس طرح مجھے ربوہ کے جرائد کے مدیروں کی محفل میں شرکت کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔ جب مَیں رسالہ کا انچارج نہ رہا تو ایک روز حضرت مولانا صاحب مجھے سر راہ ملے اور ایک محفل کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ تم پچھلی محفل میں نہیں تھے۔ میرے نہ آنے کی وجہ سُن کر فرمایا کہ بہت افسوس کی بات ہے، ہمارا طریق یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی رسالہ کا مدیر بدلے تو اس تبدیلی کے بعد جو محفل ہو وہ اس کی الوداعی محفل بن جائے۔
مکرم ظہور احمد صاحب (واہ کینٹ) بیان کرتے ہیں کہ ایک دعوت میں جب مَیں دیر سے پہنچا تو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس ہی بٹھالیا اور بڑی محبت سے فرمایا کہ ہاتھ بڑھائیں اور کھانے کی چیزیں لیں۔ مَیں نے عرض کیا: ’’مولوی صاحب! جس چیز پر میرا نام لکھا ہوا ہے وہ خودبخود مجھے مل جائے گی‘‘۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’نہیں ملے گی، آزماکر دیکھ لیں۔ جب تک آپ ہاتھ نہیں بڑھائیں گے، چیز خود تو آپ تک نہیں پہنچے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلّا مَا سَعیٰ‘‘۔

مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی صاحب کی سرکردگی میں ایک وفد ضلع سیالکوٹ کے دورہ پر بھجوایا گیا جس میں خاکسار بھی شامل تھا۔ آپ بحیثیت امیر ہر رکن وفد کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ اور جب ایک میزبان نے مولانا صاحب کے علوّ مرتبت اور آپ کی صحت کے پیش نظر پیشکش کی کہ آپ کے ساتھی مجوزہ انتظام کے تحت قیام کریں اور آپ اُن (میزبان) کے گھر تشریف لے چلیں۔ مگر آپ نے اس مہربانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: ’مَیں اپنے ساتھیوں سے الگ رہنا پسند نہیں کرتا‘۔
مکرم مرزا عطاء الرحمان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ربوہ میں اپنے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔ شدید تکان تھی اس لئے بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھ لیتا کہ کوئی تانگہ آ رہا ہو تو اس میں سوار ہو جاؤں لیکن خالی تانگہ کوئی نظر نہ آیا۔ اچانک ایک تانگہ میرے پاس آکر رُک گیا۔ دیکھا تو اُس میں حضرت مولانا صاحب تشریف فرما تھے۔ آپ نے سوار ہونے کے لئے کہا اور مَیں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ خیال تھا کہ آپ کو گھر اتار کر پھر اپنے گھر پہنچ کر کرایہ ادا کردوں گا۔ میرا گھر آپ کے گھر سے پانچ منٹ کے فاصلہ پر تھا۔ مگر جب ہم اسٹیشن سے آگے آئے تو مجھے فرمایا اب اتر جاؤ۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں پہلے آپ کو آپ کے گھر اتار کر تانگہ میں واپس اپنے گھر جاؤں گا۔ آپ بہت زیرک تھے، فرمایا: ’’نہیں۔ اب اگر یہاں سے پیدل گھر نہیں جاسکتے تو دوسرا تانگہ لے لو‘‘۔ اس پر مَیں نے جیب سے نوٹ نکالا تاکہ کرایہ ادا کردوں لیکن آپ نے فوراً حکماً روک دیا۔
مکرم مرزا ممتاز احمد صاحب لکھتے ہیں کہ 1947ء کے بدامنی کے حالات میں ہمارے والد محترم ڈاکٹر شیر محمد عالی صاحب نے ہم تینوں بھائیوں کے بارہ میں حضرت مولوی صاحب سے درخواست کی کہ اِن کا خیال رکھئے گا۔ چنانچہ جب خطرہ کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ ہمارے محلہ کے تمام دوست گھروں کو چھوڑ کر بورڈنگ ہاؤس میں جمع ہوجائیں تو حضرت مولوی صاحب نے ایک دوست کو ہمارے گھر بھجوایا اور اُن کے ہمراہ ہم سب آپ کے گھر پہنچ گئے اور وہاں سے آپ کے ساتھ ہی بورڈنگ ہاؤس آگئے۔ یہاں اُبلی ہوئی گندم ملتی تھی جو مجھ سے کھائی نہیں جاتی تھی اور میری صحت کا یہ حال تھا کہ تیز ہوا میں بھی کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ آپ نہایت شفقت سے کھانے کے وقت مجھے اپنے پاس بلالیتے۔ اُبلی ہوئی گندم پر چینی ڈال دیتے یا کوئی بھی اچھی چیز جو اُن حالات میں میسر تھی کھانے کو دے دیتے۔ میری اداسی دیکھ کر ایک روز ٹیلیفون پر والد صاحب سے میری بات بھی کروادی اور اُن کے کہنے پر اُن کے پاس بھجوانے کا انتظام بھی کردیا … بعد میں پاکستان آنے کے بعد بھی آپ کی شفقت ساری زندگی جاری رہی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں