حضرت سردار امام بخش خان قیصرانیؓ اور آپ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ

روزنامہ ’الفضل ربوہ ‘‘ 22اکتوبر 2012ء میں بلوچ قبیلہ کے سردار حضرت سردار امام بخش خان صاحب قیصرانیؓ کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
پندرھویں صدی کے ایک بلوچ حکمران سردار میر چاکر خان رند بلوچ (1468-1565ء) کے بھانجے سردار قیصر خان سے بلوچ قبیلہ کی شاخ ’قیصرانی‘ کی بنیاد پڑی۔ اس قبیلہ کا مسکن خاص طور پر ڈیرہ غازیخان ہے لیکن سکونت کے لحاظ سے یہ قبیلہ بلوچستان اور پختونخواہ کے بعض علاقوں تک وسعت رکھتا ہے۔ Sir Lepel Henry Griffin نے اپنی کتاب “The Punjab Chiefs” یعنی ’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ میں بھی اس قبیلہ کا ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی آواز پر لبّیک کہنے والوں میں حضرت سردار امام بخش صاحب قیصرانیؓ آف کوٹ قیصرانی ضلع ڈیرہ غازیخان بھی شامل ہیں جنہیں ان کے والد صاحب کے کہنے پر گورنمنٹ نے ریاست سے نکال دیا تھا اور اس بے بسی کی حالت میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرکے اپنی مشکلات کے دُور ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی تو جواباً حضرت اقدسؑ نے تحریر فرمایا:
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ آپ کا خط پہونچا۔ ہر ایک امر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر آپ سچے اعتقاد اور ایمان پر قائم ہوں گے۔ امید کہ اللہ تعالیٰ بہرحال آپ کے لئے بہتر کرے گا۔ گو جلدی یا کسی قدر دیر سے، استقامت اور حسن ظن کی طرف رہیں۔ آپ کو معہ آپ کی اہلیہ کے بیعت میں داخل کر لیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اپنے حالات سے بار با راطلاع دیں اور دو ہفتہ یا تین ہفتہ کے بعد اطلاع دے دیا کریں۔ یہ ضروری ہے اور اگر ایک دفعہ قادیان میں آجائیں تو بہت بہتر ہے۔ …
والسلام ۔
غلام احمد از قادیان۔ 20؍ اکتوبر1906ء‘‘۔
حضور اقدسؑ کی دعا ’’اللہ تعالیٰ آپ کے لئے بہرحال بہتر کرے گا گو جلدی یا کسی قدر دیر سے‘‘ کی قبولیت کے سامان معجزانہ طور پر اس طرح ہوئے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عہد مبارک میں آپ کے والد نے گورنمنٹ کو آپ کے آنے کی اجازت کے لئے لکھا اور آپ کو اجازت مل گئی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ولی عہد دیوانہ ہو گیا اور آپ کے والد صاحب کی وفات ہو گئی، جس کے بعد آپ کو رئیس مقرر کیا گیا۔
حضرت سردار صاحبؓ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے اپنے گھرانہ کے قبول احمدیت کے حوالہ سے 1934ء میں ایک مضمون شائع کروایا جس میں لکھا کہ ہم حنفی مذہب کے پیرو تھے، میرا خاوند شیعہ مذہب کی طرف راغب ہوگیا جس کا مجھے بہت رنج تھا۔ ہم آپس میں بہت بحث و مباحثہ کرتے، جب کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو بڑی عاجزی سے خدا تعالیٰ کے حضور یہی دعا کرتے کہ حضرت امام مہدی کو ہماری زندگی میں ظاہر فرما تاکہ وہ ان تمام جھگڑوں کا فیصلہ کریں۔ یقیناً یہ عاجزانہ دعا منظور ہوگئی کہ ہم اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت میں داخل ہوئے۔ خدا تعالیٰ نے میرے خاوند سردار صاحب کو پہلی رہنمائی یہ فرمائی کہ خواب میں کسی وجیہ شکل بزرگ نے کہا کہ دیکھو امام بخش! ابو بکرؓ و عمرؓ کے ذمہ کوئی سہو و خطا نہیں۔ اس خواب نے اُن پر ایسا اثر کیا کہ شیعہ عقائد سے فوراً دستبردار ہوگئے۔
ایک دن صبح سردار صاحب ہاتھ میں اخبار ’بدر‘ لئے گھر آئے اور مجھے کہا کہ تمہیں آج نئی بات سنائیں۔ اخبار میں حضور کے الہام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر اور کچھ لوگوں کے اعتراضوں کے جواب تھے۔ ہم نے بڑی حیرانی سے ان باتوں کو پڑھا۔ مَیں نے دریافت کیا کہ یہ اخبار کہاں سے ملی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ڈاک منشی نے دی ہے۔ ایک دفعہ اُسی منشی مذکور نے پھر اسی اخبار کا پرچہ دیا لیکن پُرانے خیالات جو عقیدہ کے رنگ میں دماغ میں آگئے تھے وہ صرف دو پرچوں سے کیسے نکلیں! لیکن دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس معاملہ کی اچھی طرح وضاحت ہو۔ مَیں سردار صاحب سے کہتی کہ کسی سے دریافت کریں تو وہ فرماتے کہ مجھے خود خیال ہے مگر کوئی واقف کار ملے تو پوچھوں!۔
تھوڑا عرصہ گزرا کہ گورداسپور کا ایک میرآب (دریا کے پانی کا محافظ) ملازمت کے باعث یہاں آگیا۔ سردار صاحب نے اُس سے دریافت فرمایا تو اُس نے ہماری تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور کہا کہ یہ محض دکانداری اور دھوکہ بازی ہے۔ پھر کافی عرصہ کے بعد سردار صاحب اپنے کام کی خاطر لاہور گئے اور مہینہ سے زیادہ وہاں رہے، وہاں اُنہوں نے مخالفت مسیح موعودؑ کا وہ شور دیکھا کہ الامان! شاہی مسجد میں تقریر ہو رہی تھی، ٹریکٹ و اشتہارات مفت تقسیم کئے جا رہے تھے، سردار صاحب کو بھی دیئے گئے جو آپ ہمراہ لے آئے۔
اسی عرصہ میں قریبی بستی بزدارؔ میں احمدیت پہنچ چکی تھی لیکن ہمیں کچھ علم نہ تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہاں کا باشندہ مولوی ابوالحسن خان دہلی پڑھتا تھا وہاں سے وہ احمدیت لایا اور بستی بزدار میں تین شخص احمدی ہو گئے، دو شخص خواندہ تھے تیسرا ناخواندہ تھا، اسی ناخواندہ کے ذریعہ خداتعالیٰ نے ہمیں احمدیت جیسی نعمت عطا کی۔ اللہ تعالیٰ اُسے غریق رحمت کرے۔ پھل خان اس کا نام تھا، جراحی کا کام کرتا تھا اور کوٹ قیصرانی میں بھی آکر لوگوں کا علاج کرتا رہتا تھا۔ ایک دن سردار صاحب اپنی مردانہ بیٹھک میں چند آدمیوں سمیت بیٹھے تھے کہ پھل خان آگیا، کسی شخص نے بتایا کہ پھل خان نے مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ اس پر سردار صاحب نے اُس سے پوچھا تو اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر خیر کیا۔ سردار صاحب نے جو کچھ لاہور میں سُن رکھا تھا، اُس کی بِنا پر پھل خان کو غلطی خوردہ سمجھ کر اُس کو سمجھانے لگے۔ اس پر اُس نے کہا کہ دیکھو سردار صاحب! آپ نے مخالفوں کی تقریریں سنیں، لٹریچر پڑھا، اگر تحقیقِ حق ہے تو ہماری کتابیں بھی پڑھیں، مَیں آپ کو لا کر دوں گا۔ سردار صاحب نے وعدہ کیا کہ ضرور پڑھوں گا۔ وہ مرحوم و مغفور انسان تلاش کر کر کے ہمیں کتابیں لاکر دیتا، ایک ختم ہوتی تو اَور تلاش کر کے لاتا۔ جاڑے کا موسم تھا اکثر ہم رات کو پڑھتے تھے، سچ آخر سچ ہی ہے، مخالفین کی باتیں بھی تو ہم نے سُنی اور پڑھی تھیں، اُن کے مقابلہ میں یہ کتب نُور اور نافہ تھیں جو ہمارے دماغوں کو روشن اور معطّر کرنے لگیں، ہمارے مخالف اگر تحقیقِ حق کے خیال سے پڑھیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ اُن پر حق ظاہر نہ ہو۔
جب ہم پر حق کھلنے لگا اور دن بدن ایمان ترقی کرتا ہوا یقین کی حد کو پہنچا تو پھر مَیں اس خوشی کی کیا مثال دوں؟ جیسے افلاس کی حالت میں کسی کو مدفون خزانہ مل جائے یا جاں بلب پیاسے کو سرد خوش ذائقہ شربت مل جاوے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے جس کے انتظار میں ہمارے باپ دادا گزر گئے، سینکڑوں اولیاء اللہ ترستے رہ گئے، وہ ہمیں یہیں پنجاب میں مل گیا۔ جب ہم کو یقین ہوگیا کہ یہ وہی مسیح اور مہدی ہیں تو پھر 20؍ اکتوبر1906ء کو ہم دونوں میاں بیوی نے بذریعہ خط بیعت کر لی۔ سردار صاحب نے خود تو دو تین مہینے بعد قادیان جاکر دستی بیعت کی مگر عاجزہ نے 1907ء میں بال بچوں سمیت بہمراہی سردار صاحب قادیان جاکر زیارت کا شرف حاصل کیا۔
جب ہم حضرت اقدسؑ کے دروازے پر پہنچے تو دربان نے ایک عورت کو بلایا جو گھر کے اندر لے گئی۔ صحن میں تخت پوش پر ایک عابد شکل، مجسم نور اسّی سالہ بزرگ بیٹھا وضو فرما رہا ہے، آگے قلم و دوات اور کاغذات رکھے ہوئے ہیں، دل نے گواہی دی کہ ضرور یہی بزرگ مسیح موعودؑ ہوں گے مگر مَیں نے احتیاطاً اپنی راہبر عورت سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہی حضرت صاحب ہیں۔ چونکہ حضرت اماں جانؓ سامنے کے کمرہ میں تشریف فرما تھیں، اس لئے وہ راہبر خاتون ہمیں وہاں لے جا رہی تھی لیکن میں پہلے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں چلی گئی، السلام علیکم عرض کر کے نیچے پختہ فرش پر بیٹھ گئی۔ حضور نے سلام کا جواب دے کر دریافت فرمایا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے اپنا وطن بتایا، سردار صاحب کا نام لیا۔ آپؓ بشاش چہرے سے حال دریافت فرماتے اور مسکراتے رہے۔ عصر کا وقت تھا حضور نماز کی تیاری کر رہے تھے، آپؑ مسجد مبارک میں نماز پڑھنے تشریف لے گئے اور ہمیں فرمایا کہ آپ وہاں جا بیٹھیں یعنی جہاں حضرت اماں جان صاحبہ تشریف فرما تھیں۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچے۔ السلام علیکم عرض کیا، آپ نے کمال مہربانی اور کشادہ پیشانی سے جواب دیا۔ احوال دریافت فرمایا۔ پیاس کا پوچھا۔ فوراً شربت بنوایا، ہم چار آدمی تھے۔ سیر ہوکر پیا۔ کیا ہی مہمان نوازی ہے۔ ہمارا وہ آقا جو روحانی باپ تھا جس کا کلام ہم جیسے مُردہ لوگوں کے لیے زندگی بخش تھا، واقعی اس کے شایانِ شان یہی ہماری روحانی والدہ حضرت اماں جانؓ تھیں۔ بذات خود چل کر ایک کمرہ دیا، سامان رکھوایا، پُرتکلّف کھانا بھجوایا۔ مَیں نے کھانا کھانے کے بعد شام کو جاکر بیعت کے واسطے عرض کیا تو فرمایا کہ آپ آج ہی آئے ہو، رہو گے تو بیعت بھی ہوجائے گی۔ دو روز کے بعد پھر مَیں نے بیعت کے متعلق عرض کیا تو فرمایا کہ کیا آپ نے میری کوئی کتاب بھی دیکھی ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ ہاں حضور! مَیں نے بہت سی کتب دیکھی ہیں۔ حضورؑ نے نام دریافت فرمائے تو مَیں نے جتنے نام یاد آئے سنا دئیے تو آپؑ نے بہت خوش ہوکر میری بیعت لی اور فرمایا کہ اس وقت جو کتاب تحریر کر رہا ہوں اس کا نام ’’چشمۂ معرفت‘‘ رکھوں گا، جب چھپے گی تو آپ کو بھجوادوں گا۔
حضرت سردار بیگم صاحبہؓ کے سفرنامہ میں درج بہت سی دلچسپ روایات میں سے چند ایک پیش ہیں:
=… ایک دن حضرت اماں جانؓ حضرت اقدسؑ کے ہمراہ بغرض تفریح سیر کو باہر تشریف لے گئیں، عاجزہ راقمہ اور دیگر بہت سی مستورات برقعہ پوش بھی ساتھ چل دیں۔ میرا بیٹا سردار امیر محمد خان قریباً چار سال کا ہوگا، یہ حضورؑ کے آگے پیچھے دوڑتا اور کھیلتا جاتا تھا۔ ہمارے ملک میں لڑکوں کو بھی زیور پہناتے تھے چنانچہ یہ بھی زیوروں سے خوب آراستہ تھا، جب حضورؑ واپس دولت خانہ تشریف لائے تو مجھے فرمایا کہ خدا نے آپ کو لڑکا دیا تو کیا آپ کا دل چاہتا ہے کہ یہ زیور پہن کر لڑکی نظر آئے؟ میں یہ ارشاد سن کر فوراً زیور اتارنے لگی تو حضرت اماں جانؓ نے فرمایا: یہ سعادت مَیں حاصل کرتی ہوں۔ پھر بذات خود سب زیور اُتار دیئے۔ تب حضرت اقدسؑ نے بچہ کے پاس آکر تبسم سے فرمایا کہ تم احمدی اب ہوئے ہو۔
اتنا ضرور عرض کروں گی کہ غضِّ بصر کی وجہ سے اب تک حضورؑ کو پتہ نہ لگا تھا ورنہ جب میں حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو بچہ ہمیشہ ہی میرے ساتھ ہوتا، آج حضورؑ کے آگے پیچھے دوڑتا ہوا نظر آیا تب زیورات کا پتہ لگا۔
=… ایک دن رتھ کی سیر کو تشریف لے گئے۔ حضرت اقدسؑ و حضرت اماں جانؓ اور چھوٹی صاحبزادی امۃالحفیظ بیگمؓ دروازہ سے ہی سوار ہوئے، باقی مستورات پیچھے جارہی تھیں کہ تھوڑی دُور جاکر حضورؑ اُتر پڑے اور میرے واسطے فرمایا کہ وہ سوار ہوں۔ مَیں یہ سمجھ کر کہ حضورؑ کی بڑی صاحبزادی اور بڑی بہو پیدل ہوں اور میں سوار!۔ یہ عذر کر دیاکہ مَیں بخوشی پیدل چلتی ہوں۔ حضورؑ نے میری بات سن کر فرمایا کہ نہیں آپ سوار ہوجاویں۔ دوبارہ عرض کیا کہ ابھی تھکی نہیں۔ تب حضور نے فرمایا کہ حکم کا مان لینا سعادت ہے۔ تب میں فوراً سوار ہو گئی۔ حضورؑ واپس تشریف لے گئے، تھوڑی دُور جاکر حضرت اماں جانؓ اُتر گئیں اور حضورؑ کی صاحبزادی اور بہو صاحبہ سوار ہوئیں۔
=… ایک دن حضورؑ کا وضو ایک خادمہ کرا رہی تھی، جو پانی نیچے گر رہا تھا مَیں نے ایک چُلّو اس سے لے کر سردار امیر محمد خان کی آنکھوں پر لگایا کیونکہ پسرم کی آنکھیں ہمیشہ خراب رہا کرتی تھیں، بہت سے علاج کیے حتیٰ کہ جونکیں لگوائیں مگر پوری شفایاب کبھی نہ ہوتی تھیں۔ خدا کے فضل سے اُسی دن سے خدا نے شفا بخشی، پھر کبھی خراب نہ ہوئیں۔ پھر مَیں نے جاکر لوٹا لینا چاہا کہ مَیں وضو کراؤں، وہ انکار کرنے لگی۔ حضورؑ نے فرمایا: دے دو، ہر ایک کے واسطے سعادت ہے۔ تب اُس نے دیدیا۔
=… ہم کو دار الامان آئے ہفتہ ہوا تب سردار صاحب نے مجھے فرمایا کہ حضرت اقدس مہمانوں کو جلد رخصت نہیں دیا کرتے، آج ضرور رخصت کے واسطے عرض کر دینا، آخر حضور فرمائیں گے کہ کچھ دن اور ٹھہرو تو دو چار دن اور رہ پڑیں گے۔ چنانچہ رخصت لینے مَیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی، حضور اپنی تالیفات کے کام میں مصروف تھے، مَیں نے جاکر سلام عرض کرنے کے بعد رخصت کا نام لیا اور نیز دعا کے واسطے بھی عرض کی۔ تب فرمایا کہ ایسی جلدی کیوں؟ کیا گھر کے واسطے اداس ہو گئے ہو؟ یا کھانا، مکان کے متعلق کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ اگر تکلیف ہو تو میں رفع کرسکتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ تکلیف کہاں کی، گھر سے بھی زیادہ آرام ہے۔ لیکن پیچھے کچھ مجبوریاں تھیں جو میں نے حضور کی خدمت میں بیان کیں تب حضور نے فرمایا کہ رہو، میں ابھی تک آپ کا معاملہ سمجھا ہی اچھی طرح سے نہیں، میں دعا کروں گا اگر خدا سے کچھ ظاہر ہوا تو بتا بھی دوں گا اور مہربانی کے لہجہ میں فرمایا کہ دیکھو قسمت سے ملاقات ہوتی ہے۔ نہ مجھے اپنی زندگی پر بھروسہ ہے نہ دوسروں پر۔ آپ دُور سے آئے اور اتنا حرج اور خرچ کرکے آئے ہو تو مناسب ہے کچھ دن اَور رہو۔
ز… ایک دن حضور کو درد گردہ ہوگیا۔ کئی اور علاج بھی کئے ہوں گے مگر چولہے میں آگ جلا کر مٹی کے ٹکڑے گرم کرکے لائے جاتے اور حضورؑ خود یا حضرت اماں جانؓ درد کی جگہ ٹکور کرتے جاتے۔ پلنگ پر کبھی آپ لیٹتے کبھی بیٹھتے، غرض تکلیف سے سخت بے آرام تھے۔ اتنے میں عصر کی اذان ہوئی تو خدا کے اس برگزیدہ نے درد پر گرم خشت باندھ کر نماز ادا کرکے دکھا دیا کہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لازمی ہے اور نماز بھی فرض۔
حضرت سردار امام بخش صاحبؓ نہایت مخلص اور نیک انسان تھے، قادیان حاضر ہوتے تو حضورؑ کی پرانے خدام سے محبت کو نہایت رشک سے دیکھتے، ایک دفعہ فرمانے لگے پُرانے صوفیا کے طرز پر ہر ایک بزرگ کا کوئی معشوق ظاہری بھی ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کے معشوق مفتی صاحب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اکثر جب حضرت صاحب آتے ہیں تو سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ ’’مفتی صاحب کہاں ہیں؟‘‘
1909ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایک دورے کے سلسلے میں جب لیّہ سے گزرے تو حضرت سردار صاحبؓ اخوّت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند دیگر احباب کے ہمراہ ملاقات کے لئے سٹیشن پر تشریف لے گئے۔


حضرت سردار شیربہادر قیصرانی صاحبؓ کی دو تصاویر

رشید احمد قیصرانی صاحب

حضرت سردار امام بخش قیصرانی صاحبؓ اپنے علاقہ میں معزز اور وجیہہ سردار ہونے کے باوجود خلافت کے ساتھ گہری وابستگی اور خلیفۂ وقت کے کامل مطیع اور حد درجہ فرمانبردار تھے۔خلافت کے ساتھ نہایت وفا اور اخلاص کا تعلق تھا۔ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت سردار شیر بہادر خان قیصرانی صاحبؓ (ولادت 1876ء- وفات 28 دسمبر 1956ء) کے بیٹے مشہور شاعر مکرم رشید قیصرانی صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت سردار امام بخش قیصرانی صاحبؓ کی خلافت کے ساتھ محبت اور عقیدت کا ذکر یوں فرمایا کہ یہ بہت بہادر اور بہت مخلص تھے۔ انگریزوں نے جو مختلف خاندانوں کو مقام دیئے ہوئے تھے ان میں قیصرانی سرداروں کا مقام قادیان میں ہمارے خاندان سے آگے تھا۔ اور جب وائسرائے کا دربار لگتا تھا توان کو آگے کرسی ملتی تھی اور جو خاندان ہمارا تھا،آبا و اجداد کا اس کو نسبتاً پیچھے کرسی ملتی تھی۔ غالباً پرنس آف ویلز آئے تھے یا کوئی اور شہزادے آئے تھے۔ بڑے اہتمام سے ایک دربار بلایا گیا، پنجاب چیفس کی کرسیاں حکومت کے لحاظ سے ترتیب سے لگائی گئی تھیں۔ جو سب سے معززوہ آگے جو اس کے بعد وہ اس کے پیچھے ۔ اس طرح کرسیوں کی قطاریں ان خاندانوں کے انگریزوں کی نظر میں مقام کو بھی ظاہر کرتی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ بھی مدعوتھے اور ایسا اہم موقعہ تھا کہ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپؓ ضرور جائیں۔ آپؓ بھی چلے گئے تو قیصرانی سردار کی کرسی آگے تھی اور کچھ پیچھے ہٹ کر حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی تھی۔ اب انگریزوں نے مذہب کے لحاظ سے تو کوئی عزت نہیں دینی تھی، ان کو پرواہ بھی کوئی نہیں تھی لیکن خاندانی مقام کے لحاظ سے انہوں نے ٹھیک کیا۔ حضرت امام بخش قیصرانیؓ کی نظر پڑگئی کہ حضرت مصلح موعودؓ پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فوراً اپنی کرسی موڑی اور شہزادے کی طرف پیٹھ کرکے حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منہ کرلیا۔ سرداروں کا یہ ایک دستور ہے کہ اکٹھے رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی معزز آدمی حرکت کرے تو دوسرے بھی ویسے ہی کرتے ہیں۔ تو جتنے بھی ڈیرہ غازیخان کے معزز سردار تھے ان سب نے اپنی کرسیاں پھیرلیں۔ وائسرائے گھبراگیا۔ اس نے سمجھا کہ کوئی بغاوت ہونے والی ہے۔ اتنی عجیب حرکت۔ اس نے فوراً آدمی دوڑایاکہ کیا ہوا ہے۔ کوئی ناراضگی ہوئی ہے تو ہمیں بتائیں۔ انہوں نے کہا ناراضگی تو کوئی نہیں مگر یہ میرا روحانی پِیر ہے، میرے نزدیک یہ زیادہ معززہے، مَیں اس کی طرف پیٹھ نہیں کرسکتا۔ تواُنہوں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کرسی وہاں سے اُٹھوائی، اگلی صف میں ساتھ رکھی تو پھر وہ سارے سیدھے ہوگئے۔ یہ ہے قیصرانی قبیلے کی داستان جو ہمیشہ یادرہے گی۔ان کی بہادری ان کا اخلاص۔
حضرت سردار امام بخش قیصرانیؓ نے 1924ء میں وفات پائی۔ آپ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ بھی اپنے خاوند کی طرح مخلص احمدی تھیں،بڑے اخلاص اور توجہ سے جماعتی کام سر انجام دیتیں۔ آپ اپنے بیٹے مکرم سردار امیر محمد خان صاحب قیصرانی کی وجہ سے والدہ امیر محمد خان کے ساتھ جانی جاتی تھیں۔ 1932ء میں چوہدری فیض احمد صاحب انسپکٹر نظارت مال نے ڈیرہ غازی خان کا دورہ کرنےکے بعد اپنی رپورٹ میں وہاں کی لجنہ اماء اللہ کے کام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تعریفی کلمات لکھ کر رپورٹ دفتر مال کو بھجوائی۔ اس لجنہ کی صدر آپؓ ہی تھیں جو اپنی خدا داد قابلیت اور اخلاص و ایثار سے لجنہ کے کام کو اپنی زیر نگرانی انجام دیتی تھیں۔ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس دیتی تھیں۔ باقاعدہ رجسٹر، رسید بکیں اور رجسٹر روئیداد وغیرہ موجود تھا۔ آپؓ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسی طرح قادیان میں ایک دفعہ نظارت ضیافت نے جلسہ سالانہ کے لیے دیگوں کی تحریک کی جس پر لبّیک کہتے ہوئے حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے بھی ایک دیگ پیش کی۔ آپ موصیہ بھی تھیں۔
حضرت سردار بیگم صاحبہؓ نے 14 فروری 1959ء کو وفات پائی۔ یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

حضرت سردار امام بخش خان قیصرانیؓ اور آپ کی اہلیہ حضرت سردار بیگم صاحبہؓ” ایک تبصرہ

  1. میں حضرت سردار امیر محمد خان قیصرانی، چیف آف قیصرانی ٹرائب، کا پوتا اور موجودہ سیاسی اور خاندانی وارث ہوں ۔ آپ کا آرٹیکل انتہائی ایمان افروز اور بالکل حقائق پر مبنی ہے۔ ………. ۔ ایک اور شہادت دیتا چلوں کہ حضرت مسح موعود کے وضو کے پانی کی برکت کی وجہ سے 83 سال کی عمر تک دادا جان کو دوبارہ کبھی آنکھوں کی بیماری نہیں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں