حضرت مسیح موعودؑ اور تربیت اولاد

ماہنامہ خالد فروری 2010ء میں مکرم عبدالکبیر قمر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بچوں کی تربیت کے حوالہ سے چند امور بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیحد مصروف الاوقات ہونے کے باوجود بچوں کی تربیت کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے اور جن مختلف طریقوں سے بچوں کی تربیت فرماتے ان میں سے اوّل طریق دعا تھا۔ چنانچہ آپؑ خود فرماتے ہیں: ’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔‘‘
٭ بڑوں کے ادب کی تعلیم دینے کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے حجرہ میں کھڑے تھے۔ والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں۔ میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین صاحب (جو حضرت مسیح موعودؑ کے شدید معاند تھے) کا نام لیا تو صرف ’’نظام الدین‘‘ کہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیتے‘‘۔
٭ ایک دفعہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلبہ کو مضمون دیا گیا کہ ’’علم اور دولت کا مقابلہ کرو۔‘‘ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے اس پر بہت غوروفکر کی اور بعض ہم مکتب اور ہم جماعتوں سے بحث بھی کی، مگر آپ کے قلب مطہر نے علم اور دولت میں سے کسی کو کافی اور یقینی طور پر بہتر ہونے کا فتویٰ نہ دیا۔ کھانے پر جب حضور علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے تو آپؓ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ سے پوچھا کہ علم اچھا ہے یا دولت؟ حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ تو خاموش رہے البتہ حضورعلیہ السلام نے یہ بات سن کر فرمایا: ’’بیٹا محمود! توبہ کرو۔ توبہ کرو۔ نہ علم اچھا نہ دولت۔ خدا کا فضل اچھا ہے‘‘۔
٭ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی روایت کرتے ہیں: ’’حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ بچے کیسے ہی بسوریں شوخی کریں، سوال میں تنگ کریں اور بے جا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیرموجود شے کے لیے حد سے زیادہ اصرار کریں آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں، نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں۔ محمود (مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) کوئی تین برس کا ہوگا۔ آپ لدھیانہ میں تھے۔ میں بھی وہیں تھا مردانہ اور زنانہ میں ایک دیوار حائل تھی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا جو میں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت کے اِدھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی۔ حضرت اسے گود میں لیے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چُپ نہیں ہوتا تھا۔ آخر آپ نے کہا: دیکھو محمود! کیسا تارا ہے۔ بچہ نے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہوا۔ پھر وہی رونا اور چلّانا اور یہ کہنا شروع کر دیا۔ ’’ابا تارے جانا‘‘۔ کیا مجھے مزا آیا اور پیارا معلوم ہوا آپ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا۔ یہ اچھا ہوا، ہم نے ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضدّ کی راہ نکال لی۔ آخر بچہ روتے روتے خود ہی تھک گیا، چپ ہوگیا، مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپ کی زبان سے نہ نکلا۔‘‘
٭ مکرم خان محمد یحییٰ صاحب بیان کرتے ہیں: ’’حضرت (اماں جانؓ) کو کسی کام کی ضرورت پیش آتی تو ہم بورڈنگ تعلیم الاسلام کے چھوٹے چھوٹے بچے جو اُن دنوں موجودہ مدرسہ احمدیہ میں ہی رہتے تھے، کام کرنے کی خاطر شوق سے آجاتے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم بچوں کے متعلق دریافت فرماتے۔ یہ کون ہے، وہ کون ہے؟ خاکسار کے متعلق ایک مرتبہ دریافت فرمایا تو حضرت (اماں جانؓ) نے فرمایا۔ انوار حسین صاحب آموں والے کے لڑکے ہیں۔ فرمانے لگے کہ اس کو کہو کہ بیٹھ جائے اور کام نہ کرے۔ مجھے بٹھا دیا اور دوسرے لڑکے کام کرتے رہے۔‘‘
٭ مکرم خان محمد یحییٰ صاحب بیان کرتے ہیں: ’’ایک مرتبہ سخت سردی پڑی جس سے ڈھاب کا پانی بھی جمنے لگا۔ ان ایام میں، مَیں گرم علاقہ کا رہنے والا ہونے کے باعث سردی زیادہ محسوس کرتا تھا اور بورڈنگ میں تقریباً سب لڑکوں سے چھوٹا تھا۔ فجر کی نماز کے لیے مَیں بھی سردی محسوس کرتا تھا۔ حضور سے غالباً ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے سابق مہر سنگھ نے ذکر کیا ہوگا۔ انہوں نے ایک دن میرے پاس آکر کہا کہ حضور نے فرمایا ہے: اس چھوٹے بچہ کو سردی میں تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے اسے مسجد میں نماز فجر کے لیے نہ لے جایا کرو۔ اس دن سے مجھے فجر کی نماز سردیوں بھر بورڈنگ میں ادا کرنے کا حکم مل گیا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں