حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ،اپریل 1998ء میں سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرۃ پر مکرم مولانا محمد اشرف صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت عمرؓ 582ء میں مکہ کے خاندانِ قریش میں پیدا ہوئے۔ نام عمر، لقب فاروق اور کنیت ابن خطاب تھی۔آپؓ نے سپہ سالاری، شہسواری، پہلوانی، فن خطابت اور لکھنا پڑھنا سیکھا۔پھر تجارت کے لئے دوردراز کے سفر کئے۔ نوجوانی میں بھی بڑے بڑے سردار اور رؤساء آپ کا بہت احترام کرتے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہم عموماً ایک دوسرے سے بیان کرتے تھے کہ خدا کا کوئی فرشتہ ہے جو حضرت عمر کی زبان پر بولتا ہے۔
حضرت عمرؓ خدا کا بہت خوف رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے میں تو صرف اس قدر چاہتا ہوں کہ بے مؤاخذہ چھوٹ جاؤں‘‘۔ آپؓ خشوع و خضوع سے رات رات بھر عبادت میں مشغول رہتے۔ حضرت عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ میں باوجود پچھلی صف میں ہونے کے حضرت عمرؓ کی گریہ و زاری کی آواز سنتا تھا۔ آپؓ بہت رقیق القلب تھے۔ قبول اسلام سے قبل بھی باوجود شدید دشمنی ہونے کے جب ایک بار آپ رات کو پہرہ دیتے ہوئے ایسے سامان کے پاس پہنچے جو بندھا ہوا تھا اور ایک صحابیہ پاس کھڑی تھیں تو آپ کے دریافت کرنے پر اس صحابیہ نے کہا کہ ہم مکہ چھوڑ کر جا رہے ہیں کیونکہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے… اس پر عمر نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرلیا اور رقّت آمیز آواز میں کہا ’’اچھا جاؤ! خدا تمہارا حافظ ہو‘‘۔
حضرت عمرؓ جب اسلام لے آئے تو آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آنحضورﷺ سے شدید محبت تھی۔ ایک بار عرض کی ’’خدا کی قسم آپ مجھے جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں‘‘۔ آپؓ ہر وقت آنحضورﷺ کی حفاظت پر کمربستہ رہتے۔ آنحضورﷺ کی کمر پر کھردری چارپائی کے نشان دیکھے تو آبدیدہ ہوگئے۔
حضرت عمر فاروقؓ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز اور صاحب رؤیا و کشوف ہونے کے باوجود بہت سادہ مزاج تھے۔ آپؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں اذان سکھائی تھی۔ آپؓ کی خلافت کے دوران ایک خطبہ جمعہ کے دوران اچانک آپؓ نے بلند آواز سے پکارا ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ کہ اے ساریہ! پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔ بعد میں آپؓ نے بتایا کہ اس وقت کشفی حالت میں آپ کو عراق کی سرزمین پر اسلامی لشکر دکھایا گیا تھا جس کا سردار ساریہ ہے اور اس وقت چونکہ میدان جنگ کا نقشہ آپؓ کے سامنے تھا اس لئے آپؓ نے اپنے سپہ سالار کو ہدایت دی۔ چند دن بعد ساریہ کا خط آپؓ کو ملا کہ آپؓ کی آواز سُن کر اسلامی لشکر میدان چھوڑ کر پہاڑ کی طرف آگیا جس کے نتیجہ میں اسلامی لشکر کو فتح حاصل ہوئی۔
حضرت عمرؓ ایک بار حج پر گئے تو شدید گرمی میں ایک جگہ کھڑے ہوگئے۔ جب زیادہ دیر ہوگئی تو ایک صحابی کے استفسار پر فرمایا کہ ایک دفعہ اونٹ چراتے ہوئے تھک کر میں اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا تو میرے باپ نے مجھے اس پر مارا تھا۔ آج آنحضور ﷺ کو قبول کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا اعزاز بخشا ہے کہ لاکھوں آدمی میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت عمرؓ کو وفائے عہد کا بہت خیال تھا۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کفار نے عین جنگ میں دھوکہ سے ایک حبشی مسلمان سے معاہدہ کرلیا تو بھی آپؓ نے عہد کو پورا کیا۔
حضرت عثمان غنیؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز اتنی شدید گرمی تھی کہ دروازہ کھولنے کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ اتنے میں میرے غلام نے مجھے کہا کہ دیکھئے اتنی گرمی میں ایک شخص پھر رہا ہے۔ میں نے اسے کہا کوئی مسافر ہوگا۔ مگر تھوڑی دیر بعد جب وہ میرے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ حضرت عمر فاروقؓ ہیں۔ میں گھبرا کر باہر نکل آیا تو آپؓ نے فرمایا کہ بیت المال کا ایک اونٹ گُم ہوگیا ہے جسے تلاش کر رہا ہوں۔
حضرت عمرؓ راتوں کو شہر میں گشت کرتے اور رعایا کے حالات معلوم کرتے۔ کسی کو بھوکا دیکھتے تو خود اشیائے خورونوش اٹھاکر اُس تک پہنچاتے۔
آپؓ کی حکمت و دوراندیشی بے انتہاء تھی جس کا اظہار آپؓ کے فیصلوں سے ہوتا ہے۔ یروشلم کی فتح کے بعد جب شہر کے پادریوں نے آپؓ سے اپنی عبادتگاہ میں نفل پڑھنے کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا کہ میں تمہاری عبادتگاہ میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ مسلمان یہ کہہ کر تم سے یہ چھین نہ لیں کہ یہ ہماری بھی مقدس جگہ ہے۔
جب آپؓ کی وفات ہوئی تو آپؓ بار بار یہی الفاظ کہتے کہ میرے رب! میں سخت کمزور اور خطا کار ہوں … میں اپنے آپ کو کسی انعام کا مستحق نہیں سمجھتا، صرف اتنی التجا کرتا ہوں کہ تو مجھے اپنی ناراضگی اور غضب سے محفوظ رکھ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں