حضرت راجہ عطا محمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍اپریل 2007ء میں حضرت راجہ عطا محمد صاحبؓ آف یاڑی پورہ کشمیر کا ذکرخیر اخبار الحکم کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت راجہ عطا محمد خان صاحبؓ کا شمار اولین صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ کے اجداد علاقہ کرناہ پر حکمران تھے مگر سکھوں کے آخری زمانہ میں اس علاقہ پر بھی سکھوں کا قبضہ ہوگیا۔ بعد میں ان کو یاڑی پورہ وغیرہ گاؤں کشمیر میں بطور جاگیر ملے۔ قبول احمدیت سے پہلے حضرت راجہ صاحب اہل حدیث تھے۔ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ جب جموں میں طبیب تھے تو اس وقت آپ کے ان کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے اور وہی تعلق بالآخر آپ کے احمدی ہونے کا ذریعہ بنا۔ جب حضرت راجہ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا اشتہار پڑھا تو آپ بڑے متاثر ہوئے۔ آنکھوں میں موتیا ہونے کی وجہ سے خود قادیان جانے سے معذور تھے اس لئے اپنے چھوٹے بھائی حضرت راجہ محمد حیدر صاحب کو قادیان بھیجا کہ حضور کو میرا سلام پہنچائیں اور مزید معلومات لے کر آئیں۔ واپسی پر جب حالات سنے تو آپ رونے لگے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کہ آپ نے مسیح ومہدی کا زمانہ پایا۔ پھر بیماری اور رستے کی دشواری کے باوجود چند مخلص ملازموں کو ساتھ لے کر قادیان پہنچے۔ راستہ میں بعض لوگوں نے بہکایا بھی مگر آپ حضورؑ کی خدمت میں پہنچ گئے اور فرط جذبات میں زمین پر گرپڑے۔ حضورؑ نے اپنے ہاتھ سے آپؓ کو اٹھایا اور شربت منگوا کر پلایا اور تسلی و تشفی دی۔ بیعت کے بعد کچھ عرصہ قادیان میں رہے۔ حضورؑ سے آنکھوں کے علاج کا ذکر کیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ اس کے لئے لاہور چلے جائیں، انشاء اللہ آپ کی آنکھیں اچھی ہوجائیں گی۔ حضورؑ نے آپ کو ایک پاکیزہ اور نیک روح دیکھ کر اجازت دیدی کہ آپ لوگوں سے میری بیعت لے لیا کریں۔
آپؓ نے لاہور جاکر علاج کروایا اور حضور کی دعاؤں سے آپؓ کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔ آپ پھر قادیان آئے اور کچھ عرصہ مزید ٹھہر کر روحانی فیض حاصل کیا اور پھر کشمیر چلے گئے اور تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ چونکہ آپؓ کی نیکی اور راستبازی مسلّم تھی اس لئے بہت سے اقرباء اور احباب حضور کی بیعت میں داخل ہوگئے۔ آپؓ علم طب سے بھی واقف تھے اور مفت لوگوں کا علاج کیا کرتے تھے۔
حضرت راجہ صاحبؓ پہلے ریاست میں تحصیلدار تھے۔ پھر ڈپٹی کمشنر ہو کر گلگت بھی گئے۔ آخری عمر وہیں گزاری اور سلسلہ احمدیہ کا پیغام پہنچاتے رہتے۔
جب قادیان سے واپس جارہے تھے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ گڑھی حبیب اللہ خان کے مقام پر اپنے ساتھیوں کو یاڑی پورہ روانہ کردیا اور خود معہ فرزند وملازم گڑھی کے رئیس خان محمد حسین خانصاحب کے ہاں مقیم ہوئے۔ ان دنوں گڑھی میں احمدیوں کے خلاف واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیدیا گیا تھا۔ جب کچھ لوگوں کو آپؓ کے قیام کا علم ہوا تو انہوں نے محمد حسین خان کو ساتھ ملا کر آپؓ کے اور آپؓ کے بیٹوں کے قتل کا منصوبہ بنایا کہ یہ بڑا باعث ثواب کام ہے۔ محمد حسین خانصاحب اپنی سادگیٔ طبع کی وجہ سے ان کے کہنے میں آگئے۔ جب آپؓ بے خبر رات کو سوگئے تو تھوڑی رات گزرنے پر حضرت مسیح موعودؑ خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ راجہ صاحب آپؓ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ہے۔ اسی وقت آپ کی آنکھ کھل گئی اور ساتھیوں کو جگا کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ سفر میں نماز ادا کی تو دیکھا کہ گڑھی کے رئیس کا وزیر گھوڑا دوڑائے پیچھے آرہا ہے اور کچھ کھانا بھی ساتھ لایا ہے۔ اس نے آپؓ کو جان کی سلامتی کی مبارکباد دی اور ساری شرارت کا قصہ سنایا اور تعجب سے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا۔ آپؓ نے بھی ساری حقیقت بتائی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا۔
حضرت راجہ صاحبؓ نے 14 ؍اپریل 1904ء کو 70 سال کی عمر میں وفات پائی اور چک ایمرچ قریب یاڑی پورہ علاقہ کشمیر میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں