حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍نومبر 1998ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب رقمطراز ہیں کہ

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

حضرت میاں صاحب میں بے پناہ جرأت تھی۔ 1987ء میں جب آپ کے خلاف تھانہ ربوہ میں ایک سراسر جھوٹا مقدمہ درج ہوا تو ایک ذمہ دار عہدیدار نے نہایت تشویش سے آپ کو یہ خبر سنائی۔ آپ نے آرام سے فرمایا: ’’تو پھر کیا ہوا، آپ کیوں پریشان ہیں، انشاء اللہ کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اگر میرے خلاف پرچہ کی وجہ سے ایک بھی احمدی کا مورال ڈاؤن ہوا تو آپ جوابدہ ہوں گے‘‘۔
حضرت میاں صاحب کو جب بھی عدالت کی طرف سے حاضری کی اطلاع آتی تو آپ قطعاً گریز نہ کرتے اور کبھی اس خواہش کا اظہار نہ کرتے کہ حاضری معاف کروائی جائے۔ عدالت کے اندر اور باہر جب بھی کرسی پیش کی گئی تو آپ نے قبول نہ فرمائی بلکہ اپنے دیگر احمدی ملزمان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کو ترجیح دیتے۔ چنانچہ انجام کار پرچہ خارج ہوا اور آپ باعزت بری ہوئے۔
حضرت میاں صاحب کو عام کارکنان سے بھی بہت محبت اور ہمدردی تھی اور اُن کی مدد کرنے میں کبھی دریغ نہ فرماتے۔ جماعتی مفاد کے لئے غیرت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کے احمدنگر والے زرعی فارم سے دو گائیں چوری ہوئیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ چوری ہمارے لئے ایک چیلنج ہے، اگر ہم اپنے امام کی عدم موجودگی میں اُن کے اموال کی حفاظت نہیں کرسکتے تو اس سے زیادہ ہماری کمزوری و بے اعتنائی اور کیا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ پھر کئی ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد ملزمان کا سراغ لگاکر مال مسروقہ برآمد کیا گیا۔
حضرت میاں صاحب کی زرعی اراضی کے پڑوس میں رہنے والے دو مفلس افراد نے چوروں کے ڈر سے اپنی دو بھینسیں آپ کے ڈیرہ پر باندھ رکھی تھیں۔ اتفاق سے دونوں بھینسیں چوری ہوگئیں۔ جب آپ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان غریب ہمسایوں نے ہمیں مضبوط امین تصور کرکے اپنی بھینسیں باندھی تھیں۔ اب ہر حالت میں ان کی اصلی بھینسیں ہی واپس ہونی چاہئیں۔ چنانچہ آپ کی دعاؤں، محترم مرزا مسرور احمد صاحب کے اثر و رسوخ اور ڈیڑھ ماہ کی مسلسل کوشش سے دونوں بھینسیں بازیاب ہوگئیں۔ لیکن بھینسوں کی تلاش ، سراغ رسانی اور واپسی تک کے تمام اخراجات سے محترم میاں صاحب نے غریب مالکان کو بے نیاز کئے رکھا اور اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ آپ کا وجود بلاامتیاز نافع الناس اور امین تھا۔
آپ کے ایک ملازم کا بیان ہے کہ جب بھی میاں صاحب کا کوئی ذاتی نقصان ہو جاتا تو آپ رائی برابر بھی پرواہ نہ کرتے اور یہی فرماتے کہ کوئی ضرورتمند لے گیا ہوگا اس لئے کھرے اور تلاش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اکثر ملازمین غیراز جماعت ہیں لیکن جب بھی اُن کو کہیں سے تکلیف پہنچی تو حضرت میاں صاحب نے فوراً اُن کی مدد کی اور اپنے کسی نقصان کی فکر نہیں کی۔
مضمون نگار نے ذاتی شواہد کے حوالہ سے متعدد واقعات بیان کئے ہیں جن سے حضرت میاں صاحب کی فیاضی اور غرباء کی بے نفس ہمدردی کا پہلو نہایت شاندار دکھائی دیتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں