حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14نومبر2008ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب صاحب کا ایک مضمون بابت سیرۃ حضرت عائشہ صدیقہؓ شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون 3مئی 2002ء کے شمارہ کے اسی کالم کی زینت بن چکا ہے۔
نام عائشہ، لقب صدیقہ، کنیت ام عبداللہ، والدہ زینب کنیت ام رومان۔ بعثت نبوی کے چوتھے سال ماہ شوال میں پیدا ہوئیں۔ مکی زندگی میں ہی آپؓ کا نکاح آنحضرت ﷺ سے ہوگیا۔ حضرت عائشہؓ کا نکاح بھی آنحضرت ﷺ سے خاص خدائی تجویز کے ماتحت وقوع میں آیا تھا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ نکاح سے قبل آنحضرت ﷺ نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آپ کے سامنے ایک ریشمی کپڑا پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپؐ کی بیوی ہے آپؐ اسے کھولتے ہیں تو اس میں حضرت عائشہ کی تصویر پاتے ہیں۔
شوال 2 ہجری میں رخصتانہ عمل میں آیا۔ اس رخصتی سے عرب کی دو جاہلانہ رسوم کا خاتمہ ہوا۔ ایک یہ کہ عرب اپنے منہ بولے بھائی کی بیٹی سے شادی نہیں کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اہل عرب شوال میں شادی نہیں کرتے تھے۔ اس لئے کہ زمانہ قدیم میں اس مہینہ میں طاعون کی وبا پھیلی تھی۔
خدمات
غزوہ اُحد میں آپؓ پانی کی مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ غزوہ بنومصطلق 5 ہجری میں بھی آپ شریک تھیں۔ آنحضرت ﷺ مرض الموت میں کم و بیش 13 دن علیل رہے اور ان میں سے 8 دن حضرت عائشہؓ کے ہاں قیام پذیر رہے۔ وصال بھی آپؓ کے حجرہ میں ہوا اور وہیں تدفین ہوئی۔ وفات سے ذرا پہلے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو اُن کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اُس وقت آنحضرت ﷺ حضرت عائشہؓ کے جسم کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے نگاہ اٹھاکر مسواک کی طرف دیکھا تو حضرت عائشہؓ منشاء سمجھ گئیں اور آپؓ نے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کرکے آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کی۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں صرف مجھے ہی یہ شرف حاصل ہے کہ آخر وقت میں بھی میرا جھوٹا آپؐ نے منہ سے لگایا۔ آنحضور ﷺ کی رحلت کے 48 سال بعد آپؓ نے رمضان 58 ہجری میں بعمر 68 سال وفات پائی اور اپنی وصیت کے موافق جنت البقیع میںمدفون ہوئیں۔
سیرت و کردار
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئی ہمیں عائشہؓ سے اس کی معلومات ضرور ملیں۔ اسلامی تاریخ کے اہم واقعات مثلاً آغاز وحی کیفیت، واقعات ہجرت، غزوات کے حالات، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت اور آنحضرت ﷺ کے اخلاق و عادات آپؓ ہی سے منقول ہیں۔ ادبی لحاظ سے آپؓ نہایت شیریں بیان تھیں۔ احادیث نبویؐ بیان کرنے میں آپؓ تیسرے نمبر پر ہیں۔ آپؓ کی تعداد روایات 2210 ہے۔ فن درایت میں بھی حضرت عائشہؓ کی علمی حیثیت مسلمہ تھی۔
کسی نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ کیا آنحضورﷺ بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے تھے؟۔ جواب میں فرمایا ’’حین حطمہ الناس‘‘ یعنی یہ اس وقت تھا جب لوگوں نے آپؐ کو توڑ دیا یعنی آپ کمزور ہوگئے تھے۔ ایک یہ سوال اٹھا کہ جب نماز کی رکعات میں اضافہ ہوا تو نماز مغرب میں اضافہ کیوں نہیں ہوا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’مغرب میں اضافہ نہ ہوا۔ کیونکہ وہ دن کا وتر ہے‘‘۔ جب یہ خیال ذہنوں میں ابھرا کہ نماز فجر میں رکعتوں کی تعداد زیادہ کیوں نہیں ہوئی تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ کیونکہ فجر کی دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں تلاوت ہوتی ہیں۔
جن نمازوں میں چار رکعتیں ہیں، قصر کی حالت میں ان کی صرف دو رکعتیں ادا کی جاتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ اس کی وجہ یہ بیان کرتی ہیں کہ مکہ میں دو رکعت نماز فرض تھی۔ ہجرت کے بعد چار فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی۔
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھا جائے۔ اکثر صحابہؓ اس کو دائمی حکم خیال کرنے لگے۔ حضرت عائشہؓ اسے وقتی حکم بیان کرتی ہیں کیونکہ اُس زمانہ میں کم لوگ قربانی کرسکتے تھے۔ اس لئے اُن کو بھی گوشت مل جائے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔
اخلاق و عادات
حضرت عائشہؓ کے اخلاق و عادات میں آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کا عکس نمایاں تھا۔ ایک مرتبہ آپؓ کے پاس ایک سائل آیا تو آپؓ نے انہیں روٹی کا ٹکڑا دیدیا۔ پھر اس کے بعد ایک خوش لباس شخص آیا تو آپؓ نے اسے بٹھا کر کھانا کھلایا۔ کسی نے اس تفریق پر اعتراض کیا تو آپؓ نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ ہر آدمی سے اس کے درجہ کے مطابق سلوک کرو۔
آپؓ توکل علی اللہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں۔ ایک دن آپؓ روزہ سے تھیں۔ گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا کہ کسی مسکین نے سوال کیا۔ آپؓ نے لونڈی سے کہا: وہ روٹی اسے دیدو۔ لونڈی نے کہا: روزہ کیسے افطار ہوگا؟ فرمایا تم اسے دیدو۔ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت بھجوا دیا۔ لونڈی کو بلایا اور کہا: لے کھا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ نے آپؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو سورج غروب ہونے سے قبل سب خیرات کردیئے اور اپنے لئے کچھ بھی نہ رکھا۔ اس دن آپؓ روزہ سے تھیں۔ لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے لئے کچھ نہیں ہے۔ فرمایا پہلے کیوں نہیں یاد دلایا۔
ایثار و قربانی کا یہ حال تھا کہ آپؓ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے پہلومیں اپنی قبر کے لئے جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ لیکن جب حضرت عمرؓ نے اپنے لئے درخواست کی تو فوراً دیدی اور فرمایا ’’میں نے خود اپنے لئے اس جگہ کو محفوظ رکھا تھا۔ لیکن آج میں اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘۔
مدینہ میں ایک وہ زمانہ تھا کہ دلہن کو معمولی جوڑا بھی میسر نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک کُرتی تھی۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر جب کوئی عورت سنواری جاتی تھی تو وہ مجھ سے اس کو مستعار منگوالیتی تھی۔
واقعہ افک
واقعہ افک شعبان 5 ہجری بموقعہ غزوہ بنو مصطلق پیش آیا جس میں منافقین نے نہایت شدومد سے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی۔ آپؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اس واقعہ کے بارہ میں جان کر رونے لگ گئی اور ساری رات میرے آنسو نہیں تھمے اور نہ میں سوسکی۔ جب صبح ہوئی تو اس وقت بھی میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
حضرت سرور کائنات ﷺ نے اس واقعہ افک کے بارہ میں جب شہادتیں لیں تو وہ بھی آپؓ کے اعلیٰ کردار کی آئینہ دار ہیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے گواہی دی ’’خدا کی قسم! ہم تو عائشہ کے متعلق سوائے نیکی کے اور کچھ نہیں جانتے‘‘۔ بریرہ خادمہ نے شہادت دی: خدا کی قسم! میں نے اپنی بی بی میں کوئی بری بات نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ خوردسالی کی وجہ سے وہ قدرے لاپرواہ ہیں۔ چنانچہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آٹا گوندھا ہوا کھلا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے۔ حضرت زینبؓ بن حجش اور حضرت عائشہؓ میں نوک جھونک کا سلسلہ بھی چلا کرتا تھا۔ اُن کا بیان تھا: یارسول اللہ! میں تو عائشہ کو ایک نیک اور متقی عورت سمجھتی ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب وحی کے ذریعہ خدا نے میری بریت ظاہر فرمائی تو آنحضور ﷺ نے تبسم کے ساتھ یہ نوید سنائی۔ اس پر میری والدہ بے اختیار ہوکر بولیں: عائشہ! اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ اس وقت میرا دل شکر الٰہی سے لبریز تھا۔ میں نے کہا: میں کیوں آپؐ کا شکریہ ادا کروں، میں تو صرف اپنے ربّ کی شکرگزار ہوں جس نے میری بریت ظاہر فرمائی ہے۔
حضرت عائشہؓ کی ذات گرامی میں عفو و درگزر کا خلق بھی خوب تھا۔ واقعہ افک میں منافقین کے گندے پراپیگنڈا کی وجہ سے بعض سادہ لوح مگر سچے مسلمان بھی الجھ کر ٹھوکر کھا گئے۔ مگر حضرت عائشہؓ نے سب کومعاف کردیا اور اپنے دل میں کوئی رنجش وغیرہ نہ رکھی۔ ایک موقعہ پر حضرت حسانؓ نے آپ کی تعریف میں ایک شعر کہا جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’وہ ایک پاک دامن عفیفہ خاتون ہیں اور صاحب عقل و دانش ہیں۔ ان کی ذات شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وہ غافل بے گناہ عورتوں کا گوشت نہیں کھاتیں یعنی ان پر اتہام نہیں لگاتیں اور نہ ان کی غیبت کرتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ کے کمال اخلاق و عادات کے سبب آنحضرت ﷺ بھی آپؓ کے ساتھ دلداری کا سلوک فرماتے۔ ایک دفعہ جب چند حبشی شمشیر زن آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ کو نیزہ کے کرتب مسجد نبویؐ میں دکھا رہے تھے تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو بھی اپنے کندھے کی اوٹ میں یہ فوجی تماشہ دکھایا۔ ایک اورموقعہ پر رسولؐ اللہ نے آپؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا۔ پہلی دفعہ تو آپؓ آگے نکل گئیں۔ لیکن ایک عرصہ کے بعد دوسری بار آنحضور ﷺ دوڑ میں آگے نکل گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ھٰذَ اِبْتِلَک۔ یعنی عائشہ اب وہ بدلہ اتر گیا ہے۔
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔ ایک اَور موقعہ پر فرمایا: سب لوگوں میں عائشہ مجھے محبوب ترین ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں