حضرت مصلح موعودؓ اور قبولیتِ دعا

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے فروری 1998ء کے شمارہ میں مکرم مولوی عبدالرحمٰن دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ دہلی کے مکرم ماسٹر محمد حسن آسان صاحب ، جو مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب کے والد محترم تھے، سرکاری دفتر سے فارغ ہوتے تو سا را وقت تبلیغ میں صرف کردیتے یا جماعتی کاموں میں جُتے رہتے۔ اُن کی ایک صاحبزادی اچانک بیمار ہوگئیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ تپدق ہوگئی ہے اور اس درجہ پر ہے کہ مریضہ لاعلاج ہے۔ تاہم مکرم ماسٹر صاحب نے علاج جاری رکھا اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تفصیلی خط لکھ کر دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ کا جواب آیا ’’میں نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا‘‘۔
چند دنوں کے بعد مکرم ماسٹر صاحب نے محسوس کیا کہ مریضہ رُو بصحت ہے چنانچہ وہ اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے طبّی معائنہ کیا اور ایکسرے لئے تو کہا کہ ماسٹر صاحب! آپ غلطی سے اپنی دوسری بیٹی لے آئے ہیں، اس کو تو تپدق نہیں ہے۔ ماسٹر صاحب نے اصرار کیا کہ یہ وہی بچی ہے جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر نے دوبارہ تفصیلی معائنہ کیا اور کہا کہ رپورٹ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بچی کو کبھی تپ دق ہوئی ہی نہیں۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 1998ء میں مجلۃالجامعہ سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ مکرم میاں روشن دین صاحب صراف کے ایک بیٹے 1947ء میں بیمار ہوگئے اور آپ اُسے اپنے ہمراہ قادیان لے گئے جہاں کئی ڈاکٹروں سے علاج ہوتا رہا لیکن آخر میں سب نے مشورہ دیا کہ لڑکے کو لاہور لے جائیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے عرض کی گئی تو آپؓ نے فرمایا کہ بچہ مجھے لاکر دکھائیں۔ جب بچہ کو حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؓ نے دعا کرتے ہوئے لاہور جانے کی اجازت دی اور یہ بھی فرمایا کہ میں دعا کرتا رہوں گا۔ … لاہور میں میو ہسپتال کے سرجن نے مایوس ہوکر کہہ دیا کہ یہ لڑکا نہیں بچے گا، اِسے واپس لے جاؤ چنانچہ بچہ کو واپس لے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں سے یہ کرشمہ دکھایا کہ بچے کے پیٹ میں جو غدودیں پیپ سے بھر گئی تھیں ان کی پیپ ناف کے ذریعہ خارج ہوتی گئی اور بچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہوگیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں