حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 و 19؍ نومبر 2007ء میں محترم رانا منظور احمد صاحب نے اپنی یادوں کے حوالہ سے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی دلکش سیرۃ کو بیان کیا ہے۔ مضمون نگار کو قریباً تیس سال حضرت شیخ صاحب کی رفاقت میں دینی امور بجالانے کا موقع ملتا رہا۔ آپ لکھتے ہیں کہ مغرب کی نماز آپ کے گھر پر ہی ادا کیا کرتا تھا۔ کوشش کرتا کہ گھر سے وضو کرکے جاؤں کیونکہ اگر وضو کرنا ہوتا تو بعض اوقات محترم شیخ صاحب کو خود لوٹا تھام کر لاتے دیکھا۔ پھر نماز پڑھانے کا ارشاد بھی مجھے ہی فرماتے اور اگر وہاں کوئی دوسرے بزرگ بھی موجود ہوتے تو میری طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ یہ ہمارے گھر کے امام الصلوٰۃ ہیں۔
درمیانی نماز کی حفاظت کے حکم کی تعمیل کی طرف توجہ دلاتے رہتے۔ فرماتے: بارات، ولیمہ اور تقریبات کے درمیان آنے والی نماز وقت پر ادا کرنی چاہئے۔ نیز فرمایا کرتے کہ تہجد گزار کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔
قرآن کریم کافی حد تک حفظ تھا، ہر مضمون کی آیت نکال لیتے۔ خاکسار نے دوران ملازمت قرآن حفظ کرنے کی توفیق پائی تھی۔ اِس کا حوصلہ افزائی کے طور پر ذکر کرتے۔ نیز محترم چودھری نعمت اللہ خان صاحب ریٹائرڈ سیشن جج کا بھی جنہوں نے ججی کے دوران قرآن مجید حفظ کیا تھا۔ جب پہلی بار مجھے تراویح میں قرآن سنانے کا موقع ملا تو بعد میں فرمایا کہ فلاں صاحب کچھ تحفہ پیش کرنا چاہتے تھے، مَیں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ رانا صاحب نہیں لیں گے، کیا مَیں نے ٹھیک کیا؟۔ اس طرح میری تربیت کی۔
محترم شیخ صاحب نماز مغرب کے بعد مسجد میں ہلکا سا درس از کتب حضرت مسیح موعودؑ دیا کرتے تھے۔ فرمایا کہ تمام کتب کا درس کپورتھلہ اور فیصل آباد میں تین تین بار دے چکا ہوں۔
گزربسر نہایت سادہ اور مسافرانہ تھی۔ مکان میں پرانی طرز کا گارے کا پلستر، زیراستعمال پرانا کوٹ اور پرانا بیگ، لباس جھاڑپھونک سے مطلقاً بے نیاز، گھر میں استعمال والی جوتے کی ایڑی بٹھائی ہوئی، اپنے دفتر اور ساتھ والے کمرہ میں ننگے پاؤں بھی آجا لیتے۔ جلسہ سالانہ پر اگر آپ کی صدارت ہو یا کوئی خاص بات ہو تو سٹیج پر بیٹھتے ورنہ پیچھے پرالی پر بیٹھنا پسند تھا۔ 1994ء میں مجلس مشاورت کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے سانچے پر حضرت مصلح موعودؓ نے بنایا ہے کہ اگر خلیفہ ایک ایسے شخص کو جو سب کا خادم ہے، صدر مقرر کردے تو جو اُس کے مخدوم ہیں، وہ اپنے خادم کے ساتھ تعاون کرسکتے اور کام کرسکتے ہیں۔ اِس شوریٰ سے یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ مَیں جو ایک ادنیٰ ترین خادم ہوں، اگر صدر بنایا گیا ہوں اُن لوگوں کا جو تمام کے تمام میرے مخدوم ہیں، جن میں ایسے بھی میرے مخدوم ہیں جن پر میرے دل وجان قربان ہیں تو یہ صرف نظام کی خوبی اور تاثیر ہے نہ کہ کسی اَور چیز کی۔
اپنے خدام کے ساتھ آپ کی محبت اور حسن سلوک کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ جب کوئی موصی وفات پاجاتا تو اُس کے حساب کی بے باقی کے لئے نظارت بہشتی مقبرہ کو کھلا رقعہ دیدیتے۔ اس شفقت اور سہولت کی بدولت کئی خدام سلسلہ مقبرہ بہشتی میں پہنچ گئے۔
خاکسار کے ذاتی مکان کی بنیادی اینٹ بھی رکھی اور تعمیر کے دوران کئی بار فرمایا کہ جتنی ضرورت ہے مجھ سے پیسے لے لیں۔ شفقت کا سلوک ہر ایک سے یکساں تھا۔ میرے بیٹے کی شادی کے موقع پر احباب اپنے امیر کے ساتھ تصاویر بنارہے تھے۔ ایک طرف مسجد کے نقیب مکرم شیخ غلام محمد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے اُنہیں بلایا اور فرمایا: آئیں آپ بھی میرے ساتھ فوٹو بنوائیں۔
تحفہ قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے۔ اگر ٹائپنگ کرنے کے سلسلہ میں بھی کبھی کوئی کاغذ یا ربن لے آیا تو قیمت ادا کرنے کے لئے اصرار کرتے۔
آپ کا ہینڈرائٹنگ بہت صاف اور خوشخط تھا۔ تحقیقی کام بہت فرحت بخش ہوتا اور کچہریوں کی تھکاوٹ بھی بشاشت میں بدل جاتی۔ کبھی یہ نہیں فرمایا کہ آج نہیں، کل کام کریں گے۔ بلکہ چھوٹی موٹی بیماری میں بھی بیٹھ کر کام جاری رکھا۔ میری ٹائپنگ کی تعریف کرتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ خاکسار کے آرام کا بھی خیال رکھتے اور کئی بار فرماتے کہ بس کریں، کافی کام ہوگیا ہے۔ اسی ضمن میں فرمایا کہ مَیں آپ کو مشقّت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ چائے، بسکٹ، کھانا، خشک اور تازہ پھل، اوولٹین، کافی ملتی رہتی، سیب اپنے ہاتھ سے چھیل کر کھلاتے، آم کی قاشیں بناکر دیتے۔ یہ تواضع سب کے لئے ہی تھی، صرف ہمارے لئے ہی خاص نہ تھی۔
ایک دن فرمایا: ’’میں نے سلسلہ کے مقدمات میں کبھی فیس نہیں لی‘‘۔
خاکسار کو اور مکرم چوہدری غلام دستگیر صاحب کو مکانوں کی سیٹلمنٹ کے مقدمات پیش آئے تو ہمارے کاغذات منگوائے۔ نماز کے بعد فرمایا: مسجد میں دنیا کا کام کرنا منع ہے لیکن یہ جماعت کے کارکن ہیں اس لئے میں یہ دینی کام ہی کررہا ہوں۔ خاکسار کو ابھی زیادہ واقفیت نہ تھی۔ کچھ نہ کچھ فیس دینے کی نیت سے گھر چلا گیا۔ جب مدعا عرض کرنے کی کوشش کی تو فرمایا: پیسے دینے ہوں تو اور وکیل تھوڑے ہیں۔ خاکسار اپنی غلطی کی معافی طلب کرکے واپس آگیا۔ اس مقدمہ کا فیصلہ خاکسار کے خلاف ہوگیا۔ فرمایا میں لاہور میں اپیل دائر کروں گا۔ میں آپ کے لئے تانگہ دیکھنے لگا کہ یکایک میرا سائیکل پکڑ کر احاطہ زرعی یونیورسٹی سے چنیوٹ بازار تک اس پر سوار ہو کر آگئے۔
مؤکل کے بارے میں اگر معلوم ہوجاتا کہ سچ پر نہیں ہے تو لی ہوئی فیس واپس کر دیتے۔ کئی دفعہ ذکر کیا کہ بہت سے مقدمات، معاہدات کی عدم تحریر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کاروباری شراکت وغیرہ میں تحریری معاہدہ کی تاکید فرماتے۔
ایک مقدمہ کا ذکر کیا کہ مکرم رحمت اللہ صاحب مرحوم کی ایک شخص نے ظلم اور زیادتی سے ٹانگ توڑ دی۔ ریاست میں مقدمہ چلا۔ غیرمعمولی طور پر دادرسی نہ ہوسکی۔ ایک حاکم اعلیٰ جو مجھ سے حسن ظن رکھتا تھا۔ اُسے میں نے ماجرا سمجھایا۔ لیکن اس نے بھی یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ کل ہی میرا تبادلہ ہوگیا ہے۔ اس پر میں نے رحمت اللہ صاحب کو کہا: آپ کا مقدمہ آسمان پر چلا گیا ہے۔ جلد بعد ہی خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ ظالم شخص کھجوریں اتارنے کے لئے درخت پر چڑھا اوپر زہریلے ناگ نے ڈسا اور دھڑام سے نیچے آیا۔
بچیوں کی وکالت کی تعلیم کو پسند نہ کیا۔ خاکسار نے اپنی بیٹی کے متعلق مشورۃً عرض کیا کہ قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ فرمایا:نہیں۔ میری طرف سے اسے پیغام دیں کہ یہ ارادہ ترک کر دے۔
ایک روز ایک احمدی مشورہ کے لئے تشریف لائے اور کہا کہ مکان کا مختارنامہ اُن کے نام ہے۔ جبکہ اُن کے والد صاحب بوجہ احمدیت اُن پر اور ان کی والدہ صاحبہ پر بہت سختی کرتے ہیں چنانچہ کیوں نہ مختارنامہ کو استعمال کرکے جائیداد مذکورہ کو منتقل کروالیا جائے؟ فرمایا: یہ جائیداد آپ کے والد صاحب کی ہے۔ اس کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی جناب سے اور بہت عطا فرمائے گا۔
آپ ذہانت و فطانت رکھنے والے اور بہت زودفہم تھے۔ بات کو طول دینا گوارانہ تھا۔ تھوڑی بات سن کر نتیجہ اخذ کر لیتے تھے۔ معمورالاوقات ہونے کے باعث ٹوک بھی دیتے تھے کہ مطلب کی بات کریں۔ خود مَاقَلَّ وَ دَلَّ پر عمل پیرا تھے۔ لمبی کہانیاں اپنے مؤکل سے بھی نہ سنتے تھے اگرچہ اس نے کتنی بھاری فیس ادا کی ہوتی۔ اور یہاں معاملہ اس طرح چلتا گویا آپ نے اس کا کیس لے کر اس پر احسان کیا ہوا ہے۔
ایک مخلص دوست نے کسی بات پر ناراض ہو کر مقررہ امام الصلوٰۃ کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ آپ حسب معمول نماز کے وقت تشریف لائے تو اُن صاحب نے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا۔ لیکن آپ (یہ کہتے ہوئے) ایک طرف ہٹ کر مسجد میں داخل ہوگئے کہ آپ جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، میں آپ سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ وہ دوست نماز کے بعد گھر پر حاضر ہوئے اور روتے ہوئے معافی کے خواستگار ہوئے۔ آپ نے یہ نصیحت کرتے ہوئے معاف کر دیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرنی۔
آپ میں یہ ایک نمایاں وصف تھا کہ جس قدر بھی آزردہ اور ناراض ہوتے، معافی مانگنے پر غصہ غیرمعمولی طور پر فرو ہوجاتا اور معافی مل جاتی۔ ایک بار مسجد میں دعا کی تقریب سے قبل آپ نے فرمایا کہ مَیں اُس وقت تک دعا نہیں کرواؤں گا جب تک فلاں دو تاجر حضرات باہم صلح نہیں کرلیتے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں اٹھے اور باہم صلح کرلی۔
محترم میاں عبدالسمیع صاحب نون لاہور سے تشریف لائے اور مکرم حافظ مسعود احمد صاحب آف سرگودھا کی علالت اور لاہور ہسپتال میں داخل ہونے کا ذکر کر کے کہا کہ حافظ صاحب موصوف نے جن الفاظ میں دعا کی درخواست کی ہے میں اسی کو دہراتا ہوں۔ اگر کوئی امر ناگوار خاطر ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے محترم حافظ صاحب کا ارسال کردہ رومال پیش کیا اور کہا کہ حافظ صاحب نے درخواست کی ہے کہ اس رومال کو پاؤں پر پھیر کر اس پر دعا کر کے بھیج دیں۔ آپ نے وہ رومال پکڑا۔ اسے کھول کو دونوں ہاتھوں میں لیا۔ اپنے منہ پر پھیرا۔ پھراپنے سر سے پگڑی یا تولیہ جو اس وقت سر پر تھا اتار کر اس رومال کو اپنے سر پر پھیلا کر دعا کی اور پھر تہہ لگا کر رومال مکرم نون صاحب کے حوالے کر دیا۔
حضرت شیخ صاحب عیدین پر خاص احباب کو دعوت پر بلاتے۔ نہایت مزیدار کباب کھلاتے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے حوالے سے فرماتے کہ گائے کا گوشت کھانے والے کو سچی خوابیں آتی ہیں۔ خود بہت کم خوراک لیتے تھے۔ بعض دفعہ آنے والوں کے لئے دروازہ خود کھولتے۔ رخصت کے لئے دروازہ تک آتے اور دروازہ خود بند کرتے۔
خدام الاحمدیہ کے ہال ’’ایوان محمود‘‘ کو دیکھ کر فرمایا: یہ حال (ہال) نہیں ’’مستقبل‘‘ ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کے تابع جماعت احمدیہ نے کشمیر میں جو اہم قانونی خدمات سرانجام دیں، حضرت شیخ صاحب نے بارہا ان کا تذکرہ کیا۔ چند ایک واقعات حسب ذیل ہیں۔
٭ چیف جسٹس دلال، انصاف پسند، بااصول جج تھا۔ وکلاء میں اس کی سخت گیری کا چرچا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خداداد فراست کی بنا پر خاکسار کو نصیحت کی کہ خودپسند ہے اپنی تعریف پسند کرتاہے، مقدمات کی پیروی میں اس پہلو کو مدنظر رکھنا۔ خاکسار نے حضور کی اس نصیحت پر عمل سے بہت فائدہ اٹھایا۔ مقدمات کی سماعت کے دوران میں وکلاء حیرت زدہ رہ جاتے کہ اس باہر سے آئے ہوئے وکیل نے جسٹس دلال جیسے شخص کا کیسا اعتماد حاصل کر لیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے سخت اور پیچیدہ فوجداری مقدمات میں کامیابی حاصل کی اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کی بریت اور رہائی کا سامان کیا۔
٭ ایک دفعہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے یہ غلطی کی کہ جسٹس دلال صاحب کا جنازہ بنا کر جلوس نکال دیا جس سے وہ سخت برہم ہوا۔ خاکسار نے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کی تفاصیل سامنے رکھ کر اسے یہ تأثر دیا کہ جو کچھ ہوا ہے بامر مجبوری ہوا ہے۔ بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا اور مسلمانوں کے مقدمات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ دور ہوا۔ شیخ محمد عبداللہ صاحب بہت ممنون ہوئے اور بعد میں تمام معاملات میں خاکسار کے مشورہ پر عمل کرتے رہے۔
٭ محترم برادرم شیخ بشیر احمد صاحب (ریٹائرڈ جج ہائیکورٹ لاہور) ایک ماتحت عدالت میں ایک مقدمہ کی پیروی کررہے تھے۔ حاکم علاقہ نے مخالفین کی اس شکایت پر کہ باہر سے وکیل آکر نقص امن کی صورت پیدا کر رہے ہیں، اُن کا داخلہ اپنے علاقہ میں ممنوع قرار دیدیا۔ خاکسار نے جسٹس دلال صاحب کو صورتحال سے آگاہ کیا کہ اس طرح انصاف اور فریادرسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ اگرچہ میں حاکم علاقہ کی عملداری میں دخل انداز نہیں ہوسکتا لیکن عدالت تو میرے ماتحت ہے۔ میں عدالت کو حکم دیتا ہوں کہ علاقہ ممنوعہ کی سرحد پر آکر مقدمہ کی سماعت کرے۔ اس طرح محترم شیخ بشیر احمد صاحب تاریخ پیشی پر سرحدی مقام پر پہنچ جاتے اور عدالت برائے سماعت مقدمہ اس جگہ پہنچ جاتی۔
٭ مسلمانوں نے تنگ آکر پولیس مقابلہ کر ڈالا اور بعض ملازمین کو ضربات بھی پہنچیں۔ سخت مقدمہ ہوا۔ شہادتیں پختہ اور سزایابی ناگزیر کی صورت پیدا ہوگئی۔ چیف جسٹس صاحب کی عدالت سے (جو خود مصر تھے کہ توہین سرکار کا جرم ہے۔ سزا ضروری دی جائے گی) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے خاکسار نے ایک ایک کو بری کرا لیا۔
علاقہ ملکانہ میں فتنہ شدھی کے خلاف کام کرنے کی بھی سعادت آپ کو میسر آئی۔ ایک خطرناک علاقے سے آپ بھیس بدل کر گزرے۔ تَہ بند نیچے سے کس کر۔ قمیص اور پیسے گڑوی میں چھپا کر۔ اس گڑوی کو کندھے کے پیچھے سوٹی سے لٹکا کر۔ جو گیانہ طریق پر اس علاقہ سے گزرے۔
مارچ 1921ء میں غیرازجماعت علماء نے قادیان میں جلسہ کرنا چاہا۔ جن کے بدارادوں سے فساد کا اندیشہ تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز کے بعد امیر صاحب ضلع لاہور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے فرمایا کہ احمدیہ ہوسٹل (لاہور) کے تمام طلباء رات کو 9 بجے گاڑی سے قادیان کے لئے روانہ ہوجائیں۔ یونیورسٹی کے امتحان عین قریب تھے۔ خاکسار نے بغرض اطمینان استصواب کیا کہ آیا آئندہ امتحان دینے والے طلباء بھی پابند ہیں؟ امیر صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ اس دفعہ کا امتحان قادیان میں ہی ہوجائے گا … رات کے ساڑھے بارہ بجے گاڑی بٹالہ سٹیشن پہنچی۔ ہم میں سے بعض طلباء نے یکوں کو تلاش کرنا چاہا۔ اتنے میں کسی نے بتایا کہ امیر صاحب پیدل ایک فرلانگ آگے نکل گئے ہیں۔ اس پر سب طلباء پیدل چل پڑے… صبح ہماری ڈیوٹی بہشتی مقبرہ کی حفاظت قرار پائی … تین دن پہرہ کے بعد جب مخالفین کا جلسہ ختم ہوا تو پہرہ ہٹا لیا گیا۔ قادیان سے واپسی پر میرا یکہ الٹ گیا اور میرے جسم پر آپڑا۔ میرے کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ شدید درد وکرب کی حالت میں مجھے میو ہسپتال لایا گیا۔ 18 دن کے بعد ہسپتال سے فارغ ہوا۔ ہڈی کے جوڑ کی وجہ سے میرا بازو نصف انچ کے قریب چھوٹا ہوگیا ہے۔ درزی کو دونوں بازوؤں کا الگ الگ ناپ دیا کرتا ہوں۔ سردی کے موسم میں اس جگہ ہلکا ہلکا درد ہوتا ہے۔ لیکن کتنا میٹھا ہے یہ درد۔ (کالج کا فائنل امتحان پھر آپ نے اگلے سال پاس کیا)
فارسی کے دو مشہور شعراء کا ذکر کیا۔ ان میں سے ایک آزاد منش تھا۔ جب فوت ہوا تو دوسرے نے خواب میں دیکھا کہ بہشت کے گل و گلزار میں شاداں و فرحاں ہے۔ اس نے حیران ہو کر سوال کیا کہ تُو تو دنیا میں دین و مذہب سے لاپرواہ تھا۔ تُو یہاں کیسے پہنچ گیا۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے توحید کے متعلق میرے دو شعر پسند کرلئے اور مجھے بخش دیا۔ ان اشعار کا ترجمہ ہے:
٭ میں اس پاک پروردگار کی حمدو ثناء بیان کرتا ہوں جو خاک کو بولنے والا اور دیکھنے والا بنا دیتا ہے۔
٭ ایک چیونٹی کو شیرِ نر کی گو شمالی کی قدرت عطا کر دیتا ہے اور مچھر کو جنگی ہاتھی پر حملہ آور ہونے کی قدرت بخش دیتا ہے۔
فرمایا کہ جہل و علم کی بعض شاخیں ہیں۔ کسی پرانے شاعر کے تین شعر سناتے جن کا ترجمہ یوں ہے:
1۔ وہ شخص جو علم نہیں رکھتا لیکن سمجھتا ہے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے، وہ ہمیشہ ہمیش جہل مرکب میں گرفتار رہتا ہے۔
2۔ اور وہ شخص جو کہ علم تو رکھتا ہے لیکن یہ بھی احساس رکھتا ہے کہ میں بھی عالم ہوں۔ یہ بھی کسی طور پر اپنے گدھے کو منزل پر پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے۔
3۔ اور وہ شخص جو کہ عالم ہے لیکن اپنی بے بضاعتی کا ادراک رکھتا ہے۔ یہ شخص ہے جو اپنے خوشی کے گھوڑے کو آسمانوں سے بلند تر لے جاتا ہے۔
الغرض اللہ تعالیٰ کا یہ عالی وقار بندہ، نابغہ روزگار ہستی، تواضع اور سراسر فروتنی کا پیکر دنیا سے اپنی خداداد علمیت کا لوہا منواکر، بین الاقوامی اعزاز حاصل کر کے، پیاروں سے رخصت ہوکر پیاروں سے جاملا۔ آپ کی تحقیق ام الالسنہ سے حضرت مسیح موعود کی صداقت ثابت ہوئی اور آپ کا نام رہتی دنیا تک زندہ ٔ جاوید ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے الفاظ میں: ’’ ہم نہایت خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے مخلص دوستوں نے اشتراک السنہ ثابت کرنے کے لئے وہ جانفشانی کی ہے جو یقینا اس وقت تک اس صفحۂ دنیا میں یادگار رہے گی جب تک کہ یہ دنیا آباد ہے …‘‘۔
زہے خوش نصیبی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا: مجھے ان سے گہری ذاتی محبت تھی۔
نیز فرمایا۔ میں نے ایک نظم میں ایک شعر خاص طور پر ان کو ذہن میں رکھ کر کہا۔ وہ شعر تھا ؎

یہ شجر خزاں رسیدہ ہے مجھے عزیز یارب
یہ اِک اور فصلِ تازہ کی بہار تک تو پہنچے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں