حضرت ملک برکت علی صاحبؓ

حضرت ملک برکت علی صاحب ؓ قریباً 1869ء میں پیدا ہوئے اور 20 دسمبر 1951ء کو آپؓ کی وفات ہوئی۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20دسمبر 2008ء میں آپؓ کی سیرۃ و سوانح پر ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے۔
حضرت ملک صاحبؓ اپنے قبول احمدیت سے متعلق فرماتے ہیں کہ میں گجرات سے تعلیم حاصل کرکے لاہور میں ملازم ہوگیا۔ وہاں کے بعض کلرکوں کے کہنے پر مَیں نے ایک پیر صاحب کی بیعت کرلی اور ہر روز ان کی صحبت میں بھی وقت گزارنے لگا۔ لیکن جب عرصہ گزر گیا اور میری طبیعت پر کوئی اثر پیدا نہ ہوا تو اس بارہ میں پیر صاحب سے سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجاہدات کریں اور اس حد تک میرا تصور کریں کہ میرا نقش ہر وقت آپ کے سامنے رہے پھر آپ کو بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل ہوگی۔ میں عرصہ تک ان کا تصور بھی کرتا رہا۔ مجاہدات بھی بڑے کئے مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ وہاں اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ایک شخص میاں شرف الدین صاحب ہوا کرتے تھے۔ وہ احمدی تو نہ تھے مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ اُن سے میری اپنی دینی حالت سے متعلق گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر میں آپ کو کوئی کتاب دوں تو کیا آپ پڑھیں گے۔ میں نے کہا ضرور۔ انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی ایک کتاب مطالعہ کے لئے دی جس کا میں نے مطالعہ کیا تو پھر بار باری چار کتابیں دیں۔ ایک دن میں نے پیر صاحب سے حضرت صاحب کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ پیر صاحب نے کہا کہ نہ ہم ان کو اچھا کہتے ہیں نہ برا۔ میں اس جواب پر بہت متعجب ہوا مگر اس وقت خاموش ہو گیا۔ ایک روز پھر میں نے یہی سوال کر دیا۔ پیر صاحب نے پھر وہی جواب دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ’’مگر نہ ان کی کوئی کتاب پڑھو اور نہ وعظ سنو‘‘۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ کیا آپ نے اُن کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟ اس پر پیر صاحب جوش میں آکر کہنے لگے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم ان کی کتابیں پڑھیں، علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ جو لگا دیا ہے۔ یہ جواب سن کر میرے ذہن میں حضرت اقدس کے وہ فقرات آگئے جن میں حضورؑ نے مخالف علماء کے کفر کے فتویٰ کا ذکرکرکے فرمایا تھا کہ یہ لوگ نہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ میرے خیالات کو انہیں سننے کا موقع ملا ہے۔ مگر محض کسی کے کہنے پر یک طرفہ فتویٰ لگا دیا ہے۔ چنانچہ میں پیر صاحب سے بدظن ہوگیا اور واپس آکر تحقیقات میں مشغول ہو گیا۔
ان ایام میں عبداللہ آتھم کے متعلق حضور کے اشتہارات نکل رہے تھے اور عیسائیوں کی طرف سے بھی اشتہارات نکلا کرتے تھے۔ میں فریقین کے اشتہارات کو ایک فائل کی صورت میں محفوظ کررہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت اقدسؑ کی پیشگوئی آتھم کے بارہ میں بالکل صحیح پوری ہوگئی ہے۔ اس کے بعد لیکھرام کے متعلق حضور کے اشتہارات اور تحریرات نکلنا شروع ہوگئیں۔ ان کو بھی میں فائل میں محفوظ کرتا گیا۔ ان ہر دو واقعات کے گزرنے کے بعد مجھے حضرت اقدس کی صداقت کے متعلق اطمینان ہوگیا اور میں نے 1897ء میں بیعت کا خط لکھا دیا۔ پھر قریباً 1901ء یا 1902ء میں قادیان جاکر دستی بیعت کی۔
جب میں بھوچرا بنگلہ نہر لوئر جہلم ضلع سرگودھا میں تھا تو ایک انگریز سب ڈویژن افسر مسٹر ہاورڈ میرے خلاف ہوگیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے کلرک کے ساتھ مل کر بددیانتی کرتا تھا مگر میں نے قواعد کے مطابق چلنے کو کہا تو اُس نے رپورٹ کرکے مجھے معطّل کروادیا۔ جب کیس چل پڑا تو مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں حالات عرض کرکے دعا کی درخواست کی۔ حضورؑ کا جواب آیا: ’’ دعا کی ہے اللہ تعالیٰ رحم کرے گا‘‘۔ اتفاق سے یہ خط ایک شخص پرسرام اوورسیئر کے ہاتھ آگیا اور اس نے پڑھ لیا۔ اس نے مجھے آکر کہا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہوگیا ہے اور آپ بری ہوگئے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا؟ اس نے وہ کارڈ مجھے دیا اور کہا اس پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے اسے پڑھا اور کہا کہ یہاں تو یہ نہیں لکھا کہ آپ بری ہوگئے ہیں۔ وہ بولا کہ اتنے بڑے خدا کے بندے نے آپ کے لئے دعا کی ہے بھلا اب کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ بری نہ ہوں۔ چنانچہ اس مقدمہ کی تفتیش کے لئے سپرنٹنڈنٹ اور چیف انجینئر مسٹر بینٹن تک آئے اور خوب اچھی طرح سے انکوائری کرکے مجھے بری کردیا۔
حضرت ملک صاحبؓ نے محکمہ نہر میں ملازمت کرکے 1927ء میں پنشن حاصل کی۔ عرصہ دراز تک جماعت احمدیہ گجرات کے جنرل سیکرٹری اور پھر امیر رہے۔ دوران ملازمت اور بعد میں بھی تبلیغ کو اپنی غذا بنائے رکھا۔ آپ کے ذریعہ آپ کے خاندان اور دیگر بہت سے لوگوں کو سلسلہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تہجد گزار اور متقی بزرگ تھے۔ اولوالعزمی اور راست گوئی آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ بہت دعائیں کرنے والے، مستجاب الدعوات اور صاحب کشوف و رؤیا تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضور کے خلفاء کے ساتھ عشق تھا۔ آپؓ کی بہترین علمی یادگار آپؓ کے فرزند خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں