حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحبؓ

حضرت سید میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی ولادت 8؍ستمبر 1890ء کو لدھیانہ میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ہاں ہوئی جو 1894ء میں قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرچکے تھے۔حضرت میر محمد اسحق صاحب بہت غریب پرور، مسکین صفت، اعلیٰ درجہ کے متبّحر عالم اور عاشقِ رسولﷺ تھے۔ آپؓ کے بارے میں یہ تفصیلی مضمون مکرم سید قمر سلیمان صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ سالانہ نمبر98ء کی زینت ہے۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کو اٹھارہ برس تک حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے قرب میں رہنے اور متعدد سفروں میں آپؑ کے ہمرکاب رہنے کا موقع ملا۔ حضورؑ کے ارشاد پر کئی خطوط تحریر کرنے اور حقیقۃالوحی کا مسودّہ بھی لکھنے کی سعادت بھی پائی اور حضرت اقدسؑ کے کئی نشانات کے عینی گواہ اور بہت سے نشانوں کے مورد بھی رہے۔
حضرت میر صاحبؓ ایک بار بہت بیمار ہوئے اور ڈاکٹروں کی رائے اچھی نہ تھی۔ حضرت اقدسؑ نے شماتت اعداء کی وجہ سے خاص دعا کی تو الہام ہوا سلام قولا من ربّ رحیم۔ اسی طرح ایک بار حضورؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؓ کا نکاح حضرت صالحہ بی بی صاحبہؓ بنت حضرت صاحبزادہ منظور محمد صاحب سے ہو رہا ہے۔ چنانچہ اُسی روز مسجد اقصیٰ میں حضورؑ کی موجودگی میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔
حضرت میر صاحبؓ نے 1910ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور 1912ء میں صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت اختیار کرلی۔آپؓ اعلیٰ پایہ کے منتظم، مناظر اور ادیب تھے۔ لنگر خانہ کا انتظام سالہاسال نہایت عمدگی سے چلایا۔جب افسر جلسہ سالانہ تھے تو ایک دفعہ حاضرین کی تعداد کی نسبت پنڈال بہت چھوٹا ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایاتو آپؓ نے راتوں رات پنڈال بڑا کروادیا چنانچہ اگلے روز حضورؓ تقریر کیلئے تشریف لائے تو بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
حضرت میر صاحبؓ کی اپنی آمدنی کم تھی لیکن غریب پروری بساط سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرتے۔ ’’دارالشیوخ‘‘ میں رہنے والے غریب احباب کی خوراک، رہائش اور کپڑوں وغیرہ کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہتے۔ آپؓ نہایت ذہین تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے ایک بار فرمایا ’’کوئی قابل سے قابل آدمی بھی اگر اعتراض کرے تو میں اسے دو منٹ میں خاموش کراسکتا ہوں مگر میر محمد اسحق صاحب جب مجلس میں بیٹھے ہوں تو میں بہت احتیاط سے بات کرتا ہوں‘‘۔
ایک دفعہ حضورؓ نے درس کے دوران ایک فقرہ بولا تو میر صاحبؓ مجلس سے اٹھ کر گئے اور پینے کے لئے پانی لاکر حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ دیکھو جو میرا منشا تھا اسے ایک لڑکا سمجھ گیا۔
آپؓ شاندار مناظر تھے۔ مناظروں میں منطقی بحث کرکے مخالف کو قابو میں رکھتے تھے۔ ایک عیسائی پادری جوالا سنگھ کا مناظروں میں ایسا رعب تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اُس کے مناظروں سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے۔ آخر گوجرانوالہ میں میر صاحبؓ سے اُس کی مڈبھیڑ ہوگئی اور پادری صاحب اپنی ہی منطق میں الجھ کر رہ گئے۔ اسی طرح ایک سناتنی سے مناظرہ ہوا تو اُس نے سنسکرت اور ہندی میں تقریر کی۔ میر صاحبؓ نے کھڑے ہوکر عربی میں تقریر کردی۔ صدر مناظرہ نے کہا ’’ہم آپ کی تقریر سمجھ نہیں سکے‘‘۔ آپؓ نے کہا کہ ہم بھی آپ کی تقریر نہیں سمجھ سکے۔ چنانچہ معاہدہ ہوا کہ صرف اردو میں تقاریر ہوں گی۔
آپؓ کی طبیعت کی سادگی تھی کہ ہر طبقہ کے لوگوں میں گھل مل جاتے تھے۔ عمدہ مزاح کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی خیال رکھتے۔ آپؓ کے حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ 1934ء میں احرار کے جلسہ میں شامل ہونے والے غیراحمدیوں کیلئے بھی لنگر خانہ میں کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔
1940ء میں حضرت میر صاحبؓ پر کسی ایسی بیماری کا حملہ ہوا جس کی ڈاکٹروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ لیکن ایسے میں بھی گو ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کیا ہوا تھا، آپؓ نے درس حدیث پھر سے دینا شروع کردیا۔ بیماری دن بدن بڑھتی گئی اور آخر 1944ء میں ایک روز بازار میں آپؓ گر کر بیہوش ہوگئے۔ پوری توجہ سے علاج شروع ہوا لیکن اگلے ہی روز 17؍مارچ 1944ء کو آپؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت آپؓ کو سورہ یٰسین سنائی جا رہی تھی اور عجیب الٰہی تصرف ہے کہ عین اُس وقت جب آیت ’’سلام قولا من ربّ رحیم‘‘ کی تلاوت ہوئی ، آپ انتقال کرگئے۔ یہ وہی آیت ہے کہ جب بچپن میں آپؓ بیمار ہوئے تو حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ کی زندگی کے بارہ میں الہاماً نازل ہوئی تھی اور اسی آیت پر 54 سال کی عمر میں آپؓ کا خاتمہ ہوا۔ آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ’’میر محمد اسحق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیرمعمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو اُن کو‘‘۔
حضرت میر صاحبؓ نے تقریباً بیس کتب تصنیف فرمائیں۔ آپؓ کی اہلیہ بھی نہایت علمی ذوق رکھتی تھیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ آپؓ کے تین صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں ہیں۔ تینوں صاحبزادوں کو اپنی زندگیاں خدمت سلسلہ کیلئے وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں