حضرت سیدہ اماں جانؓ

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ اپریل 2002ء میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت اماں جانؓ ایک انتہائی فرمانبردار، خدمت گزار اور وفادار بیوی تھیں جنہوں نے جماعت کی خواتین کی زبانی نصائح اور عملی نمونہ سے تربیت کی۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ آپؓ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطرداری اور نازبرداری آپؓ کی حضرت اقدسؑ کو ملحوظ رہتی، کبھی حضورؑ کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں۔ بے تکلّفی میں بھی آپؑ پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپؓ کے ہر انداز و کلام سے ترشح تھی‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپؑ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا۔
حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضورؑ نے متعدد مرتبہ اس کا ذکر فرمایا کہ کئی دفعہ جب رؤیا یا وحی کے ذریعہ سے کسی امر کا مجھ پر انکشاف ہوا تو بسااوقات ہمارے گھر والوں کو بھی ا س امر کے متعلق کوئی خواب یا رؤیا دکھایا جاتا۔ یہ امر آپؓ کی روحانی صفائی کا بیّن ثبوت ہے۔
محترمہ سکینہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے آپؓ کو بہت عبادت گزار، پابند نماز و تہجد اور نوافل کو دلی توجہ سے ادا کرتے دیکھا اور صحیح اسلامی رنگ میں نہایت درد و سوز و گداز سے نماز ادا فرماتے دیکھا۔ علالت کی وجہ سے روزے اگر خود نہیں رکھ سکتی ہیں تو باقاعدہ کئی ایک غریب صالح عورتوں کو خاص اپنا کھانا دے کر روزے رکھوائے۔ حج بدل دو تین بار اپنی طرف سے کروایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی خاص مالی تحریک پر، جس میں ایک سو خدام سے ایک سو روپیہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، حضرت اماں جانؓ نے فی الفور لبیک کہا۔ آپؓ نے مدرسۃالبنات کیلئے بھی اپنا ایک مکان بھی عنایت فرمایا۔ الفضل کے اجراء کے وقت اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں فروخت ہوئی، پیش کردی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ نے جو میرے حالات سے زیادہ تر واقف ہیں، ایک بار کچھ نقد روپیہ بہت ہی الحاح سے دیا اور ساتھ ہی کچھ روپیہ دیا کہ اس کو لنگر میں داخل کردیں۔
آپؓ کے حسن اخلاق کے بارہ میں مکرمہ حسن بی بی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں ٹھہری۔ حضرت اماں جانؓ نے میرے بچوں کے لئے مٹھائی کا تھال منگوایا۔ پھر میرے رنگدار کپڑے فوراً بدلوادیئے اور ایک نیا جوڑا مجھے دیا اور دوپٹہ چُن کر دیا حالانکہ اس سے پیشتر میری کوئی واقفیت آپؓ سے نہیں تھی۔
چراغ نامی ایک یتیم لڑکا آپؓ کے گھر میں پرورش پاتا رہا۔ وہ دو تین دیگر یتیم بچوں کے نام لے کر بیان کرتا ہے کہ ہم یتیم تھے اس لئے ہماری خاص طور پر خبرگیری رکھی جاتی تھی۔ حضرت اماں جانؓ کے سایہ میں ہم اس طرح زندگی گزارتے رہے ہیں جس طرح گھر کے ہی افراد ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کی طرح ہم کو بھی پیسے جیب خرچ کے ملتے تھے۔ کپڑے بھی اماں جانؓ خود بنواکر دیتی تھیں۔ وہ شفقت ہم نے اپنی ماں میں بھی نہیں دیکھی۔
مکرم ملک مبارک احمد صاحب ایمن آبادی کی ہمشیرہ حضرت اماں جانؓ کے پاس ہی رہا کرتی تھی۔ 1926ء میں جب اُس کی شادی ہوئی تو آپؓ نے ساٹھ روپیہ کا طلائی گلوبند جو تین تولے خالص سونے کا تھا، اُسے تحفۃً عطا فرمایا۔
مائی امام بی بی صاحبہ کہتی ہیں کہ مَیں نے بعض ایسی غریب لڑکیوں کو دیکھا ہے کہ جن کوکوئی پاس نہ بیٹھنے دے مگر حضرت اماں جانؓ نے اُن کے کپڑوں کی بدبو وغیرہ کا خیال نہ کرکے اُن کے سروں کو صاف کیا۔ … کثرت سے عورتیں آپؓ کی ملاقات اور زیارت کو آتی رہتی ہیں، مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپؓ نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو یا چہرہ پر شکن آیا ہو۔ کبھی اپنی زبان سے نہیں کہتیں کہ چلی جاؤ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں