حضرت عائشہ بیگم صاحبہؓ

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ دسمبر 2008ء میں حضرت عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت عائشہ بیگم صاحبہؓ کی پیدائش 1895ء کی تھی۔ آپؓ کے والد حضرت میاں قطب الدین صاحبؓ بھیرہ کے رہائشی تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے ابتداء میں ہی بیعت کرکے 313 صحابہؓ میں بھی شامل تھے۔ بیعت کے بعد وہ ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے اور کئی سال تک حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی رہائش پذیر رہنے کی سعادت پائی۔ حضرت عائشہ صاحبہؓ قریباً حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ہم عمر تھیں اور دونوں کا آپس میں سہیلیوں کا سا تعلق تھا۔ عید پر جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا جوڑا بنتا تو حضورؑ فرماتے عائشہ کے لئے بھی جوڑا بنواؤ۔
آپؓ نے ابتدائی تعلیم قادیان میں ہی پرائمری سکول سے پانچویں جماعت تک حاصل کی۔ بڑے ہونے پر حضرت خلیفتہ المسیح الاولؒ کے قرآن کریم کے درسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتیں۔ قرآنِ کریم کا ترجمہ بھی ان درسوں سے استفادہ کرکے سیکھا تھا۔ لوائے احمدیت کا سوت کاتنے میں دیگر صحابیات کے ساتھ آپ بھی شامل تھیں۔
1919ء میں آپؓ کی شادی ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب سے ہوئی اور آپؓ کوئٹہ تشریف لے آئیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب پارٹیشن تک کوئٹہ میں ہی رہے اور 1835ء تک کوئٹہ میں امیر جماعت بھی رہے۔ اس دوران حضرت عائشہ صاحبہؓ نے لجنہ اماء اللہ کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ لجنہ کوئٹہ کے اجلاس آپؓ کے گھر پر ہی ہوتے تھے۔ پنشن لینے کے بعد جب ڈاکٹر صاحب قادیان چلے گئے تو وہاں بھی آپؓ لجنہ کی سرگرم رکن کی حیثیت سے خدمات بجا لاتی رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد آپؓ کا گھرانہ پھر کوئٹہ آگیا اور تا وفات 1982ء تک کوئٹہ ہی میں مقیم رہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ جب کوئٹہ تشریف لائے تو آپؓ کے ساتھ بہت محبت کا سلوک رہا۔
آپؓ کی پیدائش سے پہلے آپؓ کے سات بہن بھائی وفات پاچکے تھے۔ پھر آپؓ بھی بیمار ہوگئیں تو آپؓ کے والد آپؓ کو حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کے پاس لے گئے۔ انہوں نے دوائی دی اور فرمایا یہ مرتی نہیں، اس کی بہت اولاد ہوگی۔ یہ الفاظ بہت بابرکت ثابت ہوئے۔ آپؓ کثیرالعیال تھیں۔ میجر جنرل نسیم احمد صاحب مرحوم (ہلال امتیاز ملٹری) بھی آپؓ کے فرزند ہیں۔
آپؓ فرمایا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعودؑ جب بھی قادیان سے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے تو واپسی پر بچوں کے لئے تحفے لایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضور ؑ نے آپؓ کو بھی کلائیوں میں پہننے والی موتیوں کی بنی ہوئی پہنچیاں(ایک قسم کی چوڑیاں ) دی تھیں۔
ایک دن آپؓ کی والدہ نے آپؓ کو پانی کا ایک گلاس دے کر حضورؑ کی خدمت میں بھیجا کہ اسے چکھ کر تبرک کر دیں نیز اس میں دم بھی فرما دیں۔ حضورؑ نے فرمایا اس وقت پانی نہیں پی سکتا کیونکہ میں نے ابھی خربوزہ کھایا ہے البتہ دم کردیتا ہوں۔
ایک دفعہ آپؓ کے والد نے آپؓ کو ایک چھڑی دے کر بھیجا کہ حضورؑ کی خدمت میں دے آئو اور کہنا کہ اپنی کوئی استعمال شدہ چھڑی دیدیں۔ آپؓ نے جاکر چھڑی دی اور پیغام عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا: جاؤ اندر کمرے میں یہ سوٹی رکھ دو، اندر کمرے میں میری سوٹی پڑی ہے اٹھا لاؤ۔ آپؓ نے کمرے میں جا کر سوٹی رکھ دی اور دیکھا کہ کمرے میں ایک چھڑی اور موٹا سا ڈنڈا پڑا ہے۔آپؓ چھوٹی بچی تھیں، آپؓ نے سوچا حضورؑ تو سب سے بڑے ہیں اس لئے آپ کا یہ ڈنڈا ہوگا۔ آپؓ وہ ڈنڈا لے کر حضورؑ کے پاس آئیں تو حضورؑ یہ دیکھ کر بہت ہنسے اور پھر دوسری سوٹی منگواکر فرمایا کہ یہ میری سوٹی ہے یہ اپنے ابا کو دیدینا۔
حضرت اماں جانؓ کا آپؓ سب سے بہت محبت کا سلوک رہا۔ آپؓ کی بیٹی کی شادی میں حضرت اماں جانؓ تشریف لائیں اور اپنے بازوؤں سے سرخ رنگ کے پلاسٹک کے کڑے اتار کر دلہن کو پہنائے۔
حضور علیہ السلام جب آخری مرتبہ لاہور تشریف لے گئے تو آپؓ بھی اپنے والدین کے ہمراہ ساتھ تھیں۔ آپؓ کی وفات خلافت رابعہ کے آغاز کے ڈیڑھ سال بعد ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں