حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق کریمانہ (عیادتِ مریض)

آنحضرت ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق کے بیان میں عیادت مریض کو اوّلیت دی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب قرار دیا ہے۔ خود آنحضرت ﷺ مریض کی عیادت میں مسلم و غیرمسلم کا کوئی امتیاز روا نہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن مریض کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25 و 26؍مارچ 1999ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلق کریمانہ کا بیان کرتے ہوئے مکرم نصراللہ خان صاحب ناصر نے تیمارداری اور عیادت کو موضوع بنایا ہے۔
حضرت مہر حامد علی صاحبؓ کا مکان قادیان سے باہر وہاں تھا جہاں کوڑاکرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اور وہ زمیندار تھے اس لئے گھر میں بھی صفائی کا التزام نہ تھا۔ مویشیوں کا گوبر اور اسی قسم کی دوسری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ وہ بیمار ہوئے تو حضرت مسیح موعودؑـ بارہا اُن کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ ہمراہ جانے والے اصحابؓ قدرتی طور پر تعفن اور بدبو سے سخت تکلیف محسوس کرتے لیکن حضورـ نے کبھی اشارتاً بھی اس کا اظہار نہ کیا اور نہ اس تکلیف نے آپ کو اُن کی عیادت اور خبرگیری سے روکا۔ آپ جب جاتے تو اُن سے بہت محبت اوردلجوئی کی باتیں کرتے، مرض کے متعلق دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے، ادویات بھی بتاتے اور توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے۔ اگرچہ وہ معمولی زمیندار ہونے کی وجہ سے حضور کی رعایا کا ایک فرد تھے لیکن دیکھنے والے صاف طور پر کہتے کہ کوئی عزیزوںکی خبرگیری بھی اس طرح نہیں کرتا۔
حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ اپنے ایک ناسور کے علاج کے سلسلہ میں قادیان آئے۔ یہاں انہیں ایک مرتبہ طاعون ہوگیا۔ حضور نے اُن کے لئے ایک خیمہ کھلی ہوا میں لگوا دیا اور حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ کو تیمارداری کے لئے مقرر کیا۔ حضرت شیخ صاحبؓ نے حضور کے حکم کی تعمیل میں ایثار و قربانی کا وہ نمونہ دکھایا جو قلبی تعلق کے بغیر ممکن نہیں۔ حضور روزانہ دو تین مرتبہ خاص طور پر مولوی صاحبؓ کی خبرمنگواتے اور اپنے ہاتھ سے دوائی تیار کرکے بھیجتے۔ اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی اور پھر مولوی صاحبؓ قادیان کے ہی ہوکر رہ گئے۔ یہیں رہتے ہوئے آپ نے بی۔اے کیا اور پھر امریکہ میں تبلیغ کی سعادت پانے کے علاوہ رسالہ ریویو کے ایڈیٹر، تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر اور مینیجر بھی رہے۔
حضرت مولانا یعقوب علی عرفانی صاحبؓ 1901ء میں ناسور ہونے کی وجہ سے سخت بیمار ہوگئے اور جب ایک سال تک مختلف ڈاکٹروں کے علاج سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو کسی کے مشورہ پر قادیان آگئے۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے ناسور دیکھا تو فرمایا کہ اس کا رُخ دل کی طرف ہوگیا ہے اس کے لئے دوا کی نسبت دعا کی زیادہ ضرورت ہے۔ چنانچہ نماز کے وقت مسجد میں جب حضورؑ تشریف لائے تو حضرت مولوی صاحبؓ نے آپؓ کو پکڑ کر حضور کے سامنے کردیا اور صرف اتنا کہا کہ بہت خطرناک مرض ہے۔ حضور نے مرض کی بابت دریافت کیا تو آپؓ جو تیرہ ماہ سے اذیت میں مبتلا تھے، حضور کے چہرہ پر ہمدردی کے آثار دیکھ کر اور زبان مبارک سے پاک کلمات سن کر چشم پُرآب ہوگئے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں اپنی بساط کو جانتا تھا، میری حالت یہ تھی ، محض ایک لڑکا، میلے اور پرانے دریدہ وضع کپڑے، چھوٹے درجہ اور چھوٹی قوم کا آدمی۔ میرے منہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہوگئے‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’مَیں تمہارے لئے دعا کروں گا، انشاء اللہ اچھے ہو جاؤگے‘‘۔ تب حضرت مولوی صاحبؓ نے دوا شروع کی اور آپؓ ایک ہی مہینہ میں تندرست ہوگئے۔ اس کے بعد آپؓ نے اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر قادیان میں ہی رہائش اختیار کرلی۔
ایک موقع پر حضرت عرفانی صاحبؓ کو طاعون ہوگئی۔ حضور نے نہ صرف خاص طور پر دعا کی بلکہ دوا بھی اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے بھجواتے رہے اور دو تین وقت خبر منگواتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا ہوئی۔ حضور کی شفقت کے ذکر میں آپؓ بیان کرتے ہیں ’’مجھے یہ محبت و شفقت اپنے گھر میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملی تھی، اس لئے مَیں تو گرویدہ حسن و احسان ہوگیا‘‘۔
اسی طرح حضرت عرفانی صاحبؓ جب حضورؑ کے ہمراہ ایک سفر کے دوران رات گئے دردِ معدہ سے اچانک بیمار ہوئے تو آپؓ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے قریب آکر لیٹ گئے کہ جب وہ کروٹ لیں گے تو مَیں عرض کروں گا۔ اسی اثناء میں آپؓ کے منہ سے ہائے نکلی تو ساتھ کے کمرہ سے حضرت مسیح موعودؑ فوراً تشریف لائے اور پوچھا میاں یعقوب علی کو کیا ہوا؟۔ ساتھ ہی دوسرے احباب بھی اٹھ بیٹھے ۔ جب صبح قافلہ قادیان روانہ ہورہا تھا تو آپؓ نے خدمت اقدسؑ میں عرض کیا کہ حضورؑ یا مجھے ساتھ لے جائیں یا لاہور پہنچادیں۔ حضور بار بار آپؓ کو تسلی دیتے کہ مَیں انتظام کرکے جاؤں گا، تم کو آرام آ جائے گا، اگر کہوگے تو مَیں آج نہیں جاؤں گا۔… چنانچہ حضورؑ نے دو اصحاب کو آپؓ کی خدمت کے لئے پیچھے چھوڑا اور اس مقصد کے لئے ایک خاص رقم بھی انہیں دی۔ پھر جب آپؓ کو کچھ افاقہ ہوا تو یہ تینوں بھی قادیان چلے آئے اور وہاں چند روز میں آپؓ کامل شفایاب ہوگئے۔
حضرت اقدسؑ کا ایک خادم پیرا پہاڑیا تھا جس کی حالت نیم وحشی سی تھی اور وہ ہر ایک قسم کے آداب اور انسانیت کے معمولی لوازم سے بھی ناواقف تھا۔ اُسے ایک بار طاعون ہوا تو حضور نے کھلی ہوا میں خیمہ لگواکر اُس میں ٹھہرایا اور تیمارداری کے لئے خان اکبر خان صاحب کو مقرر کیا اور کیوڑہ کے قیمتی عرق کی کئی بوتلیں اُن کے سپرد کیں اور جونکیں لگوانے کے ساتھ ساتھ مختلف ہدایات دے کر فرمایا کہ اس کے علاج میں کسی خرچ کا مضائقہ نہ کیاجاوے۔ خان صاحب نے جونکوں والے کو تلاش کیا لیکن جونکیں مہیا نہ ہوسکیں۔ حکم کی تعمیل نہ ہوئی۔ پیرا فوت ہوگیا۔ اس پر حضور نے خانصاحب کو جونکیں مہیا نہ کرنے پر سخت خفگی کا اظہار کیا۔
اگست 1905ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیمار ہوئے ۔ کاربنکل کا اپریشن متعدد مرتبہ کروانا پڑا۔ بعض اوقات سخت نازک حالت ہوگئی۔ حضور علیہ السلام بار بار حال دریافت فرماتے اور علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔ ایک بار جب حالت بہت نازک ہوگئی تو حضور کی خدمت میں اطلاع کی گئی۔ آپ اندر سے کچھ مشک لائے کہ یہ دو۔ اور پھر دعا میں مشغول ہوگئے۔ فرمایا کہ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار دعا ہی ہے۔… حضرت عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ کئی لوگ شاہد ہیں کہ جونہی حضور نے دعا کے لئے سجدہ میںسر رکھا تو مولوی صاحب کی حالت اصلاح پکڑنے لگی اور ابھی حضور دعا سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ نبض بالکل درست اور طاقتور ہوگئی۔ لیکن اُن ایام میں حضرت کئی رات بالکل نہیں سوئے اور رات کو جب دنیا سوتی تھی تو کئی بار حضرت مولوی صاحبؓ کے دروازہ پر آکر حال پوچھتے تھے اور دعا میں مصروف ہو جاتے تھے۔ ایک روز فرمایا کہ مَیں نے بہت دعا کی ہے، اس قدر دعا کی ہے کہ اگر تقدیر مبرم نہیں تو انشاء اللہ بہت مفید ہوگی۔
حضرت مفتی فضل الرحمان صاحب کا بیٹا جو پیدائشی گونگا اور بہرہ تھا ساڑھے چار سال کی عمر میں ٹائیفائیڈ سے بیمار ہوا تو حضرت اقدسؑ کئی بار اس کی عیادت کو تشریف لے گئے۔
بہت سے غریب مخلصین جو مہمان خانہ میں رہتے تھے۔ حضور اُن کی تیمارداری کو اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ان میں حاجی الٰہی بخش صاحب لدھیانوی، الٰہی بخش صاحب مالیرکوٹلوی اور حاجی فضل حسین صاحب مہاجر شاہجہانپوری شامل ہیں۔
فجا نامی میلی کچیلی شکل کا ایک یتیم لڑکاحضور کا خادم تھا۔ اس کی طبیعت میں شوخی بہت تھی اور اسی وجہ سے ایک بار کھولتا ہوا پانی گرنے سے وہ جل گیا۔ حضور کو سخت صدمہ ہوا اور آپ ہمہ تن اُس کے علاج میں مشغول ہوگئے۔حضور نے نہ روپیہ کی پرواہ کی اور نہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کوئی مضائقہ کیا۔ اُس کو ہمیشہ تسلّی دیتے اور فرماتے کہ اگر یہ اس صدمہ سے بچ گیا تو نیک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے صحت عطا فرمائی اور وہ ایک مخلص احمدی ثابت ہوا۔
ایک غریب الوطن عبدالکریم کو جب ایک دیوانہ کتے نے کاٹ لیا تو اُن کو علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا۔ جب وہ شفایاب ہوکر واپس قادیان آئے تو اچانک بیمار عود کرآئی اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ کسولی سے ڈاکٹروں نے اس بیماری کو لاعلاج بتایا۔ حضور کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے بہت توجہ فرمائی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی خبر منگواتے اور اپنے ہاتھ سے دوا تیار کرکے اس کے لئے بھجواتے تھے۔نہایت اضطراب سے دعائیں بھی کیںا ور اللہ تعالیٰ نے اس ناقابل علاج مریض کو شفا بخشی۔
حضرت اقدسؑ قادیان کے رئیس اعظم تھے۔ لیکن انسانی ہمدردی اور غمگساری نے آپ کو اُن بیماروں کی عیادت سے بھی محروم نہیں رکھا جن کا تعلق آپ کی قوم سے نہیں تھا۔ چنانچہ حضور کے کئی نشانوں کے گواہ لالہ شرمپت رائے ایک بار بیمار ہوئے تو حضور اُن کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ اُنہیں اپنی موت کا یقین تھا اور وہ بہت پریشان تھے۔ حضور نے انہیں بہت تسلّی دی اور اگلے روز ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو ہمراہ لے کر لالہ صاحب کے گھر گئے اور ڈاکٹر صاحب کو خصوصیت سے علاج پر مامور کیا اور علاج کا بار بھی لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ وہ ہمیشہ حضور سے کہتے کہ میرے لئے دعا کرو۔ حضور بلاناغہ اُن کی عیادت کو تشریف لے جاتے رہے۔ جب نازک حالت عمدہ میں تبدیل ہوگئی تو وقفہ وقفہ سے جانا شروع کردیا حتی کہ وہ بالکل صحتیاب ہوگئے۔
اسی طرح لالہ ملاوامل صاحب بھی حضور کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ بائیس سال کی عمر میں بعارضہ عرق النساء بیمار ہوگئے۔ حضور صبح و شام اُن کی خبر خادم کے ذریعہ منگواتے تھے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جاکر عیادت کرتے تھے اور علاج بھی فرماتے تھے۔ ایک صبح جب خادم خبر پوچھنے گیا تو لالہ صاحب نے پیغام بھیجا کہ حضور خود آئیں۔ حضور فوراً تشریف لے گئے۔ لالہ صاحب کی حالت خراب ہورہی تھی۔ حضور نے علاج تجویز کیا جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت عطا ہوئی۔
اگست 1902ء میں ایک قریشی صاحب جو غیراحمدی تھے، حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے علاج کی غرض سے قادیان آئے۔ انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت اقدسؑ سے دعا کے لئے بھی عرض کیا اور حضور نے دعا کا وعدہ فرمایا۔ ایک روز انہوں نے پیغام بھیجا کہ وہ زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے پاؤں متورم ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ چنانچہ حضور اگلے روز جب سیر کیلئے نکلے تو اُن کے مکان پر بھی تشریف لے گئے اور عیادت فرمائی۔
حضور کی انسانی ہمدردی ہی تھی کہ علاقہ کی غریب گنوار عورتیں وقت بے وقت اپنے بچوں کو لے کر آپ کے در پر حاضر ہوتیں اور دوا لیتیں۔ بعض گھنٹوں کے حساب سے آپ کا وقت ضائع کرتیں اور اپنے گھر کے حالات اور دوسرے قصّے سنانے بیٹھ جاتیں۔ آپ اشارۃً بھی اظہار نہ کرتے کہ آپ کے قیمتی وقت کا کس قدر حرج ہو رہا ہے۔ ایک روز جب تین گھنٹے تک یہی بازار گرم رہا تو حضرت عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ’’مَیں نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے۔… آپ نے فرمایا: یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ کوئی ہسپتال نہیں، مَیں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آ جاتی ہیں۔ اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے، مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہئے‘‘۔
چنانچہ ادویات خواہ کتنی ہی قیمتی ہوں، حضور بے دریغ دیدیتے تھے۔ پھر ادویات کی تیاری کے معاملہ میں خاص احتیاط فرماتے اور کسی خادم کو کہنے کے بجائے خود تیار کرکے دیتے تھے۔ حضور کے اخلاق کریمانہ جو عیادت کے سلسلہ میں ظاہر ہوئے وہ کثیر تعداد میں ہیں اور جو دعائیں آپ نے کیں بلاشبہ وہ اعجاز مسیحائی سے کم نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں