حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مئی 2012ء میں محترم مولانا ظفر محمد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی سیرۃ کے حوالہ سے چند امور پیش کئے گئے ہیں۔

Hazrat Mirza Sharif Ahmad Sahib

محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب

1936-37ء میں جب جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی شورش زوروں پر تھی تو اس فتنہ کے مقابلہ کے شعبہ کے انچارج حضرت مرزا شریف احمد صاحب تھے اور آپؓ اکثر دفتری اوقات کے بعد بھی اپنے کام میں دیر تک مصروف رہتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا کہ دوپہر کو کسی کام سے جاتے تو شام کو آتے اور پوچھتے کہ گھر سے میرا کھانا آیا تھا؟ مَیں عرض کرتا کہ جی ہاں۔ کبھی فرماتے کہ اب کیا کھانا ہے۔ ایک روز مجھے فرمایا کہ جب تک مَیں واپس نہ آؤں آپ دفتر سے باہر نہ جائیں۔ چنانچہ میں کھانا کھانے کے لئے اپنے گھر نہ جاسکا۔ ظہر کے وقت بھی آپ تشریف نہ لائے تو پھر آپؓ کا کھانا مَیں نے کھالیا۔ لیکن جونہی مَیں کھانا کھاکر بیٹھا تو آپؓ تشریف لے آئے اور آتے ہی پوچھا کہ میرا کھانا آیا تھا؟ مَیں نے کہا: ہاں جی۔ پوچھا: کہاں ہے؟ مَیں نے عرض کی کہ مَیں نے کھالیا ہے۔ یہ جواب دیتے وقت میری قلبی کیفیت کا جو عالَم تھا اس کو صرف مَیں ہی جانتا ہوں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں حضرت میاں صاحب ناراض نہ ہوں۔ مَیں اسی فکر میں آپؓ کے چہرہ کی طرف دیکھنے لگا۔ جونہی میری نگاہ پڑی تو آپؓ کے چہرہ پر ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نہایت محبت اور شفقت سے فرمایا کہ آپ نے بہت اچھا کیا۔
حضرت میاں صاحبؓ کے اخلاق اور عادات اتنے شیریں تھے کہ آپؓ کے ساتھ کام کرتے ہوئے کبھی کوئی کلفت محسوس نہیں ہوئی۔ نہایت پُرسکون اور شیریں لہجہ کے ساتھ بشاشت سے بات فرماتے۔
حضرت میاں صاحب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا اور عموماً احادیث نبویہ کا مطالعہ بہت شوق سے فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپؓ نے فرمایا کہ آپ روزانہ میرے مکان پر آکر مجھے ترمذی شریف سنایا کریں۔ چنانچہ اس حکم پر عمل کرنے لگا۔ آپؓ حدیث شریف سنتے ہوئے بعض ایسے لطیف نکات بیان فرماتے تھے جو ہم نے کبھی اپنے بزرگ اساتذہ سے بھی نہ سُنے تھے۔ اسی دوران مجھے مرکز کی طرف سے حکم ملا کہ فلاں کام کے لئے پنجاب کے فلاں مقام پر چلے جائیں اور یہ کہ اپنی فیملی کو بھی ہمراہ لے جانے کی اجازت ہے۔ مرکز کی طرف سے پچاس روپیہ برائے اخراجاتِ سفر بھی ملے۔ لیکن یہ روپیہ کافی نہ تھا۔ اس لئے رات کو مَیں دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کوئی انتظام فرمادے۔ صبح دروازہ پر دستک ہوئی۔ باہر حضرت میاں صاحبؓ کا نوکر کھڑا تھا۔ اُس نے مجھے پچاس روپے دیتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت میاں صاحبؓ نے بھیجے ہیں اور فرمایا ہے کہ اگر ضرورت ہو تو اَور بھی منگوالیں۔ مَیں نے جزاکم اللہ عرض کرنے کے لئے کہا۔ لیکن مجھے معلوم نہیں کہ آپؓ کو میری ضرورت کا کس طرح علم ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں