حضرت مصلح موعودؓ اور تفسیر کبیر

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے 17فروری 2000ء (مصلح موعود نمبر) میں حضرت مصلح موعودؓ اور تفسیر کبیر کے عنوان سے مکرم مولوی مظفر احمد خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
تفسیرکبیر دس جلدوں میں 5906؍صفحات پر مشتمل ہے۔ تحریر نسبتاً باریک رکھی گئی ہے تاکہ کم سے کم جلدوں میں مواد آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کو قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر کا جو غیرمعمولی اعجاز بخشا تھا اس کا اظہار کرتے ہوئے آپؓ نے علماء دین اور دانشوروں کو چیلنج دیا کہ مقابل پر تفسیر لکھیں۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ و گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور چشمۂ روحانی جو میرے سینے میں پھوٹا وہ خیالی قیاسی نہیں بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ مَیں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے کہ جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہو تو مَیں ہر وقت مقابلہ کیلئے تیار ہوں۔ لیکن مَیں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علم قرآن بخشا اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کیلئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے‘‘۔
حضورؓ اپنا ایک کشف بھی بیان فرماتے ہیں جس میں خدا کے ایک فرشتے نے آپؓ کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھائی۔ حضورؓ فرماتے ہیں: ’’یہ رؤیا اصل میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل و دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، کسی موقعہ پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ مَیں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اس کے متعلق مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں‘‘۔
حضورؓ فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ بسم اللہ ہر ایک سورۃ کی کنجی ہے، تبھی ہر سورۃ کے ساتھ نازل ہوئی ہے‘‘۔
نیز فرمایا: ’’ترتیب کا مضمون ان مضامین سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طور پر سمجھائے ہیں‘‘۔
فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کی ترتیبیں بیسیوں آیات کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئیں۔ مثلاً سورۃ بروج اور سورۃطارق کا یہ جوڑ کہ ان میں سے ایک سورۃ میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری سورۃ میں یہودیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی ان مضامین میں سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ان کو ظاہر فرمایا اور مجھے وہ دلائل دیئے جن سے مَیں اپنے اس استدلال کو پوری قوت سے ثابت کرسکتا ہوں‘‘۔
اسی طرح فرمایا: ’’کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصاً نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کردیا‘‘۔
مضمون نگار نے متعدد آیات کے حوالہ سے بعض مترجمین کے تراجم کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ مثلاً آیت: اللّٰہُ یَسۡتَھۡزِیُٔ بِھِمۡ کا حضورؓ نے ترجمہ کیا: ’’اللہ انہیں ان کی ہنسی کی سزا دے گا‘‘۔
مولانا اشرف علی صاحب تھانوی: ’’اللہ تعالیٰ استہزا کر رہے ہیں ان کے ساتھ‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب: ’’اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے‘‘۔
اسی طرح آیت: وَاللّٰہُ خَیۡرُالۡمَاکِرِیۡنَ کا ترجمہ حضورؓ نے یوں کیا: ’’اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔
مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی صاحب: ’’اور مکر کیا اللہ تعالیٰ نے اور اللہ بہتر ہے مکر کرنے والوں کا‘‘۔
مولانا فتح محمد خان جالندھری صاحب: ’’اور خدا خوب چال چلنے والا ہے‘‘۔
اسی طرح حضرت یوسفؑ اور بعض دیگر انبیاء کے بارہ میں آیات کریمہ کے بعض مترجمین نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ نبی کی عصمت کو داغدار کرتے ہیں مگر حضورؓ عصمت انبیاء کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن آیات کا ترجمہ و تفسیر فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں نے حضورؓ کے ترجمہ و تفاسیر کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔
علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپکے تبحر علمی، آپکی وسعت نظر، آپکی غیرمعمولی فکر و فراست، آپکا حسن استدلال، اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے‘‘۔
سید جعفر حسین، B.A; LLB. ، حیدرآباد دکن لکھتے ہیں: ’’مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ اس میں وہ سب کچھ تھاجس کی مجھے تلاش تھی۔ تفسیر کبیر پڑھ کر مَیں اسلام سے پہلی دفعہ روشناس ہوا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں