حضرت مریم علیہاالسلام

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ اپریل 2011ء میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ حضرت مریم علیہاالسلام کے بارے میں ایک مختصر مضمون حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
قرآن کریم بیان فرماتا ہے: وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا۔(التحریم:13)  ترجمہ: اور پھر اللہ مومنوں کی حالت مریم کی طرح بیان کرتا ہے جو عمران کی بیٹی تھی۔ جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی اور ہم نے اس میں اپنا کلام ڈال دیا تھا۔
گویا عمران کی بیٹی مریم نے پاکدامنی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے یہ انعام دیا کہ مسیح جیسی مقدّس روح اُسے عطا فرمائی۔ لیکن اگر پاکدامنی کا ایک عظیم الشان اجر ہے تو کروڑوں خدا کی بندیاں ہیں جنہوں نے بدکاری نہیں کی۔ بلکہ بہت ساریوں نے ساری عمر بیوگی یا تجرّد میں ہی گزار دی اور پاکدامن رہیں۔ اُن کو یہ انعام کیوں نہیں ملا؟
سو حقیقت اس پاکدامنی کی یہ ہے کہ دنیا میں عورتیں عموماً کسی نہ کسی کی حفاظت میں ہوتی ہیں مثلاً والدین، رشتہ دار، برادری اور رسم و رواج نیز انسانی اخلاق اور تقویٰ یا خدا کا خوف بھی اُن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں سے آخری بات یعنی باوجود تمام آزادیوں اور مواقع کے موجود ہونے کے جو عورت محض خدا کے خوف سے اپنی پاکدامنی کو قائم رکھے، خدا کے ہاں اُس کو عظیم الشان اجر ملتا ہے۔ دوسروں کی عفّت رواجی ہے جبکہ اس عورت کی عفّت علیٰ وجہ البصیرت اور ایمان و تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ پہلی قسم کی عفیفہ کا ثواب حکومت اور معاشرے کو ملنا چاہئے مگر وہ عورت ایک دُرِّ بے بہا ہے جو محض تقویٰ سے اپنی پاکدامنی کو قائم رکھے۔ اور وہ عورت تو دُرِّشاہوار ہے جو مخالف حالات، ہر طرف بدکاروں کی یورش اور ہیکل میں مَردوں کے درمیان رہنے اور اُن کے ماتحت زندگی بسر کرنے نیز باوجود نہایت حسین و جمیل ہونے کے پھر بھی اکیلی شیطان کے لشکر سے جنگ کرتی رہے اور اپنی عصمت کو برقرار رکھے۔ سو مریم صدیقہ چونکہ ایسی ہی تھی اس لیے اُس کو بسبب خاص امتیاز کے یہ اجر ملا۔
ایک نوجوان بھولی بھالی لڑکی بیت المقدس میں بطور نذر چڑھائی گئی۔ چاروں طرف فقیہی فریسیوں کے حجرے اور خلوت خانے جو قوم کے معزز ترین لوگ ہوں اور اس جگہ کے مالک اور ابناء اللہ کہلاتے ہوں۔ لیکن اُن کی بدکاریوں کی وجہ سے خدا اس سلسلہ کو ہی تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہو۔ ان مقدّسوں کی یہ حالت ہو کہ جب ایک زانیہ کو سنگسار کرنے کے وقت اُن سے کہا جائے کہ جس نے خود یہ فعل نہ کیا ہو وہی اس سنگساری میں حصہ لے تو یہ سُن کر خاموشی کے ساتھ وہ سارے کا سارا گروہ وہاں سے چل دیتا ہو۔ گویا وہ سب اقراری بدکار ہوں۔ کیا ایسے لوگوں کی بابت یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ ایک جوان، خوبصورت، بےیارومددگار لڑکی کو اکیلی اپنی ہیکل میں کمزور اور گوشہ گزین دیکھ کر انہوں نے اُس پر کیا کیا ڈورے نہ ڈالے ہوں گے۔ اشاروں، کنایوں، عشقیہ اشعار، وعدوں وعیدوں، پیغاموں، بلکہ بعض دفعہ اپنی چیرہ دستیوں اور رستے روک کر کھڑے ہوجانے سے اس معصوم صدیقہ کی زندگی تلخ نہ کردی ہوگی۔ کوئی کہتا ہوگا کہ تُو ہیکل کی نذر ہے اور ہم ہیکل کے مالک ہیں۔
غرض مَیں تو لرز جاتا ہوں کہ اس پاک باز عفیفہ نے اپنی جوانی کے دن اس آگ میں کیونکر گزارے ہوں گے یہاں تک کہ آخر اُس کو یہ زندگی ان بھیڑیوں کے درمیان موت سے بدتر معلوم ہونے لگی اورتنگ آکر باوجود نذرِ ہیکل ہونے کے وہ ان لوگوں سے بھاگی اور مَکَانًا شَرْقِیًّا میں پناہ لی اور اُن سے چھپ کر پردے میں بیٹھ گئی۔ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا۔ (مریم:18)

اس وقت رحمتِ خداوندی جوش میں آئی اور اس سخت ترین ابتلا میں کامیابی پر پھر اللہ تعالیٰ نے اسے حقیقی پاک دامنی کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ اپنا فرشتہ نازل کیا اور اپنی طرف سے اُسے ایک نُور بخشا جس کا نام مسیح تھا۔
یہی حالات تو تھے جن کا علم ہونے پر مسیح جیسا حلیم شخص بھی ایسے درندوں کے خلاف اتنا جوش میں تھا کہ اُن کو اے حرام کارو، اے بدکارو، اے سانپو اور سانپ کے بچو اور اے ملعونو، کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا کہ ان بدذاتوں نے میری ماں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں