حضرت شیخ خدا بخش صاحب لائلپوریؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15 و 18دسمبر 2008ء میں مکرم ملک محمد شریف صاحب لائلپوری نے اپنے والد حضرت شیخ خدا بخش صاحب لائلپوری کی سیرت و سوانح پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
حضرت شیخ خدا بخش صاحبؓ وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ والدین کا سایہ بچپن میں سر سے اُٹھ گیا تو پرورش چچا نے کی جو کہ ریاست اندور میں فوج میں ملازم تھے۔ پنشن ملنے پرچچا وزیرآباد آکر آباد ہو گئے۔ شیخ صاحب ابھی نوجوان ہی تھے کہ چچا بھی انتقال کر گئے۔
شیخ صاحب صرف پرائمری پاس تھے۔ مذہبی تعلیم وزیرآباد میں نامور اہل حدیث عالم حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حاصل کی تھی جنہیں حضرت مسیح موعودؑ نے دعوت مباہلہ بھی دی تھی۔ حضرت شیخ صاحبؓ گو حافظ قرآن نہ تھے لیکن قرآن شریف کی آیات ازبر تھیں۔ نماز، روزہ اور تہجد کے بہت پابند تھے۔ وزیرآباد میں آپ کے ایک دوست شیخ جان محمد صاحب احمدی ہوئے تو انہوں نے آپ کو بھی احمدیت کی دعوت کی۔ آپ نے اس کا ذکر حافظ عبدالمنان سے کیا جنہوں نے اُس حدیث کا حوالہ دیا جس میں کسوف و خسوف کا ذکر ہے۔ آپ نے اپنے دوست کو اسی حدیث کا حوالہ دیا۔ 1894ء میں اللہ تعالیٰ نے جب یہ نشان ظاہر فرمایا تو پھر دوست نے آپ کو آپ کی بات یاد دلائی۔ اس پر آپ دوبارہ حافظ عبدالمنان کے پاس آئے اور تمام ماجرا بیان کیا۔ حافظ صاحب کہنے لگے کہ میاں یہ حدیث ضعیف ہے۔ آپ نے شیخ محمد جان صاحب کو یہ جواب سنایا تو وہ ہنس پڑے اور پوچھا کہ جو حدیث آج تک ثقہ تھی وہ پوری ہونے کے بعد ضعیف کیسے ہوگئی؟۔ یہ بات جب آپ نے حافظ عبدالمنان سے بیان کی تو وہ آگ بگولہ ہوکر کہنے لگا کہ خدابخش معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو گئے ہو۔ اس لئے میں اب صبح کا ناشتہ تمہارے گھر پرنہ کروں گا اور نہ تمہارے گھرمیں داخل ہوں گا۔ (وہ ناشتہ روزانہ آپ کے ہاں آکر کیا کرتا تھا)۔
حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیرآبادی کے وزیرآباد میں ہزارہا شاگرد تھے اور علاقہ میں بہت قدرومنزلت تھی مگر اُن کے احمدی ہو جانے پر مخالفت بھی بہت تھی۔ اُن کے کہنے پر شیخ صاحب نے قادیان جانے کا ارادہ کیا۔ اگرچہ دوستوں نے بہت منع کیا لیکن آپ قادیان چلے آئے۔ جب آپ نے پہلی بار حضرت اقدسؑ کا نورانی چہرہ دیکھا تو دل نے گواہی دی کہ یہ منہ جھوٹے کا نہیں ہوسکتا۔
دوسرے دن صبح حضورؑ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو عبدالحق نامی لڑکا بھی قادیان میں آیا ہوا تھا اور حضورؑ سے اُس نے چھ سوالات کا جواب چاہا تھا۔ سیر کے لئے حضور دو تین میل دُور تشریف لے گئے اور آتے اور جاتے وقت عبدالحق کے ایک سوال کا جواب مکمل ہوا۔ اس پر اُس نے کہا کہ اُسے مزید کچھ نہیں پوچھنا اور وہ بیعت کرنا چاہتا ہے۔ حضورؑ نے اسے مزید تحقیق کرنے کا ارشاد فرمایا لیکن وہ بیعت پر مصر رہا۔ چنانچہ حضورؑ نے احمدیہ چوک میں کھڑے ہوکر اُس کی بیعت لی۔ اس وقت حضرت شیخ صاحبؓ نے بھی بیعت کرلی۔
قادیان سے واپس آنے کو آپؓ کا دل نہ چاہتا تھا مگر گھر کے حالات نے واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ پھر جب کبھی کاروبار کے سلسلہ میں لاہور اور امرتسر تشریف لے جاتے تو قادیان بھی ہو کر آتے۔ آپؓ نے وزیرآباد میں خوب تبلیغ شروع کی اور ہر مخالفت کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا۔ کئی مساجد میں مجمعوں سے بھی خطاب کرنے جاتے رہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے سفر جہلم میں حضورؓ کا ہمسفر بننے کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔ آپؓ ریل کے اُسی ڈبہ میں ایک دروازہ پر پہرہ دار کی حیثیت سے مقرر تھے۔ اس سفر کے حالات بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ منتظمین کی طرف سے ہدایت تھی کہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہو۔ لیکن کئی لوگ بڑی لجاجت سے زیارت کرانے کی درخواست کرتے اور آپؓ بعض کو یہ موقع دیدیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی نشست پر منہ پر رومال رکھے نظریں نیچی کئے تشریف فرما تھے۔ گجرات کے سٹیشن پر ایک جم غفیر حضورؑ کی زیارت کے لئے موجود تھا۔ احمدی تحصیلدار چوہدری نواب خاں صاحبؓ نے دعوت طعام کا بندوبست کیا ہوا تھا اور اپنے خدام کو حکم دیا تھا کہ پلاؤ اور زردہ کی بڑی بڑی طشتریاں بھر کر ڈبوں میں تقسیم کرتے چلے جاؤ اور یہ بتادو کہ جب دوست چاول کھالیں تو چلتی گاڑی سے لائن کے ساتھ ساتھ طشتریاں پھینکتے چلے جائیں ہم خود اکٹھی کرلیں گے۔ اتنا باافراط کھانا تھا کہ گاڑی میں سوار ہر ایک شخص نے، خواہ وہ احمدی تھا یا غیر احمدی، سیر ہو کر کھایا۔ سفر میں حضور کو الہام ہوا ’’میں ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا‘‘۔ یہ الہام اسی وقت سنا دیا گیا۔ گوجرانوالہ، وزیرآباد، گجرات، لالہ موسیٰ اور جہلم کے سٹیشنوں پر اس قدر لوگ زیارت کے لئے آئے کہ انسانوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کی شخصیت میں وہ جذب پیدا کر دیا تھا کہ باوجودیکہ یہ ہجوم احمدی نہ تھا لیکن لوگ زیارت کے لئے اس قدر بیتاب تھے کہ آپ کے چہرہ مبارک کی محض ایک جھلک دیکھ لینے کے لئے سر پیر کا زور لگاتے تھے اور جب سامنے آتے تو ادب اور احترام سے جھک جھک جاتے تھے۔ ان سٹیشنوں پر جب پلیٹ فارم کے ٹکٹ ختم ہوگئے تو لوگ پھاٹک توڑ کر اندر گھس آئے۔ ریلوے ملازمین نرمی سے گرمی سے جس طرح ممکن تھا لوگوں کو ٹرین سے الگ کرنے کی کوشش کرتے لیکن وہ جذب مقناطیسی تھا کہ لوگ گاڑی سے چمٹے چلے جاتے تھے۔
جہلم کے سٹیشن پر زائرین کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ جہاں تک نظر جاتی، اردگرد کے مقامات اور سڑکیں تک انسانوں سے پٹی پڑی تھیں۔ حضرت صاحب کا سیکنڈ کلاس کا کمرہ ریزرو تھا اس لئے اس کو کاٹ کر گاڑی سے الگ کر دیا گیا۔ ایک انگریز اور اس کی بیوی ہاتھ میں کیمرہ لئے ہجوم میں دھکے کھاتے پھرتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو حضور کا فوٹو حاصل کریں۔ حضرت اقدس بڑی مشکل سے سٹیشن سے باہر نکل کر فٹن پر سوار ہوئے تو اب ہجوم کی وجہ سے سواری کا چلنا مشکل تھا۔ راجہ غلام حیدر خاں تحصیلدار جہلم حضرت اقدس کی فٹن کے ساتھ ساتھ ہجوم کے ریلے کو روکتے اور مناسب انتظام کرتے چلے جارہے تھے۔ سردار ہری سنگھ رئیس اعظم جہلم نے اپنی کوٹھی پیش کی تھی۔ جب حضور اندرون کوٹھی تشریف لے گئے تو باہر بہت بڑا ہجوم حضور کی زیارت کے لئے بیتاب کھڑا تھا۔ چنانچہ راجہ غلام حیدر خان صاحب تحصیلدار نے خدمت اقدس میں درخواست کی کہ حضور کوٹھی کے اوپر چڑھ کر لوگوں کو زیارت کرادیں۔ حضور نے منظور کرلیا اور ایک کرسی پر کافی دیر تشریف فرما رہے۔ جماعت احمدیہ جہلم نے حضور اور آپ کے رفقاء کی مہمانی کا حق ادا کر دیا۔ تین دن حضور اس مقدمہ کی وجہ سے ٹھہرے اور ان تین دنوں میں کئی سو آدمیوں نے دو وقت کا کھانا کھایا۔
اس سفر میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ شہید بھی حضورؑ کے ہمرکاب تھے۔ دوسرے دن مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ عدالت کے باہر خلقت ہزارہا کی تعداد میں کھڑی ہوئی نہایت جوش اور خلوص سے آپ کی زیارت میں منہمک تھی اور کوئی وہاں سے ہلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ حضورؑ کے خدام میں موجود خان عجب خان صاحب اس جذب اور تصرف روحانی کو دیکھ کر فرط محبت میں دیوانہ کی طرح ہوگئے اور ان پر ایک رقت طاری ہوگئی اور انہوں نے عرض کیا کہ حضور میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دوں۔ آپؑ نے ہاتھ آگے کردیا اور انہوں نے کمال محبت سے حضور پُرنور کے ہاتھ کو چوم لیا۔ اس کے بعد حضورؑ نے ایک نہایت ہی پُرمعارف تقریر فرمائی۔
جب عدالت میں مقدمہ پیش ہوا اور حضور کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو مجسٹریٹ تعظیماً کھڑا ہوگیا ور حضور کو کرسی پیش کی گئی۔
جب حضرت اقدسؑ جہلم سے واپس قادیان روانہ ہوئے تو اپنی قیام گاہ سے پیدل ہی سٹیشن کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ایک احمدی کی درخواست پر چند منٹ کے لئے اُس کے مکان پر تشریف لے گئے۔ واپسی ریلوے سٹیشنوں پر پھر وہی ہجوم تھا۔ حضرت شیخ صاحبؓ وزیرآباد میں اتر گئے اور حضورؑ لاہور سے ہوکر قادیان تشریف لے آئے۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو اکتوبر 1904ء میں سفر سیالکوٹ میں بھی حضورؑکی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؓ قادیان سے روانہ ہو کر امرتسر و لاہور سے ہوتے ہوئے وزیرآباد پہنچے۔ گاڑی کے دو ڈبے ایک تھرڈ کلاس اور ایک سیکنڈ کلاس کے ریزرو تھے جنہیں وزیرآباد میں کاٹ کر سیالکوٹ والی گاڑی کے ساتھ لگایا جانا تھا۔ لیکن سٹیشن پر اس قدر ہجوم تھا کہ ریلوے ملازمین کو گاڑی کے ڈبے کاٹنے مشکل ہوگئے۔ سیالکوٹ کے سٹیشن پر بھی انبوہ خلائق تھا۔ جماعت سیالکوٹ کی طرف سے اس پلیٹ فارم پر روشنی کا بہت اچھا انتظام تھا۔ پولیس کا انتظام بھی بہت اعلیٰ تھا۔ حضرت اقدس گاڑیوں کے جلوس میں شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ جلوس کے آگے مہتابیاں چھوڑ کر روشنی کی جاتی تھی کیونکہ اس وقت سڑکوں پر روشنی کا انتظام نہ تھا۔ مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کوئی حضرت اقدس کو دیکھنے نہ جائے مگر ان کی کسی نے نہ سنی۔ حضرت اقدس کو حضرت حکیم حسام الدین صاحبؓ کے مکان پر ٹھہرایا گیا۔
2؍ نومبر 1904ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کا مشہور لیکچر حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ نے حضورؑ کی موجودگی میں ہزارہا کے مجمع میں پڑھ کر سنایا۔ سیالکوٹ میں اس سے پہلے ایسا عظیم الشان اجتماع کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ سیالکوٹ کے معززین اور ذی علم طبقہ میں کوئی ایسا نہ تھا جو وہاں موجود نہ تھا۔ لوگ کرسیوں اور فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ جلسہ کے صدر قرار پائے۔ جب لیکچر ختم ہوا تو حضرت اقدسؑ کی واپسی کے لئے ایک بند گاڑی کا بندوبست کیا گیا۔ جونہی یہ گاڑی جلسہ گاہ سے روانہ ہوئی تو مخالفین نے اس پر بے تحاشا پتھر برسائے مگر حضور بفضل اللہ تعالیٰ محفوظ رہے۔ اس سفر میں بھی کثرت سے بیعت ہوئی۔
واپسی کے سفر میں گاڑی وزیرآباد پہنچی تو ڈسکہ کے مشنری پادری سکاٹ نے حضرت اقدسؑ سے آکر ملاقات کی۔ اُس کے ساتھ عبدالحق بھی تھا۔ اُس نے عبدالحق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمارا ایک نوجوان لے لیا ہے۔ پھر دیر تک گفتگو ہوتی رہی اور جب وہ حضورؑ کے دلائل کا جواب نہ دے سکا تو اٹھ کر چلتا بنا۔ حضرت شیخ صاحبؓ لاہور تک گاڑی میں گئے اور وہاں سے واپس آگئے۔
حضرت شیخ صاحبؓ 1900ء میں ہی لائل پور (فیصل آباد) آگئے تھے مگر مستقل سکونت 1904ء میں اختیار کی۔ آپؓ نے یہاں بھی تبلیغ جاری رکھی اور وقتاً فوقتاً علماء کرام بلواکر چھوٹے پیمانہ پر جلسے بھی منعقد کرتے۔ آپؓ کی دکان ریل بازار میں تھی اور مرکز تبلیغ بنی رہتی تھی۔ کچھ نواحمدی اور کچھ مخلص احمدیوں کے لائل پور آنے سے ایک مضبوط جماعت یہاں بن گئی۔ قریبی دیہات میں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔ آپؓ بہت مہمان نواز تھے اور احمدی بلاتکلّف آپؓ کے پاس آکر قیام کرتے تھے۔ کئی احمدی جو لائل پور کے سٹیشن سے گزرتے، اُن کے لئے کئی بار آپ کھانا لے کر سٹیشن پر پہنچاتے۔
بہت سے بزرگوں نے کئی بار بڑی محبت سے حضرت شیخ صاحبؓ کی سادہ مگر پُرخلوص مہمان نوازی کو بڑی محبت سے یاد رکھا اور اس کا بار بار اظہار بھی کیا۔ بہت سے عام احمدیوں نے بھی آپؓ کی اولاد سے آپ کے اخلاص اور احمدیوں سے محبت کے واقعات کثرت سے بیان کئے جن میں سے بعض اس مضمون میں شامل اشاعت ہیں۔
طاعون کی وبا میں آپؓ نے پختہ ایمان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک نوکر کی تیمارداری کرتے رہے جسے طاعون ہوگئی تھی۔ دوسرے لوگ آپؓ کو متنبہ کرتے لیکن آپؓ اسے بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ بنالیتے۔ وہ بیچارہ تو لقمہ اجل ہوگیا۔ مگر آپؓ کو تبلیغ کا بہت موقع ملا۔ جب لائل پور میں طاعون نے اتنا زور پکڑا کہ سو سو اور دو دو سو موتوں تک روزانہ تعداد پہنچ گئی اور لوگ خائف ہوکر اپنے گھر بار کھلے چھوڑ کر شہر سے باہر جنگل میں خیمہ زن ہو گئے تو ریل بازار میں سوائے آپؓ کے کوئی شخص موجود نہ رہا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی حفاظت بھی فرمائی۔ جب طاعون کا زور ختم ہوا اور لوگ اپنے گھروں میں واپس آئے تو آپؓ کو زندہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اس سے آپؓ کی عزت اور احترام ہر مذہب والے کے دل میں پیدا ہوگئی۔ ایک دفعہ ایک سخت مخالف نے ایک اپنے واقف کار انسپکٹر پولیس سے مل کر آپؓ کو ایک سنگین مقدمہ میں ماخوذ کرنا چاہا اور آپؓ پر یہ الزام لگایا کہ بڑے بڑے نامی بدمعاش آپؓ کے پاس آکر ٹھہرتے ہیں۔ انگریز پولیس کپتان نے آپؓ کو بلایا تو آپؓ کو کچھ علم نہ تھا کہ کیا بات ہے اس لئے آپ پر کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔ آپ دعائیں کرتے ہوئے پولیس کپتان کی کچہری میں حاضر ہوگئے۔ آپؓ کی عادت تھی کہ کسی بڑے افسر کے پاس جاتے تو کمرہ میں داخل ہونے سے پہلے 33 مرتبہ یا حفیظ یاعزیز پڑھ کر کمرہ میں داخل ہوتے ہی افسر کے منہ پر پھونک مار دیا کرتے تھے۔ آپ جب کمرہ عدالت میں حاضر ہوئے تو پولیس کپتان آپؓ کی شکل و صورت دیکھ کر حیران رہ گیا اور اُس نے انسپکٹر پولیس سے پوچھا کہ کیا یہی شخص ہے جس پر یہ الزام ہے۔ آپؓ نے بتایا کہ میں لائل پور کا شہر آباد ہونے سے پہلے یہاں پر آکر آباد ہوا تھا اورمجھے 40 سال یہاں آباد ہوئے ہو گئے ہیں۔ لائل پور شہر کا ہر فرد مجھ سے اور میرے چال چلن کا واقف ہے، خواہ وہ ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو یا مسلمان ہو وہ میرے حق میں شہادت دے گا۔ اس بات کا کپتان پولیس پر بہت اثر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ہر شر سے محفوظ رکھا۔
اسی طرح ایک شخص نورالدین کشمیری پر آپؓ کے بہت احسان تھے لیکن اُس نے آپؓ کی بہت مخالفت کی اور یہاں تک دعویٰ سے کہا کہ میں آپ کو اب لائل پور شہر میں نہیں رہنے دوں گا۔ چنانچہ اس نے بہت حیلے کئے اور کئی مکر و فریب کئے۔آپ پر ایک دو مقدمات بھی جھوٹے دائر کئے۔ مگر وہ اپنی ہر تدبیر میں بری طرح ناکام ہوتا گیا۔ آخر اس کا یہ حشر ہوا کہ بہت بے عزت ہو کر شہر لائل پور سے نکل کر مختلف مقامات سے ہوتا ہوا کسمپرسی کی حالت میں لاہور منتقل ہوا اور بے نیل و مرام اس دنیا سے رخصت ہوا۔ لیکن اُس نے اپنی زندگی میں آپؓ کے بیٹوں سے مل کر اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اُس کی تباہی آپؓ کے خلاف سازشوں کا نتیجہ ہے۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو قادیان اور حضرت مسیح موعودؑ سے ایک عشق تھا اور کثرت سے قادیان تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کئی بار جب جاتے تو بس وہیں کے ہو جاتے اور آپؓ کی اہلیہ ملازم کو قادیان بھیج کر آپؓ کو واپس بلایا کرتیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی تو آپؓ سخت صدمہ کی حالت میں قادیان پہنچے اور حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت میں شامل ہوئے۔ پھر خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت آپؓ خلافت سے وابستہ رہے اور لائل پور کے احباب کو فتنہ سے بچانے کے لئے کوششوں اور دعاؤں میں مصروف رہے۔ آپؓ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احباب کی راہنمائی بھی فرمائی۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو مرکز سے اتنی محبت تھی کہ آپؓ نے اپنے دوستوں سے کہا ہوا تھا کہ جس جلسہ سالانہ پر میں حاضر نہ ہوا تو سمجھ لینا کہ میں اس دنیا میں موجود نہیں ہوں۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے اچھی صحت عطا کی ہوئی تھی اور آپ کبھی بیمار نہ ہوئے تھے۔ ایک دفعہ ہی بیمار ہوئے اور یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ ایک مہینہ بیمار رہنے کے بعد آپؓ کی وفات ہوئی۔
حضرت شیخ صاحبؓ کے ایک بیٹے محترم ملک محمد نذیر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حفاظت مرکز کے لئے خود کو پیش کرنے کی توفیق عطا کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں