حضرت مصلح موعودؓ کی پُرکشش شخصیت اور پُرحکمت بیان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 فروری 2011ء میں مکرم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں چند پُرحکمت امور بیان ہوئے ہیں۔
٭ ایک غیرازجماعت دانشور نے قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ کا خطاب سننے کے بعد لکھا: سارا ہجوم اس پاک نفس کی ایک چھوٹی انگلی کے اشارے پر چل رہا ہے۔ ہر شخص سر تسلیم خم کرتا ہوا اور اپنے امام کی محبت میں رنگین ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یہ شخص قلم کا دھنی بھی ہے۔ تقریر کا اعلیٰ درجہ کا ماہر بھی اور تنظیم کا اعلیٰ درجہ کا گورنر بھی۔
٭ ایک معزز غیرازجماعت رئیس نے بریڈلا ہال لاہور میں حضورؓ کی معرکۃالآراء تقریر سننے کے بعد لکھا: ایک نہایت قابل قدر اور برجستہ تقریر کی جس کی دشمن بھی داد دینے لگے۔ سامعین پر وجد طاری ہوگیا۔ مسٹر جے ویو بیرسٹر نے بے ساختہ کہا: مجھ پر اس تقریر کا جتنا اثر ہوا کبھی کسی تقریر کا نہیں ہوا۔ رائے صاحب نندرام اکثر تعریف کرتے تھے کہ مرزا صاحب نہایت اچھا بولنے والے ہیں اور ان کی تقریر کا ہر ایک شخص پر اثر ہوتا ہے۔
٭ جب حضورؓ نے کتاب ’’تحفۃالملوک‘‘ لکھی تو قادیان میں خود ہی ایک اجلاس میں پڑھ کر سنائی۔ یہ نہایت رقّت آمیز اور مؤثر واقعہ تھا جس کے دوران باوجود گرمی کی تپش اور ہوا کی بندش کے سامعین ایک محویت کے عالم میں بُت بنے بیٹھے تھے۔ اس کتاب کے متعلق ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب نے لکھا کہ: ایک شخص نے حضور کا ’’تحفۃالملوک‘‘ پڑھا۔ کہتا تھا کہ یہ شخص اس طاقت اور قوّت کا معلوم ہوتا ہے کہ جس پر کوئی بھی انسان غالب نہیں آسکے گا۔ پھر اس نے ’’القول الفصل‘‘ پڑھ کر بھی رائے قائم کی کہ یہ ایک عجیب ہی شان کا انسان معلوم ہوتا ہے جس کے کلام میں بچپن یا جوشِ شباب یا ناتجربہ کاری یا پست ہمّتی کا شائبہ تک نہیں بلکہ بہت بڑے دماغ اورعجیب شان کا انسان ہے جس کے کلام میں قوّت و عظمت اور جلال کی روح پائی جاتی ہے۔
٭ بریڈلا ہال میں حضورؓ کی تقریر کا عنوان ’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘ تھا۔ یہ خطاب سننے کے بعد صدر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور جناب سید عبدالقادر صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر نہایت اصرار اور اشتیاق سے درخواست کی کہ قرون اولیٰ میں پیدا ہونے والے فتنوں کی وجوہ اور اسباب کے متعلق بھی ضرور تقریر فرمائیں۔ حضورؓ نے اُن کی اس خواہش کا پاس کرتے ہوئے اس نہایت مشکل اور دقیق موضوع پر صرف دو دن بعد ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ اس تقریب کی صدارت جناب سید عبدالقار صاحب نے کی اور حضورؓ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: آج کے لیکچرار اس عزت، شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب ناواقف ہوں۔ آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچادیا تھا۔
خطاب کے بعد جناب سیّد صاحب نے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلّل مضمون، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہوگا۔
٭ ایک سخت مخالف وکیل جو بقول خود تماشہ دیکھنے قادیان گئے تھے، لیکن حضورؓ کا خطاب سننے کے بعد لکھتے ہیں: حضورؓ کی باتیں انجمن خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں سنیں۔ اس گراں مایہ شخصیت کے متعلق جتنے شکوک مَیں اپنے دل میں لے کر آیا تھا تمام کے تمام اس طرح مٹ گئے کہ گویا کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اتنا سادہ اور پُرزور کلام مَیں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ سادہ باتوں میں خدا جانے کہاں کی جاذبیت تھی کہ مَیں نے ایک ایک لفظ ہمہ تن گوش ہوکر سنا اور اپنے آپ کو زندہ سے زندہ تر پایا۔ (جلسہ سالانہ میں) حضور کی دیگر تقاریر بھی اپنی سادگی، برجستگی اور تاثیر کے لحاظ سے بے مثل تھیں۔ باوجود ان تأثرات کے مَیں پکّا غیراحمدی رہا اور گھر کو روانہ ہوا۔ گاڑی میں بہت سے لوگ احمدی تھے۔ ایک شخص کے پاس چند کتب تھیں۔ مَیں نے دفع الوقتی کے لئے کتاب ’’انقلاب حقیقی‘‘ اٹھالی اور پڑھنے لگا۔ اس کتاب کے ختم کرنے تک مَیں احمدی ہوچکا تھا۔ گھر آکر بیعت کا فارم پُر کرکے امیر جماعت سیالکوٹ کو بھجوادیا جس کے زیرعنوان یہ فی البدیہہ رباعی تھی:

عید قرباں ہے آج اے تنویرؔ
مجھ پہ ہے فضلِ ربّ سبحانی
پیش کرتا ہوں روح و قلب و دماغ
کاش منظور ہو یہ قربانی

یہ سیالکوٹی وکیل مشہور صحافی، صاحب طرز ادیب اور نامور شاعر محترم شیخ روشن دین صاحب تنویر تھے جو لمبا عرصہ اخبار الفضل کے مدیر بھی رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں