حضرت مصلح موعود ؓ کی روایات کی روشنی میں سیرۃ حضرت مسیح موعود ؑ کے بعض گوشے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اگست اور 24؍نومبر 2004ء میں مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی سیرت کے بعض ایسے درخشندہ گوشے قلمبند کئے ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمائے ہیں۔

حبیب الرحمن زیروی صاحب

٭ جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا حضرت مسیح موعودؑ نے اَوروں کو دعا کیلئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔ میں نے اس وقت رؤیا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔ اندر حضرت صاحب کو کھڑا کرکے آگے اُپلے چن کر اور مٹی کا تیل ڈال کر دیاسلائی سے آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا : ’’جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ جلا نہیں سکتی‘‘۔

٭ میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے بعض عزیزراستہ میں کیلیں گاڑ دیا کرتے تھے تاکہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کیلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگر کیل اکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے۔ اسی طرح مسجد مبارک کے سامنے دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی۔ بعض احمدیوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوارکو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرناہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رؤیائے صادقہ ہوا کرتے تھے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہوچکی ہے۔ اسی حالت میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں۔ جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی، میں بھی کھڑا تھا۔ چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کرچکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہوگیا۔
٭ ایک دن ہم سکول سے واپس آئے تو احمدیوں کے چہروں پر ملال کے آثار تھے۔ گول کمرہ اور دفتر محاسب کے درمیان ہم نے دیکھا کہ ہمارے بعض چچاؤں نے وہاں دیوار کھینچ دی ہے اس لئے ہم اندر سے ہو کر گھر پہنچے اور معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس لئے کھینچی گئی ہے کہ تا احمدی مسجد میں نہ آسکیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حکم دیا کہ ہاتھ مت اٹھائو اور مقدمہ کرو۔ آخرمقدمہ کیا گیا جو خارج ہو گیا اور معلوم ہوا کہ جب تک حضرت مسیح موعود خود نالش نہ کریں کامیابی نہ ہوگی۔ آپؑ کی عادت تھی کہ مقدمات وغیرہ میں نہ پڑتے تھے مگر یہ چونکہ جماعت کا معاملہ تھا اور دوستوں کو اس دیوار سے بہت تکلیف تھی اس لئے آپؑ نے فرمایا کہ بہت اچھا میری طرف سے مقدمہ کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ ہوا اور دیوار گرائی گئی۔ اس دیوار کی وجہ سے جماعت کو مہینوں یا شاید سالوں تکالیف اٹھانی پڑیں، پھر مقدمہ پرہزاروں روپیہ خرچ ہوا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچاؤں پر ڈال دیا جائے۔ کئی لوگ غصہ سے کہہ رہے تھے کہ یہ بہت کم ڈالا گیا ہے ان کو تباہ کردینا چاہئے۔ جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا تو حضرت مسیح موعودؑ گورداسپور میں تھے آپ کو عشاء کے قریب رؤیا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے مخالف رشتہ دار بہت تکلیف میں ہیں۔چنانچہ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی، اسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جاکر اُنہیں کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے۔
٭ جب میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رسالہ تشحیذالاذہان جاری کیا تو اس کو روشناس کرانے کے لئے مضمون لکھا جس میں اس کے اغراض ومقاصد بیان کئے گئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے حضور اس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضور اسے ضرور پڑھیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسجد مبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالباً مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی۔ لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اولؓ سے ملا تو آپؓ نے فرمایا: میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہوا۔ اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’اونٹ چالی اور ٹوڈا بتالی‘‘ اور تم نے یہ مثل پوری نہیں کی۔ میں تو اتنی پنجابی نہ جانتا تھا اس لئے میرے چہرہ پر حیرت کے آثار دیکھ کر آپؓ نے فرمایا کہ کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اُس علاقہ میں ٹوڈا کہتے ہیں۔ کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپیہ مگر ٹوڈا کی بیالیس روپیہ۔ اس نے وجہ دریافت کی تو پتہ لگا کہ ٹوڈا اونٹ بھی ہے اور اونٹ کا بچہ بھی۔ اسی طرح تمہارے سامنے حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ موجود تھی۔ آپؑ نے جب یہ تصنیف کی تو اس وقت آپؑ کے سامنے کوئی ایسا اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا۔ امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤگے۔
مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیالاسکتا ہے سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کاکام یہی ہوتا ہے کہ گزشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیںتو خود بھی برکات اور فضل حاصل کرسکتی ہیں اور قوم کے لئے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہوسکتی ہیں۔ مگر اپنے آباء سے آگے بڑھنے کی کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ چورکا بچہ یہ کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر چور ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ نمازی آدمی کی اولاد کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر نمازی ہو۔
٭ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفتہ المسیح الاوّلؓ کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جائو۔ وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت ککرے پڑ گئے تھے اور ایسی شدید تکلیف پیدا ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہوجائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کردیں اور ساتھ ہی روزے رکھنے شروع کردیئے۔ تین یا سات روزے رکھے۔ جب آخری روزہ کی افطاری کرنے لگے تو یکدم میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی چنانچہ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہؤا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی ککرے پڑگئے اور وہ ایسے شدید ہوگئے کہ کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے۔ آپؑ بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحبؓ سے پڑھ لو، کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔ ماسٹر فقیراللہ صاحبؓ ہمارے حساب کے استاد تھے اور بورڈپر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے نظر کی کمزوری کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتے تھے اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا تھاکیونکہ نظر تھک جاتی تھی۔ اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ماسٹر صاحبؓ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس شکایت کی کہ یہ کچھ نہیں پڑھتا، کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ جب ماسٹر صاحب نے شکایت کی تو میں ڈَر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعودؑ کس قدر ناراض ہوں لیکن آپؑ نے فرمایا کہ آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسے چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اسے آئے نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم ﷺ یا آپؐ کے صحابہ نے کونسا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرناچاہئے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے۔ میں نے اس نرمی سے اَور بھی فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ بچپن میں مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی۔ Red iodide of Mercury کی تلی کے مقام پر اور گلے پر بھی مالش کی جاتی تھی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہوجانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہوگا۔
ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب نے میرا اردو کا امتحان لیا۔ میں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اس زمانہ میں میرا اتنا بد خط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا ۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ ان کی طبیعت بڑی تیز تھی، غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپؑ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ …۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا ’’بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو‘‘۔ جب آپؑ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اولؓ کو بلا لیا کرتے تھے۔ اُن کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ وہ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: مولوی صاحب! میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہؤاپڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے قلم اٹھائی اوردو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر نقل کردیا۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے: مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہوگیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے: حضور! میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد آپؓ نے مجھے کہا کہ میاں! مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو۔ دراصل میں نے آپؓ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی میں نے آپؓ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کردی تھی۔ اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعودؑ کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپؓ سے شروع کر دی تھی۔
٭ الہام ہونے کا نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں انسانی کانوں پر نازل ہوتا ہے اورغیب سے آواز آتی ہے کہ یوںہوگیا ہے یا یوں ہوجائے گا یا یوں کر۔ کبھی تو صرف ملہم کو ایک آوازسنائی دیتی ہے اور کبھی ویسی ہی آواز دوسرے کو بھی آجاتی ہے۔ اس قسم کامجھے ذاتی طور پر تجربہ حاصل ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا :… مَیں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا۔ اُسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آج یہ الہام ہوا ہے۔ صبح مفتی محمد صادق صاحبؓ نے مجھے کہا کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالاؤ تاکہ وہ انہیں اخبار میں شائع کر دیں۔ اس روز حضرت مسیح موعودؑ نے جب الہامات لکھ کر دیئے تو یہ الہام لکھنا بھول گئے۔ میں نے جب الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرأت بھی نہ کر سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جومجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں۔ اسی حالت میں کئی دفعہ میں دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا۔ آخر میں نے جرأت سے کام لے کرکہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے۔ مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا۔ چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا۔
٭ میں بچہ تھا اور اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کی زبان سے گورنمنٹ کی وفاداری کاحکم سنا اور اس حکم پر اس قدر پابندی سے قائم رہا کہ میں نے اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس بارہ میں اختلاف کیا حتیٰ کہ اپنی جماعت کے لیڈروں سے اختلاف کیا۔
٭ ایک دفعہ ایک افسر نے حضرت مسیح موعودؑ سے ایک معاملہ میں کہا کہ (قادیان کے) لوگ آپ کے شہری ہیں آپ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں۔ تو حضرت صاحب نے فرمایا: اس بڈھے شاہ ہی کو پوچھو کہ آیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے جس میں یہ دکھ دے سکتا تھا اور اس نے نیشن زنی نہ کی ہو اور پھر اس سے ہی پوچھو کہ کیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے کہ جس میں مَیں احسان کر سکتا تھا اور پھر مَیں نے اس کے ساتھ احسان نہ کیا ہو۔
٭ حضرت مرزا صاحب نے قادیان کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کرسکتے ہو مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی بلکہ آپکی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ میں آپکی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے۔ پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا وہ کس طرح راتوں رات بگڑ گیا۔
٭ جب اللہ تعالیٰ دلوں کو بدل دیتا ہے تو حاکم بھی غلاموں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ پر جب قتل کا مقدمہ ہؤا تو وہی انگریز ڈپٹی کمشنر جس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اس مدعی مسیحیت کو ابھی تک سزا کیوں نہیں دی گئی، اپنے پاس کرسی بچھا کر آپؑ کو بٹھاتا، اور اُن کے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ کا بیان ہے کہ وہ بٹالہ کے اسٹیشن پر ایک دفعہ گھبرا کر ٹہل رہا تھا اور جب میں نے اس سے اتنی پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا اس مقدمہ کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہے کہ میں جدھر جاتا ہوں، سوائے مرزا صاحب کے مجھے کوئی اَور نظر نہیں آتا اور مرزا صاحب مجھے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میں مجرم نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، مقدمہ ان کے خلاف ہے ، بیانات ان کے خلاف ہیں اور مجھ پر جو واقعہ گزر رہا ہے اس نے مجھے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہیں پاگل نہ ہوجاؤں۔ آج تک وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب مجھ سے کوئی شخص پوچھتا ہے کہ ہندوستان کی سروس میں کوئی سب سے عجیب واقعہ سناؤ تو میں مرزا صاحب کے مقدمے کا واقعہ ہی بیان کیا کرتا ہوں۔
٭ آپؑ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ لوگ متعین ہوئے اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے، جھوٹے اقدام قتل کے مقدمے بنائے گئے چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا۔ آخر اُس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کرکے پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا تو وہ شخص رو پڑا اور اس نے بتادیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا۔ اسی طرح مولوی عمرالدین صاحب شملوی سنایا کرتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبد الرحمن سیاح اور چند اَور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے۔مولوی عبد الرحمن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ میں اب مباحثہ نہیں کروں گا، ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلہ پر کھڑے ہوجائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا اور اگر مباحثہ پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے ہیں۔ اس پر مولوی عمرالدین نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں اور جا کر ان کو قتل کر دیتا ہوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے۔ مولوی عمرالدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہوگا۔ انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین بٹالہ کے اسٹیشن پر ملے اور کہا تُو کدھر؟ انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں۔ کہا تُو بہت شریر ہے تیرے باپ کو لکھوں گا۔ اِنہوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کے ذریعہ ہؤا ہے جو کچھ ہؤا ہے۔
٭ مارٹن کلارک کے مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو آپؑ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہوگا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا۔ لیکن باوجود اس کے کہ الہام کے پورا کرنے کیلئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے مگرمجھے خود مولوی فضل الدین صاحب نے جو لاہور کے وکیل اور اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کی ذلّت ہوتی تھی تو آپؑ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی والدہ کنچنی تھی اور مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حقیقت آدمی ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے سوال کو برداشت نہیں کرسکتے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اس سوال سے مقدمہ کمزور ہوجائیگا مگر آپؑ نے اجازت نہیں دی۔ مولوی فضل الدین صاحب احمدی نہیں تھے بلکہ حنفیوں کے لیڈر تھے، مگر جب کبھی غیراحمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعودؑ کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور میں نے بھی ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپؑ کھڑے تھے۔
لیکن جس خدا نے مولوی محمد حسین کی ذلت کی خبر آپؑ کو دی تھی، اُس نے ایک طرف تو آپؑ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا۔ اور وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت تھا اس نے جونہی آپؑ کی شکل دیکھی تو اُس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپؑ کو بٹھایا۔ مولوی محمد حسین صاحب چونکہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپؑ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا ذلت کے ساتھ کھڑا کیا ہوگا۔ لیکن آپؑ کو مجسٹریٹ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا دیکھ کر غصہ سے مغلوب ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی ملے۔ کیونکہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے، مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے ان کا معاملہ اور ہے۔ مولوی صاحب اس پر بھی باز نہ آئے اور کہا کہ میں اہل حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں۔ اس پر ڈپٹی کمشنر کو طیش آگیا اور اس نے کہا کہ بک بک مت کر، پیچھے ہٹ ، جوتیوں میں کھڑا ہوجا۔ مولوی صاحب جب گواہی دے کر باہر نکلے تو برآمدہ میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گئے مگر چپڑاسی نے جب دیکھا کہ صاحب ناراض ہیں تو اس خیال سے کہ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کر کر مجھے ناراض نہ ہوں آکر کہنے لگا کہ میاں اٹھو کرسی خالی کردو۔ پھر وہاں سے اٹھ کر وہ باہر آئے اور ایک چادر بچھی ہوئی تھی اُس پر بیٹھ گئے۔ مگر چادر والے نے نیچے سے چادر کھینچتے ہوئے کہا: جو عیسائیوں سے مل کر ایک مسلمان کے خلاف جھوٹی گواہی دینے آیا ہو اسے بٹھاکر میں اپنی چادر پلید نہیں کراسکتا۔ اور اس طرح ذلت پر ذلت ہوتی چلی گئی مگر حضرت مسیح موعودؑ کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی۔
کیپٹن ڈگلس (وفات 25؍فروری 1957ء) کا اپنا بیان ہے کہ اُس وقت کے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے انہیں بلا کر کہا کہ یہ شخص عیسائیت کا سخت مخالف ہے اس کے مقدمہ کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ جس کے صاف معنے یہ تھے کہ اسے ضرور سزا دو مگر میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ بددیانتی مجھ سے نہیں ہو سکتی۔
مارٹن کلارک انگریز کہلاتا تھا مگر دراصل پٹھان تھا۔ اس سبب سے کہ اس کا رنگ انگریزوں کی طرح گورا تھا اور پھر ایک انگریز نے اسے بیٹا بنایا ہوا تھا اس لئے لوگ اسے انگریز سمجھتے تھے۔ اس کا بیٹا یا بھائی ابی سینیا کی سابق حکومت میں وزیراعظم تھا۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ کا بائیکاٹ بھی ہم نے دیکھا۔ چوہڑوں کو صفائی کرنے اور سقوں کو پانی بھرنے سے روکا جاتا تھا۔ جب آپؑ کہیں باہر تشریف لے جاتے تو مخالفین کی طرف سے پتھر پھینکے جاتے اور وہ ہر رنگ میں ہنسی اور استہزاء سے پیش آتے۔ مگر تمام مخالفتوں کے باوجود کیا ہؤا ، جتنے لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے پچانوے فیصدی اس وقت مخالفوں میں شامل تھے مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ پھر حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد جماعت میں جوشور اٹھا اس کا کیا حشر ہؤا۔ اس فتنہ کے سرکردہ لوگ صدر انجمن پر حاوی تھے اور تحقیر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا ہم ایک بچہ کی غلامی کر لیں!۔ خدا تعالیٰ نے اسی بچے کا ان پر ایسا رُعب ڈالا کہ وہ قادیان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اب تک یہاں آنے کا نام نہیں لیتے۔ ان لوگوں نے اس وقت بڑے غرور سے کہا تھا کہ جماعت کا 98فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 98 فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکا ہے۔
٭ ایک زمانہ تھا کہ احمدیوں کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ چوک میں کیلے گاڑ دئیے گئے تا نماز پڑھنے کے لئے جانے والے گریں اور کنوئیں سے پانی نہیں بھرنے دیا جاتا تھا بلکہ گھماروں کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ احمدیوں کو برتن بھی نہ دیں۔ مگر اب وہ لوگ کہاں ہیں۔ اُن کی اولادیں احمدی ہوگئی ہیں اور وہی لوگ جنہوں نے احمدیت کو مٹانے کی کوشش کی ان کی اولاد اِسے پھیلانے میں مصروف ہے ۔…حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا رؤیا سنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہؤا ہے اور شمال کی طرف بھی بہت دُور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے۔ اُس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کہ تھے اور وہ بھی تنگدست۔ باقی سب بطور مہمان آتے تھے لیکن اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کس قدر ترقی اسے دی ہے۔
٭ حضرت صاحب نے ایک پیکٹ میں خط ڈال دیا جس کا ڈالنا ڈاکخانہ کے قواعد کی رُو سے منع تھا مگر آپؑ کو اس کا علم نہ تھا۔ ڈاکخانہ والوں نے آپ پر نالش کر دی اور اس کی پیروی کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا کہ آپ کو سزا ہو جائے تاکہ دوسرے لوگ ہوشیار ہوجائیں۔ آپؑ کے وکیل نے آپؑ کو کہا کہ آپؑ کہہ دیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا، شرارت اور دشمنی سے کہا جاتا ہے کہ پیکٹ میں ڈالا تھا۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ تو جھوٹ ہوگا۔ وکیل نے کہا اس کے سوا بچنے کی کوئی راہ نہیں مگر آپؑ نے فرمایا کہ کچھ ہو میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا۔ چنانچہ عدالت میں جب آپ سے پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ خط مَیں نے ہی پیکٹ میں ڈالا تھا مگر مجھے ڈاکخانہ کے اس قاعدہ کا علم نہ تھا۔ اس پر استغاثہ کی طرف سے لمبی چوڑی تقریر کی گئی اور کہا گیا کہ سزا ضرور دینی چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں تقریر چونکہ انگریزی میں تھی اس لئے میں اَور تو کچھ نہ سمجھتا تھا لیکن جب حاکم تقریر کے متعلق No-No کہتا تو اس لفظ کو سمجھتا۔ آخر تقریر ختم ہوئی تو حاکم نے کہہ دیا: بَری۔ اور کہا: جب اس نے اس طرح سچ سچ کہہ دیا تو میں بری ہی خیال کرتا ہوں۔
٭ ایک دفعہ ایک سیّدانی ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی: میں آل رسول ہوں مجھے کچھ دو۔ حضرت صاحب نے اور گھر کے لوگوں نے بھی کچھ دیا۔ پھر اس نے پانی مانگا مگر جب عورت نے اسے پانی دیا تو سخت ناراض ہوکر کہنے لگی: اُمتیوں کے گلاس میں مجھے پانی دیتی ہے، ہم سادات آل رسول ہیں، اوّل تو پانی پلانے کے لئے نیا گلاس چاہئے تھا اور اگر پرانے میں پانی دینا تھا تو پہلے اسے اچھی طرح مانجھنا تھا۔
٭ میں چھوٹا بچہ تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ مدرسہ کے بورڈنگ میں ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور جیسے ڈرتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ مجھے ہنسی آگئی اور میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا سنا ہے حضرت مسیح موعودؑ کو ریوڑیاں پسند ہیں اس سنت کو پورا کرتا ہوں۔ میں نے کہا آپؑ تو کونین بھی کھاتے ہیں وہ بھی کھاؤ۔
٭ ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازہ پر آیا۔ مَیں نے اسے ٹیپو کہہ کر اشارہ کیا۔ اس پر حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر رکھ دیا ہے۔ خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا‘‘۔ میری عمر شاید آٹھ، نو سال کی تھی۔
اس روایت کے حوالہ سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا: اس واقعہ سے جہاں ایک طرف یہ نتیجہ نکلتاہے کہ بچے کے ہر فعل کو بلاامتیاز برداشت کرنا حلم کی تعریف میں داخل نہیں، وہاں حضرت صاحب کی بے پناہ دینی اور قومی حمیت کا بھی انداز ہ ہوتا ہے۔ وہ بچہ جو آپؑ کے نہایت محنت سے لکھے ہوئے قیمتی مسودات کو جن پر خدا جانے کتنے گھنٹوں یا راتوں کی محنت آپ نے صرف فرمائی ہوگی، آن واحد میں تیلی دکھا کر خاکستر کر دیتا ہے، اس کا یہ فعل تو آپؑ برداشت فرمالیتے ہیں لیکن ایک مسلمان سلطان جو قومی حمیت میں شہید ہؤا اور جس کے ساتھ آپ کا اسلام کے سوا کوئی اَور رشتہ نہ تھا، اس کے نام کو ایک بچہ کا لاعلمی کی بناء پر بھی اس رنگ میں لینا جس سے اس کی تحقیر ہوتی ہو، آپ سے برداشت نہ ہوسکا۔
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو حضرت صاحب پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں