حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اکتوبر 2006ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کا حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے ذکرخیر پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں بھی 16؍جون1995ء، 6؍جون 1996ء، 24؍اکتوبر 1997ء اور 26؍نومبر 1999ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں آپ کی سیرۃ پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ چنانچہ ذیل میں صرف اضافی محاسن کا ہی ذکر کیا جارہا ہے۔
حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے کپورتھلہ میں پریکٹس کرتے تھے۔ ان ایام میں عدالتی کام کے سلسلہ میں کپورتھلہ میں اردو زبان میں کارروائی ہوتی تھی۔ بعض وکلاء نے وزیراعظم کی وساطت سے عدالت میں انگریزی زبان استعمال کرنے کی اجازت کے لئے درخواست کی۔ راجہ صاحب نے کہا کہ میں خود عدالت میں آکر دیکھوں گا کہ اردو میں بیان کرنے میں کیا دقّت پیش آتی ہے، اس کے بعد فیصلہ کروں گا۔ اتفاق سے جب راجہ صاحب کپورتھلہ عدالت میں تشریف لائے تو حضرت شیخ صاحب کسی مقدمہ کے سلسلہ میں بحث کررہے تھے۔ راجہ صاحب نے آخر تک کارروائی سنی اور یہ کہہ کر تشریف لے گئے کہ محمد احمد کو تو اردو میں بحث کرنے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی۔
حضرت شیخ صاحب کی قانونی خدمات میں نمایاں تاریخی دَور وہ تھا جب آپ نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے زیر اہتمام 1931ء تا 1934ء حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی راہنمائی میں اہل کشمیر کی قانونی خدمات سرانجام دیں اور اپنی قانونی جنگ سے 200 کے قریب مظلوم کشمیریوں کو جیلوں سے رہا کروادیا۔ چنانچہ جب آپ کشمیر سے واپس لوٹنے لگے تو مشہور کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ (صدر نیشنل کانفرنس) پانچ چھ سو آدمیوں کے ساتھ آپ کو الوداع کہنے آئے۔ بعد میں جب شیخ عبداللہ کی خود نوشت ’’آتش چنار‘‘ شائع ہوئی تو مضمون نگار نے حضرت شیخ صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے کتاب منگواکر پڑھی اور واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتاب اس کی لکھی ہوئی نہیں ہے، وہ تو فارسی سے نابلد تھے، اس میں جابجا فارسی اشعار استعمال ہوئے ہیں بلکہ ایک دو اشعار غلط طور پر استعمال کئے گئے ہیں جن کا مطلب الٹ نکلتا ہے۔
حضرت شیخ صاحب نے قیام پاکستان کے بعد فیصل آباد میں وکالت کی۔ ہمیشہ چوٹی کے وکلاء میں شمار ہوتا تھا۔ غیرازجماعت قانون دان طبقہ آپ کا بے حد احترام کرتا تھا۔ آپ کی قانونی مہارت مسلمہ تھی۔
آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کا درس قرآن سننے کا بھی موقعہ ملا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے آپ دست راست رہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ آپ کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور اس کی غیر محدود رحمتیں جو ہم نے جلسہ کے ایام میں اپنے پر نازل ہوتی دیکھیں۔ ان کے نتیجہ میں جماعت پر جو شکر بجالانے کا فرض عائد ہوتا ہے اس کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاؤں۔بہترین بیان جو جلسہ کی رحمتوں کے متعلق میرے سننے میں آیا وہ یہ ہے کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر جو ہمارے بزرگ دعاگو اور بڑا ہی اخلاص رکھنے والے ہیں،…۔ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے میں 57 سال سے جلسہ سن رہا ہوں اور کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ ہر سال ہمارا جلسہ ایک منزل اوپر ہوتا ہے۔ اس سال یہ جلسہ دومنزل اوپر ہوا۔ ایک منزل نانبائیوں کی وجہ سے ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جزا دے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو، ان کے سپرد میں نے کام کیا تھا (وہ بڑے اچھے فارسی دان ہیں) کہ جو پہلی درثمین فارسی شائع ہوئی ہے اس میں کتابت کی اور اعراب کی بہت سی غلطیاں ہیں انہیں میں نے کہا کہ مجھے لکھ کے دیں۔ صحیح اور حسب ضرورت اعراب کے ساتھ۔ … انہوں نے وہ مسودہ تیار کرکے مجھے دیدیا ہے ‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جلسہ سالانہ 1982ء کے دوسرے روز کی تقریر میں فرمایا: ’’حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب سلسلہ کے ایک بہت ہی متبحر عالم ہیں اور بڑے خاموش طبیعت اور منکسرالمزاج انسان ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا لمبا حصہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب منن الرحمن کی صداقت کے اظہار کے لئے وقف رکھا۔ اور حضرت اقدس نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر جو یہ دعویٰ فرمایا کہ عربی ام الالسنہ ہے، اس پر محترم شیخ صاحب نے اتنی محنت کی اور راتوں کو دیئے جلائے کہ یہ محنت چالیس سال کے طویل عرصہ پر پھیلی پڑی ہے اور چالیس سے زیادہ مختلف زبانوں کو آپ عربی کی طرف لوٹا چکے ہیں۔ لیکن اپنے خرچ پر اپنی ذمہ داری پر اور اپنی محنت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ کتاب عام فہم نہ ہو اور عوام الناس اس میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں۔ … جب ماہرین السنہ نے جب آپ کی تصنیف کو دیکھا تو یہاں تک لکھا کہ آپ کی تحقیق اگر میکس ملر (Max Muller) کی تحقیق سے جو علم اللسانیات کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے بڑھی ہوئی نہیں تو کم ازکم اس کے ہم پلہ ضرور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ میں سے تعلیم یافتہ طبقہ اس پر غور کرے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم پلّہ ہونے کا کیا سوال ہے۔ یہ تحقیق یقینا اس سے بڑھی ہوئی ہے۔ اس وقت آپ کی دوکتابیں ہمارے سامنے ہیں۔
1. English Traced to Arabic
2. Sanskrit Traced to Arabic
اور ان دونوں میں ساری دنیا کو گہری دلچسپی ہے اور اگر قرآن کریم کی زبان یعنی عربی کو ام الالسنہ ثابت کیا جائے تو یہ قرآن کریم کی ایک عظیم الشان خدمت ہوگی۔ اس لئے جو دوست بیرونی دنیا سے تشریف لائے ہوئے ہیں ان کو میں خصوصیت سے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ … علماء کو تلاش کرکے ان تک یہ کتاب پہنچائیں۔ … یونیورسٹیوں سے رابطہ قائم کرکے ان کے لیکچر کروائیں تاکہ اس عظیم الشان خدمت کو دنیا سے روشناس کرایا جائے۔ وہ تو کسی دنیاوی بدلے کے محتاج نہیں، بلکہ اس سے بالا اور بے نیاز ہیں لیکن جو ہماری ضرورت ہے وہ تو ہمیں بہرحال پوری کرنی چاہئے‘‘۔
حضورؒ نے خطبہ جمعہ یکم جنوری 1993ء میں فرمایا: ’’… حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے شیخ محمد احمد صاحب کی پیدائش پر ان کے والد کے نام مبارکباد کا خط لکھا ۔ … مگر تحریر مختصر اور بہت سے مضامین کو چند الفاظ میں سمیٹے ہوئے: ’’لڑکا نوزاد مبارک ہو اس کا نام محمد احمد رکھ دیں۔ خداتعالیٰ باعمر کرے‘‘۔یہ ’’باعمر کرے‘‘ والی جو بات ہے یہ ہر خط میں آپ نہیں لکھا کرتے تھے کسی خط میں کوئی دعا ہوتی تھی، کسی خط میں کوئی دعا ہوتی تھی اور یہ پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ جماعت کو بھی اپنے ان جذبات میں شریک کروں۔
حضرت شیخ محمد احمد صاحب کی عمر غیرمعمولی حالات میں بہت سخت بیماریوں کا شکار رہنے کے باوجود خدا کے فضل سے لمبی سے لمبی ہوتی چلی گئی ہے اور دعا کا ایک چھوٹا سا فقرہ یہ تھا کہ خداتعالیٰ باعمر کرے تو باعمر تو ہوگئے اب سو سال پورے ہونے میں چار سال رہتے ہیں‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زیرتعلیم تھے تو اُس زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’فیصل آباد میں جب ہم ہوتے تھے تو خدام خدمت خلق کے تحت باہر جایا کرتے تھے تاکہ دیہاتوں میں جاکے لوگوں سے ملیں اور اگر ان کے کوئی کام بھی ہوں تو وہ کئے جائیں، ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ زمیندار ہیں تو ان کی زمیندارے کی کیا کیا ضروریات ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے۔ تو اسی طرح کے ایک وفد میں ہم گئے۔ ایک دیہاتی بیٹھا تھا باتوں باتوں میں اس کو پتہ لگ گیا کہ ہم احمدی ہیں۔ گو کہ یہ اظہار عموماً نہیں کیا جاتا تھا جب تک کوئی خود نہ پوچھے۔ اس نے ذکر کیا کہ فیصل آباد میں ایک احمدی وکیل ہیں شیخ محمد احمد صاحب مظہر، بہت نیک انسان ہیں اور بہت سچے آدمی ہیں، کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے اور کبھی کوئی جھوٹا کیس نہیں لیتے لیکن (وہ پنجابی میں کہنے لگا) ایک نقص ہے ان میں کہ وہ ہیں مرزائی۔ تو مرزائی احمدی ہونا ہی نقص تھا ان میں اور کوئی عیب تلاش نہیں کرسکے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں