حضرت سیدہ مہر آپا اور آپ کے بیان فرمودہ ایمان افروز واقعات

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اپریل 1998ء کے متعدد مضامین حضرت سیدہ مہر آپا کی سیرۃ اور ذکر خیر پر مشتمل ہیں۔ اکثر مضمون نگاروں نے آپ کی شفقت، غریب پروری اور منکسرالمزاجی کے واقعات بیان کئے ہیں اور آپ کے بزرگوں کے بعض دوسرے ایمان افروز واقعات بھی شامل اشاعت ہیں جو حضرت سیدہ مہر آپانے بعض مواقع پر بیان فرمائے۔
مکرہ طاہرہ رشیدالدین صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ حضرت سیدہ مہر آپا بہت دعا گو خاتون تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے بچپن سے ہی دعاؤں سے شغف رہا ہے اور میرے والد محترم جب بھی سفر پر باہر جاتے تو مجھے خاص طور پر دعا کے لئے کہتے اور ساتھ ہی فرماتے کہ بشریٰ کی دعائیں اللہ تعالیٰ بہت سنتا ہے۔
مضمون نگار آپ کی قبولیت دعا کے واقعات میں سے ایک یہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے ایک بیٹے کے میڈیکل میں داخلہ کے لئے حضرت سیدہ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا لیکن اسے احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے پریکٹیکل امتحان میں بہت کم نمبر دیئے گئے چنانچہ وہ میڈیکل کالج میں نہ جاسکا۔ جب حضرت سیدہ کو یہ بات بتائی گئی تو آپ نے فرمایا اطمینان رکھو، یہ لوگ جو چاہے کریں اسے ڈاکٹر بننے سے نہیں روک سکتے۔ جب نتیجہ نکلا تو نمبر کم آنے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔ جب دوبارہ حضرت سیدہ مہر آپا کو حالات بتائے گئے تو آپ نے پُرشوکت انداز میں فرمایا کہ میں اپنی دعا کی بنا پر کہتی ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ضرور ڈاکٹر بنے گا۔ … عجیب اتفاق تھا کہ آئندہ سال میرٹ بڑھنے کی بجائے خلاف توقع کم ہوگیا اور اِن کے بیٹے کو داخلہ مل گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ایک بار حضرت سیدہ نے مضمون نگار کو بتایا کہ حضورؓ اکثر جماعت کی فلاح و بہبود کے بارہ میں ہی مشغول ہوتے۔ ایک دفعہ کسی نے آکر بتایا کہ حضورؓ کے نواسی ہوئی ہے۔ حضورؓ اپنی ہی سوچ میں خاموش رہے۔ پھر دوسری دفعہ اور پھر تیسری دفعہ یہ الفاظ دہرائے اور کہا کہ آپ سنتے ہی نہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ سُن تو لیا ہے، آپ ایک نواسی کا ذکر کر رہی ہیں اور مجھے ہزاروں نواسیوں کی فکر ہے۔ جماعت میں اتنی بچیاں پیدا ہو رہی ہیں اُن سب کی پرورش ، تعلیم و تربیت اور مستقبل کی فکر ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ اس سلسلہ میں ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے۔
حضرت سیدہ مہر آپا نے بتایا کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں بہت بیمار ہوگئی۔ میرے والد صاحب نے دادا جان (حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ) جنہیں ہم گھر میں شاہ جی کہا کرتے تھے، کو خاص طور پر دعا کے لئے کہا۔ انہوں نے فرمایا کہ بشریٰ اللہ کی عزیز ہے یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن جب بیماری کچھ اور بڑھی تو اباجان پریشان ہوگئے اور پھر حضرت شاہ جی کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ حضرت دادا جان نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور دعا میں مصروف ہوگئے۔ میں بھی چارپائی پر پڑی آپؓ کو دیکھ رہی تھی۔ آپؓ کے جسم میں کپکپی سی طاری ہوگئی اور چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ حالت جاتی رہی اور دادا جان نے فرمایا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے تو شک کرنے والوں میں سے نہ بن۔ انشاء اللہ بچی ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔
مکرمہ سیدہ احسن صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت سیدہ مہر آپا نے اپنے دادا جان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کا یہ واقعہ سنایا کہ کسی جگہ آپؓ جس مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے اُس مسجد کے دروازہ پر ایک بڑا زمیندار بیٹھ جاتا اور جب تک آپؓ مسجد میں وضو کرتے اور نماز پڑھتے وہ گندی گالیاں دیتا رہتا مگر آپؓ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے اور اطمینان کے ساتھ نماز سے فارغ ہوکر گھر واپس آتے لیکن کبھی اُسے کچھ نہیں کہا۔ ایک روز اُس زمیندار نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں۔ اس پر حضرت شاہ صاحبؓ نے پانی سے بھرا ہوا لوٹا اس کے سر پر دے مارا۔ اُس کا ماتھا پھٹ گیا اور خون بہہ نکلا۔ آپؓ نے اطمینان سے وضو کیا، نماز پڑھی اور واپس لوٹ آئے، زمیندار دروازے پر بیٹھا رہا۔ شاہ صاحبؓ دوسری نماز کے لئے تشریف لے گئے۔ دوسرے احمدیوں نے خوف ظاہر کیا کہ یہ زمیندار تو بہت اثر و رسوخ والا ہے لیکن شاہ صاحبؓ نے بے نیازی سے کہا ہمیں اُس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس کے بعد وہ زمیندار حضرت شاہ صاحبؓ سے کہنے لگا کہ مجھے مرزا غلام احمد کے دعویٰ کے بارے میں بتائیں۔ شاہ صاحبؓ نے اُسے بتایا تو وہ آپؓ کے پاؤں پر گر گیا کہ میری توبہ قبول کریں اور پھر اپنے سارے خاندان سمیت احمدی ہوگیا۔ یہ واقعہ حضرت سیدہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے سناکر بتایا کہ اُس زمیندار کے خاندان کا کوئی فرد جب بھی ملاقات کے لئے آتا ہے تو تعارف کے لئے نام کے ساتھ ’’لوٹے والے‘‘ ضرور لکھتا ہے۔
حضرت سیدہ مہر آپا کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت اور محبت بھی بے انتہاء تھی۔ حضرت سیدہ نے مکرمہ محمودہ صاحبہ سے بیان کیا کہ جب میں نئی نئی بیاہ کر آئی تو اوپر کی منزل میں رہا کرتی تھی۔ میں بہت سی لڑکیوں کو اکٹھا کرکے کھیلتی تو نیچے حضور کام کر رہے ہوتے تو کہا کرتے کہ دیکھو اوپر کون ہے اگر مہر آپا ہیں تو کچھ نہ کہنا۔
مکرمہ امۃالباسط منور صاحبہ اپنے مضمون میں بیان کرتی ہیں کہ حضرت سیدہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے ہمیں رات گیارہ بجے تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ حضورؓ اپنے کھانے پینے کی بالکل پرواہ نہ کرتے اور ہر وقت جماعتی کام ہی اُن کے پیش نظر ہوتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں