حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اگست 1875ء میں کلانور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے- آپؓ کے مورث اعلیٰ مرزا عبدالحکیم بیگ نے کلانور سے تین میل کے فاصلہ پر حکیم پور کی بنیاد رکھی- آپؓ کے پردادا مرزا عبدالرحیم بیگ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مصاحبوں میں سے تھے اور سکھ حکومت سے قبل ریاست ٹونک میں وزیر اعظم رہ چکے تھے اور اپنے زمانے میں پرہیزگار مشہور تھے- آپؓ کے دادا مرزا احمد بیگ صاحب بھی غرباء اور یتامٰی کی مدد کرنے میں بہت مشہور تھے-
حضرت اقدس مسیح موعودؑ 1892ء میں لاہور تشریف لے گئے جہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا جو 3؍فروری 1892ء کو ختم ہوا- ان دنوں لاہور میں مخالفت کا بہت زور تھا اور حضورؑ کے خلاف لوگ سر عام گالی گلوچ کرتے تھے- ہر وقت حملہ کا اندیشہ رہتا تھا اور بیعت کرنے والوں کو مخالفین دھمکاتے تھے اس لئے کئی دفعہ بیعت کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا تھا- انہی دنوں حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اور آپؓ کے حقیقی بھائی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دوسرے سے خفیہ بیعت کی-
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 5؍فروری کو میں سکول سے واپس آیا اور ایک ہم جماعت کے ہمراہ حضورؑ کی قیام گاہ پر پہنچا- وہاں دو رکعت نماز ادا کی اور خادم کے ذریعے ملاقات کی درخواست خدمت اقدس میں پہنچائی- حضورؑ نے از راہ شفقت بالاخانے میں بلایا اور باری باری علیحدگی میں بیعت لی- آپؑ دس شرائط بیعت تفصیل وار بیان کرکے اقرار لیتے تھے- پہلے میرے ہم جماعت نے بیعت کی تو میرے دل میں تضرع اور خشیت اللہ نے بہت زور کیا- اس وقت تین چار دفعہ میری آنکھوں کے سامنے بجلی کی طرح ایک نور کی چمک نظر آئی- پھر حضورؑ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ آپ کے چہرہ سے رشد اور سعادت ٹپکتی ہے- … پھر بیعت لی تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے نور اندر بھر جاتا ہے-
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ جب جموں میں ملازم تھے تو اکثر لاہور بھی آیا کرتے تھے- آپؓ کے عشقِ قرآن، سچا اخلاص اور اخلاقی و روحانی نمونہ دیکھ کر حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو آپؓ سے غیرمعمولی محبت پیدا ہوگئی اور وہ پڑھائی سے فارغ ہوکر اکثر وقت آپؓ کی خدمت میں گزارتے- حتّٰی کہ نماز فجر بھی آپؓ کی قیامگاہ پر جاکر ہی ادا کیا کرتے- حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کو بھی حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ سے ایسی محبت تھی کہ انہیں اپنا بیٹا کہا کرتے تھے-
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ اپنے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے ہمراہ مارچ 1893ء میں پہلی بار قادیان آئے- یہ وہ وقت تھا جب ان دونوں بھائیوں اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے علاوہ قادیان میں اور کوئی مہمان نہ تھا- حضورؑ کے رہائشی مکان کی شرقی جانب کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ طبع ہو رہی تھی- حضورؑ کا اکثر وقت مہمانوں کے ساتھ ہی گزرتا اور کھانا بھی اکثر حضورؑ خود ہی اندر سے لایا کرتے- اس پاک ماحول اور محبت نے دونوں بھائیوں کے ایمان میں ایسی تقویت دی کہ انہوں نے واپس گھر جاکر اپنی مخفی بیعت کا اظہار کردیا- اِن کے والد صاحب نے اپنے بیٹوں کی زندگیوں میں غیرمعمولی تبدیلی ملاحظہ کرلی تھی اور یہ اخلاقی تغیر اُن کے قبول احمدیت کا باعث بھی بنا-
اس کے بعد حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ ہر ماہ دو تین بار قادیان حاضر ہونے لگے اور موسم گرما کی رخصت بھی وہیں پر گزارتے- کئی بار صرف اتوار کے لئے قادیان جاتے اور ہفتہ کی رات دس گیارہ بجے بٹالہ سے پیدل قادیان روانہ ہوتے اور سارا دن قادیان میں گزار کر اتوار کی شام کو پیدل واپس آ جاتے- کئی بار بارش کے طوفان سے کمر تک پانی میں سے گزرکر وہاں پہنچے- جب دوسرے لوگ ہمراہ ہوتے تو آپؓ کمزوروں کا سامان خود اٹھا لیتے اور بعض دفعہ ضعیف العمر احباب کو اپنی کمر پر بھی اٹھا لیتے-
مارچ 1894ء میں جب ماہ رمضان میں چاند کو گرہن لگا تو اسی رمضان میں سورج گرہن کے دن قریب آنے پر آپؓ بھی اپنے بھائی اور ایک اور ہم جماعت کے ساتھ قادیان روانہ ہوئے- رات گیارہ بجے بٹالہ پہنچے تو سامنے سے شدید آندھی اور بادل کی گرج چمک سے چلنا مشکل تھا- ان تینوں نے نہایت تضرع سے دعا شروع کی تو ابھی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ ہوا کا رُخ بدل گیا اور وہ ممد سفر بن گئی- تھوڑی دیر میں یہ نہر پر پہنچ گئے جہاں ایک کمرہ میں کچھ دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہوئے تو سحری حضرت اقدسؑ کے دستر خوان پر کھائی- صبح حضورؑ کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی جو مولوی محمد احسن امروہی صاحب نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی-
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کا نام اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں 313 صحابہ کی فہرست میں شامل فرمایا ہے-
لیکھرام کے قتل کے بعد دارالمسیح کا باقاعدہ پہرہ شروع کیا گیا- حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو بھی پہرہ دینے کی سعادت حاصل ہوتی رہی-
3؍جنوری 1998ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی پرائمری جماعتوں کا اجراء ہوا اور اُسی سال جب مڈل کی جماعتیں شروع ہوئیں تو اُن کے لئے حضرت اقدسؑ نے آپؓ کو عارضی ہیڈماسٹر مقرر فرمایا- آپؓ اُن دنوں B.A میں زیر تعلیم تھے اور رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے-
قادیان میں آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضورؑ کے پاؤں اور بدن دابتے- بارہا آپؓ نے حضورؑ کی کمر کو بوسہ دیا- حضورؑ کے پرانے کپڑے اور بال تبرکاً اپنے پاس رکھتے- حضورؑ کے لئے نئی رومی ٹوپی لاتے اور پرانی خود لے لیتے-مجلس میں حضورؑ کے بہت زیادہ قریب بیٹھتے اور ٹکٹکی لگاکر چہرہ مبارک کو دیکھتے- حضورؑ کوئی تقریر تقویٰ و طہارت کے متعلق فرماتے تو آپؓ کا پیراہن آنسوؤں سے تر ہو جاتا- بعض اوقات جسم دباتے دباتے حضورؑ کے شانہ پر سر رکھ کر روتے رہتے لیکن حضورؑ اس وجہ سے کبھی کبیدہ خاطر نہ ہوتے اور دبانے سے منع نہ فرماتے-
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو قرآن کریم اور آنحضورﷺ سے بھی عشق تھا- ہر بات میں سنّت پر عمل کرنا باعث فخر سمجھتے- تہجّد باقاعدہ ادا کرتے اور نمازیں خشوع و خضوع سے پڑھتے-
آپؓ کی اہلیہ حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ کا سن پیدائش 1876ء تھا اور وہ جوانی میں ہی 21؍اپریل 1904ء کو وفات پاگئیں- آپؓ کئی بار قادیان آئیں اور حضرت اقدسؑ آپؓ سے بیٹیوں کی طرح سلوک فرمایا کرتے تھے- آپؓ کی ایک بچی تھی جو پانچ برس کی عمر میں 1900ء میں فوت ہوگئی تھی-
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کی آخری بیماری کے دوران حضرت اقدسؑ نے ایک نہایت دردناک خط آپؓ کے بھائی ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کو تحریر فرمایا جس کا لفظ لفظ اپنے غلام کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے- 28؍اپریل 1900ء کو مسیح موعودؑ کا یہ عاشق صادق صرف پچیس سال کی عمر پاکر اس دار فانی سے کوچ کرگیا- حضرت اقدسؑ نے جو تعزیت نامہ تحریر فرمایا اُس میں لکھا ’’عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعید لڑکا جو سراسر نیک بختی اور محبت اور اخلاص سے پُر تھا، اس کی جدائی سے ہمیں بہت صدمہ اور درد پہنچا … ایک نوجوان صالح، نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور پودہ نشوونما یافتہ جو امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا، یکدفعہ اس کا کاٹا جانا اور دنیا سے ناپید ہو جانا سخت صدمہ ہے- … الہام ہوا ’مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہوں‘-یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو-…‘‘- اس کے بعد حضورؑ نے اپنے ایک خواب کا ذکر بھی فرمایا جس میں آپؓ کی وفات کی طرف اشارہ تھا-
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو فاضلکا میں دفن کیا گیا اور گیارہ سال بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے زمانہ میں آپؓ کا جسم مبارک صندوق میں بند قادیان لایا گیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے بمع جماعت کے اُن کا جنازہ پڑھایا اور پھر بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں