حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 مارچ 2010ء میں مکرم ماجد احمد خان صاحب نے ایک مضمون میں اپنے ماموں اور سسر حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 29 اور 30 اپریل 2007ء کی درمیانی شب حضرت میاں صاحب کی وفات ہوئی۔ قادیان میں لوگوں کا ہجوم تھا لیکن اس قدر خاموشی زندگی گویا تھم گئی ہو۔ یہ سب اپنے بزرگ اور غمگسار کے استقبال کے لئے سرجھکائے کھڑے تھے۔ ان کا غمگسار، دکھ سکھ کا ساتھی آج ان سے جدا ہوگیاتھا۔ ذہن کو کچھ تسلی تو تھی کہ اپنے پیارے کے پاس چلا گیاہے۔ لیکن اس دل کا کیا کرتے جو سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ اگلے دوروز بھی اسی کیفیت میں گزر گئے۔ مَیں نے سکّھوں کو بھی روتے دیکھا اور ہندوؤں کو بھی ۔ لوگ بھی کیا کرتے، شہزادہ جو تھا مسیح آخرزماں کی نسل کا، جو تمام عمر بلا لحاظ مذہب لوگوں کی دلداری کرتا رہا۔پھر وہ گھڑی بھی آن پہنچی جب ایک جمِّ غفیر اس شخص کے جسدِ خاکی کو کندھا دئیے اس کو آخری سفر پر لے چلا۔ جنازے پر، کیا سکھ، کیا ہندو سب موجود تھے۔
خاکسار کی شادی جنوری 1979ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی منجھلی بیٹی سے ہوئی۔ شادی سے پہلے وہ ہمارے قادیان والے ماموں تھے اُن کے قریب رہنے کا موقع ملا تو وہ رشتے کے ماموں سے ہمارے ماموں لگنے لگے۔
60 سال پہلے قرعہ نکلنے پر یہ 20 سالہ نوجوان قادیان گیا تھا ۔حضرت مصلح موعودؓ کا حکم تھا کہ میرے تمام بیٹے اپنی باری پر قادیان میں تین ماہ کا وقت گزاریں گے۔جب اس نوجوان کے قادیان میں تین ماہ پورے ہونے لگے تو ایک رات جائے نماز اُٹھاکر دارالمسیح کے ایک کمرے میں چلاگیا۔ کئی گھنٹے گریہ و زاری میں گزاردئیے۔ خدا سے قادیان مانگ رہا تھا۔ اے خدا مجھے قادیان سے نہ جانے دینا۔ دعا سے سر اُٹھایا تو تسلی ہوئی۔ اگلے روز ہی بھارت اور پاکستان میں قافلوں کا آنا جانا رُک گیا۔حضرت مصلح موعودؓ کا ارشادموصول ہوا کہ تم اب قادیان میں ہی رہو۔وہ قادیان کا ہو چکا تھا۔اور قادیان اُس کا۔
ماں باپ نہ بہن بھائی کچھ بھی تو یاد نہ رہا۔ خدا نے دُعا سن لی تھی ۔ مسیح زماں کی اولاد میں سے مصلح موعودؓ کے اس بیٹے کو اپنی تمام زندگی اس بستی میں رہنے کی سعادت عطا ہوئی۔چند سال ہوئے ایک محفل میں کسی نے پوچھا کہ آپ اپنی والدہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، فرمانے لگے جب قادیان میں اکیلا تھا تو والدہ بہت یاد آتی تھیں۔ میں نے ذکر کرنا ہی چھوڑ دیا تاکہ اتنی یاد نہ آیا کریں۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے کہ پھر یہ عادت سی ہوگئی۔
اپریل 1952ء کا واقعہ ہے۔ ماموں کی شادی کو ابھی چار پانچ روز ہی گزرے تھے کہ ممانی کو لے کر کسی کام سے شیخوپورہ گئے۔ کام کے بعد واپس ربوہ کے لئے روانہ ہوئے تو راستے میں ربوہ سے ایک اور گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے یہ حکم آیا تھا کہ وسیم ابھی اور اسی وقت واپس قادیان چلا جائے،حالات اب ٹھیک نہیں ہیں۔اس حکم کو سنتے ہی گاڑی واپس لاہو ر کی جانب موڑ لی گئی۔ممانی بتاتی ہیں کہ اس وقت ماموں کو صرف اس بات کا افسوس تھا کہ ابّا جان (حضرت مصلح موعود) سے ملاقات نہ ہوسکے گی۔ لاہور پہنچنے پر اطلاع ملی کہ حضور خود لاہور تشریف لا رہے ہیں۔حالات میں کچھ بہتری آنے پر ماموں کو چند روز لاہور میں مزید قیام کا موقع مل گیا۔ حضور بھی اُس وقت تک لاہور میں رہے جب تک ماموں قادیان کے لئے رخصت نہ ہوگئے۔ رخصت کرنے حضرت مصلح موعودؓ خود ائیرپورٹ تشریف لے گئے اور جب تک جہاز نظروں سے اوجھل نہ ہوا اُسے دیکھتے رہے۔ فرض اور محبت میں فیصلہ اس مرد خد ا کے لئے کچھ مشکل بات نہ تھی۔ دل تو باپ کا تھا لیکن خدا نے اسے بہت بڑے کاموں کے لئے چنا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ماموں کو قادیان کے لئے رخصت کیا تو نصیحت فرمائی کہ جماعت سے خرچے کے لئے کبھی کچھ نہ لینا خدا تمہارا انتظام کرے گا۔ بعد میں حضرت مصلح موعودؓ ایک لمبا عرصہ یہ انتظام خود فرماتے رہے۔ قادیان میں شروع کے دن بہت تنگدستی کے تھے لیکن ماموں کو یہ نصیحت ہمیشہ کے لئے یاد ہو چکی تھی۔ ساری زندگی اس پر عمل کرتے رہے اورجماعت سے کوئی وظیفہ قبو ل نہیں کیا۔اپنی آخری بیماری میں امرتسر علاج کے لئے روانہ ہونے لگے تو ممانی سے فرمایا کہ پیسے کچھ زیادہ رکھ لینا۔ماموں کی وفات کے بعد جب ہسپتال کے بل ادا کرنے کا وقت آیا تو اُس لفافے میں اتنی ہی رقم تھی جتنا کہ ہسپتال کا بل۔ خداتعالیٰ کو اپنا خرچ خود ادا کرنے کی ادا کچھ ایسے بھا گئی کہ کسی اَور کو حصہ ڈالنے کا موقع نہ ملا۔
بیواؤں اور یتیموں پر ہر وقت شفقت کی نگاہ رہتی تھی۔ بہانے کی تلاش میں رہتے کہ کوئی موقع ملے۔ ہر خوشی کے موقع پر دستور تھا کہ قادیان کی ہر بیوہ اور یتیم کے گھر جاتے اور چپکے سے لفافہ پکڑا دیتے۔ ماموں کی وفات کے بعد کئی لوگوں نے گھر پر اس کا ذکر کیا۔ ایک خاتون روتے ہوئے کہنے لگیں: مَیں تو اپنا بل میاں صاحب کے دفتر کی میز پر چھوڑ آتی تھی کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ میاں صاحب کو ملا بھی کہ نہیں، اور کبھی ایسے نہیں ہو ا کہ بل کی ادائیگی نہ ہوئی ہو۔
وفات کے چندروز بعد ماموں کی ذاتی الماری کھولی گئی۔ ایک خانہ میں لاتعداد لفافے پڑے تھے۔ ہر لفافے پر امانت رکھوانے والے کا نام اور رقم درج تھی۔ حتیٰ کہ ایک لفافہ ایسابھی تھا جس میں 10 روپے تھے اور امانت رکھوانے والے کا نام لکھا تھا۔
خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دونوں بچوں کے نکاح 2005 ء کے جلسہ قادیان کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے پڑھائے۔نکاح کے بعد خاکسارنے ایک دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ماموں نے ایک بڑی رقم کا لفافہ خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دعوت کے انتظام کے لئے ہے۔ مَیں نے عرض کی ماموں یہ تو بہت زیادہ ہیں۔ کچھ بولے نہیں صرف مسکرا دئیے۔ دعوت کے اخراجات کی ادائیگی کے بعد ایک بڑی رقم بچ گئی جو خاکسار نے ماموں کو لوٹا دی، اس وقت بھی کچھ نہ بولے اور صرف مسکرا دئیے۔ دوماہ بعد پاکستان تشریف لائے تو واہگہ بارڈر پر کار میں بیٹھتے ہی وہی رقم کا لفافہ مجھے پکڑا کر کہنے لگے کہ اپنی امانت سنبھالو جو تم میرے پاس چھوڑ آئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اس قدر تھا کہ تمام زندگی اپنی جلسہ سالانہ کی تقریروں کا موضوع صرف سیرت النبیؐ اور ذکر حبیب رکھا۔ ماموں کی چھوٹی بیٹی نے اپنی پہلی تقریر کے لئے موضوع کے حوالہ سے استفسار کیا تو فرمانے لگے کہ تقریر صرف ذکر ِحبیب پر کرنا۔ اپنے بچوں کو حدیث پڑھاتے تھے۔ بچے کہتے ہیں کہ ہمیں یاد نہیں کہ رسول اللہ کا ذکر آیا ہو اور ماموں کی آواز رندھ نہ گئی ہو۔
ہمسایوں کے تعلق کے حوالہ سے ماموں کی چھوٹی بیٹی (امتہ الرؤف) ایک واقعہ بیان کرتی ہیں۔ چھوٹا ہونے اور زیادہ عرصہ ساتھ ہونے کی نسبت سے یہ باقی اولاد سے کچھ زیادہ لاڈلی تھیں۔ کہتی ہیں ایک رات کو 10 بجے کے قریب میں اپنے کچن کی کھڑکی سے حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ کی بیٹی سے باتیں کر رہی تھی ۔اس وقت حضرت مولوی صاحب کے گھر سے کچھ کوٹنے کی آوازآئی۔ میں نے اپنی دوست سے کہا یہ کیا تمہارے گھر سے کوٹنے کی آواز آرہی ہے۔ دوسرے کمرے میں ماموں موجود تھے جنہوں نے یہ بات سن کر یکدم اتنی زورسے ڈانٹا کہ وہ تمہارے ہمسائے ہیں نہ جانے کس ضرورت کے تحت کچھ کوٹ رہے ہوں گے۔ امتہ الرؤف کہتی ہیں میں نے ابّا کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا۔ یہ خود گھبراکر نماز پڑھنے لگیں۔ اور رو رو کر اللہ سے معافی مانگی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ابّا نے مجھے اتنا ڈانٹا ہو، مجھ سے کوئی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔
ممانی کہتی ہیں کہ دسمبر کے مہینہ میں پاکستان کے لوگوں کے ہاتھ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی جانب سے فرمائشیں موصول ہوتی تھیں۔ جلسے پر کام کا بھی بہت رَش ہوتا تھا۔ کہنے لگیں ایک دن میں نے کاموں سے گھبراکر ماموں کو کہا کہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے اتنی مصروفیت ہے۔ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ماموں نے میرے ہونٹو ں پر انگلی رکھ کر آگے بات کرنے سے منع کر دیا۔ کہنے لگے آگے کچھ نہ کہنا، یہ نہ ہو کہ تمہارے کہے گئے کسی لفظ سے خدا مجھے خاندان مسیح موعودؑ کی خدمت سے محروم کردے۔
نومبر1965ء میں اپنے عظیم باپ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کی خبر ریڈیو پاکستان سے ملی۔ نہ کوئی بہن بھائی پاس اور نہ ہی کوئی اور رشتہ دار کہ غم بانٹ سکیں۔ گھر افسوس کے لئے آنے والوں سے بھر گیا۔ لوگوں سے فرمانے لگے کہ یہ وقت افسوس کا نہیں جاؤ اور جا کر دعائیں کرو کہ خداتعالیٰ یہ وقت جماعت پر آسان کردے۔ پھر جون1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات ہوئی۔ باہر سے آئے کچھ لوگ پاکستان جا رہے تھے کہ جنازہ میں شامل ہو سکیں۔ خود ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکتے تھے ۔ بیعت کی بھی بہت جلدی تھی کہ کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں۔خلافتِ رابعہ کا انتخاب ابھی ہوا نہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع (بغیر نام لکھے) کے نام بیعت کاخط لکھا۔ اپنے اور اپنے اہل ِ خانہ کے دستخط کروائے اور پاکستان بھجوادیا کہ جس کا انتخاب ہو اس کا نام لکھ کر دے دینا۔
خلافت سے عقیدت اور محبت کاواقعہ گو کہ تکلیف دہ لیکن اپنے اندر بیشمار جذبے سمیٹے ہوئے ہے۔ 1986ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے کسی شخص کی دفتری معاملے کی شکایت پر ماموں کو تین ماہ کے لئے خدمات سے سبکدوش کر دیا۔ ممانی کہتی ہیں کہ میرا ان کے ساتھ 55 سال کا ساتھ تھا لیکن مَیں نے ان کو کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ دنوں، ہفتوں میں وزن گر کر آدھا رہ گیا۔ دل میں جانتے تھے کہ بیگناہ ہوں لیکن اپنے آپ کو گناہگا رسمجھ کر خلیفۃ المسیح سے معافی کے طلبگار رہے۔ جماعتی جلسوں میں شرکت کرتے تو سر جھکا کر ایک طرف بیٹھ جاتے۔ گھنٹوں سجدے میں پڑے رہتے۔ وجو د پگھل پگھل کر بہتا رہتا۔ حضرت خلیفۃالمسیح کا دل بھی اپنے اس درویش بھائی کی خاطر نہ جانے کس حال میں ہوگا۔ لیکن خلافت کے منصب نے انصاف کے تقاضے پورے کرنا تھے اور خلافت کا یہ پیروکار معافی مانگتا رہا۔ ایسی مثال مسیح موعودؑ کی جماعت کے علاوہ رُوئے زمین پر کہیں نہیں مل سکتی۔ بالآخر شکایت غلط ثابت ہوئی اور خداتعالیٰ نے برّیت کے سامان کر دئیے۔
2005ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی قادیان جلسے کے لئے تشریف لائے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ ماموں کے سارے بچے بھی اکٹھے موجود تھے۔ ایک دن طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ایک بچی کو بلا کر کہنے لگے کہ دُعا کرو کہ اگر میرا وقت آچکا ہے تو ابھی پورا ہو جائے تاکہ حضور میری نمازِ جنازہ پڑھائیں اور تمام بچے شامل ہو سکیں۔ کہتے تھے کہ تمام عمر اکیلا رہا ہوں میری خواہش ہے کہ جب موت آئے تو سارے بچے میرے پاس ہوں۔ ماموں کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش بھی پوری کردی۔ وفات سے پہلے تمام بچے پہنچ چکے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں