حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ماموریت کا چوبیسواں سال

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جنوری 2005ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے ماموریت کے چوبیسویں سال (1905ء) کے مختصر حالات (مرتبہ: حبیب الرحمٰن زیروی صاحب) شامل اشاعت ہیں۔

حبیب الرحمن زیروی صاحب

٭ 1905ء کا آغاز اس مقدمہ کی فتح کے ساتھ ہوا جو مولوی کرم دین نے آپؑ کے خلاف دائر کر رکھا تھا اور جس میں ماتحت عدالت نے آپ پر پانچ سو روپیہ جرمانہ کیا تھا۔ عدالت اپیل نے نہ صرف آپؑ کو بری کیا بلکہ جرمانہ بھی واپس دلایا۔
٭ 4؍ اپریل 1905ء کو حضورؑ کی بعض پیشگوئیوں کے مطابق شمالی ہندوستان میں ایک خطرناک زلزلہ آیا جس کا مرکز ضلع دھرم سالہ کے پہاڑ تھے۔ مگر تباہی صرف دھرم سالہ تک محدود نہیں تھی بلکہ پنجاب کے ایک بہت بڑے علاقہ میں تباہی آئی اور ہزاروں جانیں اور لاکھوں روپے کی جائیداد تباہ ہوگئی۔
٭ 5؍مئی 1905ء کو حضرت مسیح موعودؑ کو ایک رؤیا میں یہ الفاظ دکھلائے گئے۔ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا‘‘۔ یہ الفاظ افغان حکومت میں ایک انقلاب کی پیشگوئی پر مشتمل تھے جو 8؍دسمبر 1933ء کو پوری شان سے پوری ہوئی۔ چنانچہ 1929ء میں جب امیر امان اللہ خاں والیٔ افغانستان کی حکومت کا تختہ امیر حبیب اللہ خاں نے اُلٹ دیا تو افغانوں نے فرانس سے نادر خاں (1880ء تا 1933ء) کو بلوا کر تخت حکومت پر بٹھادیا اور نادر خاں نے اپنے خاندانی اور ملکی لقب ’’خان ‘‘ کو چھوڑ کر ’’شاہ‘‘ کا لقب اختیار کیا اور نادر شاہ کہلانے لگا۔ نادرشاہ 8؍نومبر1933ء کو عین دن کے وقت عبد الخالق نامی ایک شخص کے ہاتھوں مجمع عام میں قتل ہوگیا اور اس طرح الہام لفظ بلفظ پورا ہوا۔
٭ سلسلہ احمدیہ کے دو بزرگوں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت برہان الدین صاحب جہلمیؓ کی وفات کی وجہ سے، جو 1905ء میں ہوئی، جماعت میں ایک خلا محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ علماء تیار کرنے کے لئے ایک دینی درسگاہ کے قیام کی تجویز ہوئی۔اور مدرسہ احمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
٭ 22؍اکتوبر 1905ء کو اتوار کے روز صبح کے وقت حضرت مسیح موعودؑ دہلی کے سفر پر قادیان سے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں۔ پھر دیکھا کہ ان پر قُفل لگے ہوئے ہیں۔ دہلی میں حضورؑ نے چتلی قبر میں الف خاں کے مکان پر قیام فرمایا۔
٭ 24؍اکتوبر 1905ء کی صبح حضرت مسیح موعودؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے تو دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ آپؑ نے فرمایا : لہو ولعب کے طور پر پھرنا درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اللہ کی قبریں ہیں۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔
چنانچہ آپؑ بمع خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر پہلے حضرت خواجہ باقی باللہؒ کے مزار پر پہنچے۔ راستہ میں حضرت نے زیارت قبور کے متعلق فرمایا: قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لئے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔”
4؍نومبر1905ء کی شام کو حضور واپسی کی غرض سے مع خدام دہلی کے اسٹیشن پر پہنچے۔ خواجہ حسن نظامی بھی مشایعت کے لئے پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگان دہلی کے مقام اور مرتبہ سے متعلق ایک تحریر بھجوائیں۔ حضور نے ان کی درخواست منظور فرمائی۔
5نومبر1905ء کی صبح 11بجے حضورؑ لدھیانہ پہنچے۔ اُسی شام کو ہی حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب کا لدھیانہ میں ایک وعظ ہوا جو بہت ہی پسند کیا گیا۔ 6نومبرکی صبح کو حضرت اقدس نے کچھ نصائح فرمائیں۔
6نومبر 1905ء کو ہی حضورؑ نے کئی ہزار کے مجمع میں ایک عام تقریر فرمائی جس میں اسلام کی سچائی اور اس کی موجودہ حالت اور اصلاح کے وسائل کا ذکر فرمایا۔ نیز اپنے دعاوی کے دلائل بھی بیان فرمائے۔ یہ تقریر ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک متواتر تین گھنٹہ تک ہوتی رہی اور لوگ پورے سکون کے ساتھ سنتے رہے۔ اسے لیکچر لدھیانہ کے نام سے شائع کیا گیا۔
حضرت اقدسؑ 8نومبر کی صبح لدھیانہ سے امرتسر تشریف لائے اور دور وز تک اُس مکان میں قیام فرمایا جہاں 1893ء کے مباحثہ ’’جنگ مقدس‘‘ کے دوران ٹھہرے تھے۔ 9نومبر کی صبح امرتسر میں بھی حضور کی ایک تقریر ہوناقرار پائی۔ 8بجے کے بعد حضور نے تقریر شروع فرمائی جس میں پہلے یہ بیان فرمایا کہ قریباً چودہ سال پہلے مجھ پر کفر کا فتویٰ دیا گیا اور مولوی عبدالخالق غزنوی نے میرے ساتھ مباہلہ کیا جس کے بعد خدا تعالیٰ نے میری بہت مدد فرمائی۔ تین لاکھ سے زیادہ آج میرے مرید ہیں اور کثرت سے مخلصین میرے ساتھ ہیں۔ مخالفوں کی زبردست کوششوں اور منصوبوں کے باوجود خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کیا۔ غرض پون گھنٹہ کے قریب حضور نے تقریر فرمائی۔
10نومبر 1905ء کو بروز جمعہ، دوپہر بارہ بجے حضورؑ مع خدام قادیان پہنچ گئے جہاں نماز جمعہ باجماعت ادا فرمائی۔
جلد ہی خواجہ حسن نظامی صاحب کی ایک تحریر اپنی درخواست کی یاددہانی کے لئے حضور کی خدمت میں پہنچی۔ حضورؑ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’دہلی میں میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق وصفا اور عاشقان حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت سے جوروجفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے ان کے متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کرلوں۔ پس میں اس نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین ولی اللہ رضی اللہ عنہ کے مزار متبرک پر گیا اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کے متبرک مزاروں پر بھی۔ خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کر دے۔‘‘
٭ اللہ تعالیٰ نے 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا کہ یہ آخری حصہ زندگی گزر رہا ہے۔ اس پر آپ نے ’’الوصیت‘‘ نام سے ایک وصیت لکھ کر شائع فرمائی اور اس میں ان سارے الہامات کو درج کر کے اس بات کو ظاہر کیا کہ اب میری وفات قریب ہے اور آپ نے اپنی تعلیم کا خلاصہ بیان کرکے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ وہ آپ کے بعد آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر قائم رہے اور درمیانی ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی سنت اللہ کے ماتحت ضروری ہوتا ہے۔ اور آپ نے لکھا کہ نبیوں کا کام صرف تخم ریزی تک محدود ہوتا ہے۔ پس میرے ذریعہ سے یہ تخم ریزی ہو چکی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر اک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔
’’الوصیت‘‘ میں حضور نے جماعت کو یہ وصیت بھی فرمائی کہ ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے‘‘۔
اس کے علاوہ حضور نے خدائی بشارت کے ماتحت ایک مقبرہ کی تجویز بھی کی۔ جس کے متعلق حضور کا منشا تھا کہ اس میں ان صادق الارادت لوگوں کی قبریں ہوں جنہوں نے اپنی زندگی نیکی، تقویٰ اور طہارت میں گزاری ہو اور مالی اور جانی قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی ہو اور اس مقبرہ کا نام حضور نے الٰہی منشا کے ماتحت بہشتی مقبرہ رکھا ۔
حضور نے اس مقبرہ کے انتظام کے لئے ایک انجمن بھی بنائی جس کا صدر حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب کو مقرر فرمایا۔ اور اس بات کو لازمی قرار دیا کہ کم از کم دو ممبر اس انجمن کے عالم دین ہونے چاہئیں۔ اس انجمن کا کام ’’بہشتی مقبرہ‘‘ کی آمد کی حفاظت، اسے فروغ دینا اور خرچ کرنا تھا اور اس کا نام ’’انجمن کارپردازان مصالح بہشتی مقبرہ‘‘ تجویز فرمایا۔ نیز الوصیت کے ساتھ بطور ضمیمہ درج فرمایا کہ ’’مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے‘‘۔
خواجہ کمال الدین صاحب نے مشورہ دیا کہ بہشتی مقبرہ والی انجمن کو قانونی وسعت دے کر دوسرے جماعتی اداروں (مثلاً رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور مدرسہ تعلیم الاسلام وغیرہ) کو بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا جائے اور اس کا نام صدر انجمن احمدیہ رکھا جائے۔ جماعتی تنظیم کے اعتبار سے یہ ایک معقول اور مفید تجویز تھی اس لئے حضورؑ نے اسے قبول بھی فرمالیا اور اس کے قواعد وضوابط تجویز کر لئے گئے جو ’’الحکم‘‘ اور ’’بدر‘‘ میں جماعت کی اطلاع کیلئے شائع بھی کر دئیے گئے۔ اس طرح موجودہ صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد پڑی۔
٭ 1905ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو تصانیف تحریر فرمائیں وہ یہ ہیں:
(1) ’’براہین احمدیہ حصہ پنجم‘‘ آپؑ نے 1905ء کے ابتدا میں لکھنا شروع کی تھی اور اس کانام ’’نصرت الحق‘‘ بھی رکھا تھا۔ یہ کتاب حضورؑ کے وصال کے بعد 15؍اکتوبر 1908ء کو شائع ہوئی۔
(2) رسالہ ’’الوصیت‘‘۔
(3) لیکچر لدھیانہ (جو 6نومبر کو لدھیانہ میں دیا تھا)
(4) 27؍دسمبر 1905ء کو نماز ظہر وعصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں حضورؑ نے ایک پُرمعارف تقریر فرمائی جو بعد میں ’’احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
٭ 1905ء میں کئی بزرگ وفات پاگئے جن میں حضرت منشی عبد الحمید خان صاحب کپورتھلویؓ ، حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ ایڈیٹر ’’البدر‘‘، حضرت مولوی جمال الدین صاحبؓ سید والہ، نیز حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی بڑی اہلیہ حضرت فاطمہؓ اور اُن کے صاحبزادے عبد القیوم صاحب بھی اسی سال فوت ہوگئے۔یوں تو سلسلہ کو ان بزرگوں اور دوستوں کی جدائی کا نقصان پہنچا مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ جیسے بلندپایہ علماء کی مفارقت نے تو پوری جماعت کو سوگوار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت 12؍ستمبر1905ء کو ان حوادث کے بارے میں حضورؑ کو الہاماً بتادیا تھا کہ ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں